ادب کی دنیا کا سرکس
قُربِ عبّاس
آپ ادب کی دنیا میں قدم رکھیں تو یُوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی سرکس کے تمبو میں گھس آئے ہیں۔ رنگین آنٹیاں، غمگین شاعر، یاسیت اور قنوطیت سے بھرے افسانہ نگار، جرائد چلانے والے مداری قسم کے مدیر اور مکار سے پبلشر۔۔۔ یہ سارے کے سارے عجیب عجیب کرتب کرتے دکھائی دیں گے، ایک دوڑ سی ہے جس میں سب کے سب فرسٹ آنا چاہتے ہیں مگر ان کے اندر جھانک کر دیکھیں تو آپ کو محرومیوں اور نفسیاتی بیماریوں کے سوا اور کچھ نہ ملے گا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر تو کبھی کبھی تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سماج میں ادیب وہی بنتا ہے جو نفسیاتی طور پر کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو، جس نے ماضی میں بہت ساری محرومیوں کا سامنا کیا ہو۔
بظاہر تو ان سب کے اتنا زیادہ متحرک رہنے کا مقصد ادب کی ترویج و ترقی ہے لیکن حرکتوں سے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اردو ادب میں اپنا نام گھسیڑ دینا چاہتے ہیں، کسی نہ کسی طرح بے نام زندگیوں کو نام دینا چاہتے ہیں۔ نام بنانا، پہچان بنانا غلط بات نہیں ہے، ہر آرٹسٹ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا کام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے، غلط بات یہ ہے کہ نام بنانے کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال میں لانے کی بجائے رنگ رنگ کے ناٹک کرتے ہیں۔ ان کی محفلوں میں آپ کو کچھ سیکھنے کو نہیں ملے گا، گھسی پٹی باتیں، ستائشی جملے، طویل سے طویل کاپی شدہ مضامین۔۔۔ وہ بھی کسی منظم پروگرام کے دوران۔۔۔ اس کے بعد تو بس خوش گپیاں، قہقہے، ادبی آنٹیوں کی ادائیں، آپس میں گلے ملتے ان کے فیک سے مُچکتے بوسے اور ان کے اطراف میں کھڑے ترسے ہوئے ادبا کہ آنکھوں میں واضح دکھائی دیتی ایک حسرت۔۔۔ بس اور کچھ نہیں۔۔۔
مجھ جیسے طالب علموں اور نوآموز لکھاریوں کے لیے اوّل تو میرا مشورہ یہ ہے کہ ان شعبدہ بازوں کی محفلوں سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے پھر بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان محفلوں کا حصہ بننا ضروری ہے تو آسان سا طریقہ بتاتا ہوں کہ ان میں سے دوچار کو اپنا استاد مان لیں، ان کے جوتے اٹھائیں، ان کی ہمہ وقت تعریف کریں، کسی بھی ادبی محفل کے آغاز و اختتام پر اپنے ہم عمر لونڈوں کے جھنڈ میں کھڑے ہو کر ان کے نام کے قصیدے پڑھیں، ان کے کام کی فیس بک پر تشہیر کریں، پھر ہوسکتا ہے وہ آپ کو ہونہار بچہ سمجھیں، یہ بھی ممکن ہے کہ باقاعدہ آپ کو اپنی شاگردی میں لے لیں اور پھر محفلوں میں آپ کی تعریف میں ایک دو مہان شبد بول دیں۔ اگر آپ نے انہیں گھاس نہ ڈالی اور اپنے کام میں مگن رہے تو کچھ ایسے جملے سننے کو تیار رہیے:
“اس کے الفاظ بہت کچے ہیں، اس کی کہانیاں کسی کمرشل ڈائجسٹ میں بھی چھپنے کے قابل نہیں ہیں۔ ایسا فکشن تو ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے۔۔۔ ہونہہ اگر فیس بک نہ ہوتی تو اس کو کون پڑھتا۔۔۔؟ اس نے کتاب کی مارکیٹنگ کی اور بِک گئی ورنہ کون خریدتا؟”
وغیرہ وغیرہ۔۔۔