ایڈم سمتھ کا خط
ترجمہ نصیر احمد
عزیز محترم
صدق و صفا سے بھرپور، اک اندوہ آمیز مسرت کے زیر اثر میں ہمارے شاندار دوست مرحوم ڈیوڈ ہیوم کا احوال اس کی جان لیوا بیماری کے دنوں میں آپ سے کہتا ہوں۔ اگر چہ وہ جانتا تھا کہ اس کی بیماری تکلیف دہ اور ناقابل علاج تھی لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے دوستوں کی گذارشات کا احترام کرتے ہوئے ایک طویل سفر کی ٹھان لی۔
سفر سے کچھ دن پہلے چند اور موضوعات کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی زندگی کا احوال بھی لکھا تھا۔ یہ کتابیں پہلے ہی جناب کے پاس موجود ہیں۔اس لیے میرا قصہ وہاں سے شروع ہوتا ہے، جہاں سے ہیوم نے یہ احوال ختم کر دیا تھا۔
ہیوم اپریل کے اواخر میں لنڈن سے روانہ ہوا تھا اور مجھ سے اور مسٹر ہوم سے مورپتھ کے مقام پہ ملا تھا۔ مسٹر جان ہوم ہیوم سے ایڈنبرا میں ملاقات کی امید میں حالت سفر میں تھا۔انگلینڈ میں مسٹر جان ہوم نے ہیوم کی اس کی بیماری کے ایام میں دوستانہ توقعات کے عین مطابق بڑی محبت اور شفقت سے نگہ داری کی تھی۔ اور پھر وہ ہیوم کے ساتھ ہی لنڈن سے واپس بھی آگیا تھا۔
علاوہ ازیں میں نے اپنی والدہ کو بھی پیغام دے دیا تھا کہ وہ سکاٹ لینڈ میں میری منتظر رہیں، اس لیے یہ سفر جاری رکھنا میری مجبوری بھی تھی۔ ہیوم کی صحت لنڈن کی فضا اور ورزش کی وجہ سے ان دنوں سے کافی بہتر تھی جب وہ ایڈنبرا میں ہوتا تھا۔ ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق وہ باتھ کے پانیوں سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی اپنی صحت کے متعلق رائے بہت بہتر ہو گئی تھی حالانکہ اسے اس رائے کی بہتری کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے تھا۔
جلد ہی اس کی بیماری کی علامات بگاڑ کی طرف لوٹ گئیں اور وہ اپنی صحت کی بحالی کی امید سے دستبردار ہو گیا۔ اور اپنی موت کے نوشتے کو اس نے خوش مزاجی، لاپرواہی اور مکمل ترک کے ساتھ تسلیم کر لیا تھا۔
ایڈنبرا میں واپسی پر اگرچہ وہ بہت ضعیف ہو گیا تھا لیکن اس کی خوش مزاجی ہمہ دم موجود رہی اور توجہ بٹانے کی غرض سے وہ اپنے مسودوں کی طباعت نو کے ارادے سے اغلاط درست کرتا رہا تھا۔ کبھی وہ دل بہلانے والی کتابیں پڑھتا، کبھی دوستوں کے سنگ گپیں ہانکتا اور کبھی شام کو وہ اپنی پسندیدہ تاش کی بازیاں کھیلتا تھا۔ اس کی خوش مزاجی، اس کی بات چیت اور اس کے مشاغل اس بات کا ہر گز پتا نہیں چلنے دیتے تھے کہ وہ بہت جلد مر جائے گا۔
ایک دن ڈاکٹر ڈنڈاز نے ہیوم سے کہا میں تمھارے دوست کرنل ایڈمنڈسٹون کو اطلاع دوں گا تم تو بھلے چنگے ہو اور جلد ٹھیک ہو جاؤگے۔ ہیوم نے جواب دیا نہیں ڈاکٹر تم تو سچی بات ہی بتاؤ گے تم کرنل کو بتانا کہ دشمنوں کی بد دعاؤں کے مطابق بہت جلد اور دوستوں کی نیک خواہشات کے مطابق خوش دلی سے اور ٓاسانی سے مر جاؤں گا۔
کچھ دیر بعد کرنل ایڈمنڈ سٹون ہیوم کی عیادت کو آیا، اسے الوداع کہا اور اس سے ہمیشہ کے لیے رخصت چاہی اور ابے شولیو کے وہ فرانسیسی شعر پڑھے جو اس نے بستر مرگ پر اپنی موت کے انتظار میں لکھے تھے اور ان اشعار میں ابے شولیو نے اپنے دوست مارکی ڈلا فئیر سے متوقع جدائی کا ماتم کیا تھا۔
مسٹر ہیوم کے لطف و اسقلال اس قدر فزوں تھے کہ اس کے مہرباں دوست جانتے تھے کہ اس کی موت کے بارے میں گفتگو اسے ہر گز پریشان نہیں کرتی تھی بلکہ یہ بے ساختگی اور بے تکلفی اس کے لیے باعث مسرت و افتخار تھی۔ میں اس کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ ایک خط پڑھ رہا تھا اور اس نے والہانہ انداز میں مجھے وہ خط دکھایا۔میں نے اسے بتایا اگرچہ میں اس کے ضعف سے بخوبی آگاہ ہوں اور دیکھنے میں بھی اس کی حالت خراب ہے لیکن اس سب کے باوجود اس کی خوش دلی انتہا پر ہے اور زندگی اس کے تن و جان میں شدت سے رواں ہے جس کی وجہ سے میرے دل میں اس کی صحت کی بحالی کی موہوم سی امید اب بھی موجود ہے۔
تب اس نے جواب دیا تمھاری امیدیں بے جا ہیں ، یہ جو مسلسل پیچش جاری ہے، اس عمر میں مجھے لے ڈوبی گی۔ جب رات کو سوتا ہوں، تب ناتوانی مجھے آ لیتی ہے، اور صبح اٹھتا ہوں، تو ناتوانی بڑھ جاتی ہے، ابھی میرے ہوش ٹھکانے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ میرے بدن کے اہم ترین حصے ناکارہ ہوتے جارہے ہیں، جس کا مطلب ہے ،میں بہت جلد مر جاؤں گا۔
میں نے اسے کہا، یہ بات تو ہے لیکن بہرحال تم اپنے دوستوں کو اور خصوصی طور پر اپنے بھائی کے کنبے کو خوشحال چھوڑے جا رہے ہو، تمھارے لیے یہ بات تو اطمینان کا باعث ہے۔
اس نے کہا یہ اطمینان تو دانشمندی کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ میں لوشان کی مکالمات مردگان پڑھ رہا تھا تو میرے پاس ایسی کوئی وجہ نہیں تھی جس کی بنا پر میں کیران(موت کا فرشتہ) کی کشتی میں سوار ہونے سے انکار کر دوں۔ نہ میرا کوئی مکان زیر تعمیر ہے، نہ کسی دختر کی مجھ پر ذمہ داری ہے، اور نہ کوئی میرا دشمن ہے جس سے انتقام میں نے لینا ہے۔
ہیوم نے مزید کہا، میری سمجھ میں نہیں ٓا رہا کہ میں تھوڑی سی تاخیر کے حصول کے لیے کیران کو کیا سبب بتاؤں۔ جو کچھ ضرری تھا اور جو کچھ میری خواہش تھی وہ تو میں کرچکا ہوں۔ دوستوں کے حالات اس قدر اچھے ہیں کہ یہی ان سے رخصت کی سب سے زیادہ شبھ گھڑی ہے۔ اور مرگ مطمئنہ کی سب سے زیادہ یہی تو خوش نصیب ساعت ہے۔
پھر وہ کیران سے تاخیر کے حوالے سے مزاحیہ وجوہات کی تخیل کاری کی سمت گفتگو کرنے لگا۔ اور اپنی موت کی تاخیر کے حوالے سے کیران کا کردار ذہن میں رکھتے ہوئے اس کے جوابات کی تصویر کشی کرنے لگا۔
ہیوم نے کہا مزید غورو فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں کیران کو کہوں گا، اچھے کیران مجھے چند ساعتیں اور دے دو کہ میں طباعت نو کے لیے اپنا مسودہ درست کر لوں۔ تھوڑا سا وقت مجھے اور دو کہ میں اس درستی کا لوگوں میں رد عمل دیکھ لوں۔ کیران کہے گا کہ جب تم یہ ردعمل دیکھ لو گے، تم کوئی اور جواز ڈھونڈھ لو گے۔ یہ جواز تو ختم ہونے میں نہیں آئیں گے۔ اس لیے اچھا یہی ہے کہ کشتی میں چپ چاپ بیٹھ جاؤ۔
میں کہوں گا اچھے کیران، تھوڑا تحمل کر لو، میں برسوں سے عوام کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا ہوں، مجھے چند سال اور جینے دو کہ میں موجودہ توہمات کے نظام کا خاتمہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔ لیکن اتنی دیر میں کیران تو ضبط و تحمل سے دستبردار ہو کر باؤلا ہو جائے گا ، وہ کہے گا ،آ وارہ اچکے، جو تم دیکھنا چاہ رہے ہو، وہ تو صدیاں گزرنے کے بعد بھی نہیں ہو پائے گا۔ کیا تم سمجھتے ہو میں تمھیں صدیوں کی مہلت دے دوں گا؟ اسی وقت کشتی میں بیٹھو، کاہل، آوارہ، اچکے۔