دا ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر پر ایک نظر
تبصرۂِ فلم از، حسین جاوید افروز
بولی وڈ فلم انڈسٹری میں سیاست کے موضوع پر کئی شاہکار فلمیں اب تک سامنے آ چکی ہیں جن میں راج نیتی ،آج کا ایم ایل اے،انقلاب، ریڈ، آندھی، گاندھی، ٹھاکرے، مدراس کیفے، انقلاب اور نائیک جیسی بہترین فلمیں شامل ہیں۔ لیکن حال ہی میں رہلیز ہونے والی فلم The accidental prime minister اس سلسلے میں ایک کم یاب اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ فلم کا مرکزی خیال من موہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر سنجے بارو کی کتاب The accidental prime minister سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔
در حقیقت سنجے بارو نے سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ پرائم منسٹر آفس میں گزارے گئے تجربات اور اقتدار کی غلام گردشوں کے ماحول کو اپنی کتاب میں کھل کر بیان کیا۔ یوں اب پردہ سکرین پر ہم اس کتاب کے متن سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ فلم 2004 کے لوک سبھا الیکشن کے بعد شروع ہوتی ہے جب سونیا گاندھی پر اپوزیشن رکیک حملے شروع کرتی ہے کہ ایک غیر ملکی عورت کو بھارت کی وزرات اعظمیٰ پر نہیں برجمان ہونا چاہیے۔
ایسے میں کانگرس کے کئی چوٹی کے رہنماؤں کو اس وقت شدید دھچکا لگتا ہے جب سونیا گاندھی بھارت کے نئے وزیر اعظم کے طور پر کم گو اور شریف النفس من موہن سنگھ کا انتخاب کرتی ہیں۔
اس چوائس کے پیچھے گاندھی خاندان کا یہ مقصد بھی پنہاں ہوتا ہے کہ وہ من موہن سنگھ کو ایک ربڑ سٹمپ وزیر اعظم کے طور پر استعمال کر سکیں گے۔ یوں جلد ہی وزیر اعظم ہاؤس میں کانگرسی لابی احمد پٹیل کی قیادت میں اپنے پنجے گاڑ لیتی ہے۔
کہانی اس وقت دل چسپ موڑ اختیار کرتی ہے جب من موہن سنگھ اپنے میڈیا ایڈوائزر کے طور پر سنجے بارو کی تعیناتی عمل میں لاتے ہیں۔
مزید دیکھیے: ہیرانی کے پاس ایسا کیا ہنر ہے؟ از، خضرحیات
نندیتا داس نے منٹو سے ملاقات کرا دی تبصرۂِ فلم از، نَسترن فتِیحی
صحافیانہ پس منظر سے وابستہ سنجے بارو، روایتی سرکاری پروٹوکول سے یکسر نالاں نظر آتا ہے اور وہ ہر دم اس جستجو میں لگا رہتا ہے کہ کسی طرح کانگرسی لیڈر شپ اور وزیر اعظم ہاؤس کے درمیان تال میل میں مساوات کے عنصر کو شامل کرے تاکہ عوام میں من موہن سنگھ کا بطور وزیر اعظم ایک مضبوط شخص کا تاثر ابھر سکے۔اپنی اس کوشش میں اس کی کانگرسی رہنماء اور گاندھی خاندان کے خاص کارندے احمد پٹیل سے مسلسل نوک جھونک جاری رہتی ہے۔
جلد ہی سنجے بارو ،کانگرسی قیادت اور جماعت میں ایک ناپسندیدہ شخص کے طور پر جانا جاتا ہے مگر پھر بھی من موہن س سنگھ کے ساتھ قربت کی بدولت وہ پہلی ٹرم تک وزیر اعظم ہاؤس میں سرگرم کردار نبھاتا دکھائی دیتا ہے ۔لیکن2009 کے الیکشن کے موقع پر من موہن سنگھ اور سنجے بارو کے درمیان ہم آہنگی کیوں مدھم ہوتی دکھائی دیتی ہے ؟کیا سنجے بارو ،من موہن سنگھ کی بطور وزیر اعظم دوسری مدت میں وزیر اعظم ہاؤس میں خود کو جما پاتا ہے ؟کیا سونیا گاندھی اور من موہن سنگھ کے درمیان اختلافات منموہن سنگھ کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیتے ہیں؟
کیا سنجے بارو ، من موہن سنگھ کو اپنی کتاب سے مطمئن کر پائے گا ؟ان تمام سوالوں کے جوابات آپ کو The accidental prime minister میں مل جائیں گے ۔اگرچہ تنقید نگار فلم کے رائٹر اورفلم میکر،وجے رتنا کر گوٹے پر تنقیدی نشتر بھی برسا رہے ہیں کہ ان کی لکھی گئی کہانی پردہ سکرین پر اتنی دم دمدار طریقے سے سامنے نہیں آ سکی جتنا دم دار وہ، بارو کی کتاب میں دکھائی دیتی ہے ۔اسی طرح فلم کے اسکرین پلے میں کئی جھول دکھائی دیتے ہیں جبکہ فلم کا میوزک بھی ناظرین پر کوئی دیرپا اثر مرتب نہیں کرپاتا۔ تاہم یہاں میں وجے رنتا کر کو گریس مارکس ضرور دوں گا کہ اس نے آج کے کمرشل سنیما کے دور میں ہندوستان کی تازہ سیاسی تاریخ پر کام کرنے کا ارادہ کیا جو کہ ہرگز کوئی آسان کام نہیں تھا۔فلم میں ایوان وزیر اعظم کے جاہ جلال کو عمدگی سے فلمایا گیا ہے۔
شعبہ اداکاری کی بات کی جائے تو یہ فلم اکشے کھنہ کی ہے جنہوں نے ایک طویل عرصے بعد ایک بار پھر اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ہے ۔سنجے بارو کے کردار میں اکشے کھنہ نے طنز اور ممنونیت کے احساسات کو جس دلکشی سے پردہ سکرین پر اتارا ہے وہ واقعی بے مثال ہے ۔اکشے کی پراعتماد ادا کاری دیکھتے ہوئے مجھے کئی بار یہ خیال آتا رہا کہ اس باصلاحیت ایکٹرکو بولی وڈ میں متواتر مواقع کیوں نہیں دئیے جاتے رہے ؟اس فلم میں اکشے بہرحال خاصے کی چیز ثابت ہوئے ہیں۔ جب کہ بطور من موہن سنگھ اپنی متانت اور آواز کے زیروبم میں بدلاؤ بنا کر جس طرح انوپم کھیر نے خود کو پیش کیا بلاشبہ انہوں نے کرما اور سارانش کے بعد اپنے کیرئیر کی لاجواب پرفارمنس دی ہے جس پر وہ یقینی طور پر داد کے حقدار ہیں۔
انوپم کھیر اظہار خیال کرتے ہیں کہ اس فلم سے قبل وہ منموہن سنگھ سے کچھ خاص متاثر نہیں تھے مگر اس فلم میں کام کر کے اب وہ منموہن سنگھ کو پسند کرنے لگے ہیں۔البتہ فلم میں جس طرح انہوں نے منموہن سنگھ کی چال ڈھال کو دکھایا اس سے یقینی طور پر مایوسی ہوئی ۔کیونکہ من موہن سنگھ ایک خاموش طبع اور سنجیدہ شخص ہیں اور ان کی چال ڈھال اتنی بھی بری نہیں جتنی اس فلم میں نظر آتی ہے ۔اس کے ساتھ سونیا گاندھی کے کردار میں سوزان برنٹ اور احمد پٹیل کے کردار میں وپن شرمابھی متاثر کن کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے ۔البتہ راہول گاندھی کے کردار کو نبھانے والے اداکارایک کمزور کڑی ثابت ہوئے ۔اس کے ساتھ ساتھ پریانکا گاندھی کے کردار کو بھی ضرورت سے زیادہ مختصر رکھا گیا ہے۔
بحیثیت مجموعی The accidental prime minister انڈین سیاست کی باریکیوں کو سمجھنے والوں کے لیے ایک سوغات ہے۔ فلم کے چند مناظر نہایت مہارت سے فلمائے گئے جیسا کہ جب منموہن سنگھ بطور وزیر اعظم اپنے دفتر میں داخل ہوتے ہیں تو ان کو اپنے ماضی کا عکس دکھائی دیتا ہے ۔جبکہ جب نرسیما راؤ کی آخری رسومات سونیا گاندھی کی ضد پر دلی سے حیدر آباد دکن منتقل کی جاتی ہیں تو اس پر منموہن سنگھ کا کرب دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔جبکہ سنجے بارو اور منموہن سنگھ کی کتاب شائع ہونے کے بعد پہلی ملاقات بھی حساسیت سے بھرپور رہی۔
تاہم فلم میں من موہن سنگھ کے دور میں پاکستان سے تعلقات کے فیز کو یکسر نظرانداز کرنا بھارتی سیاست پر عمیق نگاہ رکھنے والوں سے ہضم نہیں ہوا ۔بقول اکشے کھنہ اس فلم میں میں حقیقی سنجے بارو سے یکسر مختلف دکھایا گیا ہوں اور ایسا بارو کی خواہش پر ہی کیا گیا ۔جبکہ انوپم کھیر کی خواہش ہے کہ کاش من موہن سنگھ ان کو اس فلم کو دیکھنے کے بعد ایک بار گلے لگا لیں۔
اس کردار کی تیاری کے لیے مجھ انوپم کو تقریبا سو گھنٹے یوٹیوب پر سنگھ صاحب کی فوٹیج دیکھنا پڑی۔ اگر چہ فلم میں سب کچھ کامل انداز سے پیش کرنے میں مکمل کامیابی نہیں مل سکی لیکن پھر بھی فلم کی اصل خوب صورتی اس سچ میں پنہاں ہے کہ انڈین سماج میں ماضی قریب کی سیاست پر بھی جرات مندی سے کیمرہ اٹھایا گیا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں بھی ہمیں ہندوستانی سیاست کے حقیقی ادوار پر فلمیں دیکھنے کو ملتی رہیں گی ۔میں اس فلم کو 3/5 ریٹ کرتا ہوں۔