(ذوالفقار علی)
دو دن قبل 17 جنوری 2017 کو اوبامہ نے اپنے صدارتی اختیارات کے تحت چیلسی مائی ننگ سمیت 209 افراد کی سزاوں کو معاف کیا ہے جن میں 64 افراد ایسے بھی ہیں جن کو مکمل معافی دی گئی ہے۔ ویسے اوبامہ نے اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں مُختلف جرائم میں ملوث 1385 افراد کو اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے معاف کیا اور اُنہیں دوبارہ زندگی کے دھارے میں شامل ہونے کا موقع دیا۔ سترہ جنوری کی خبر جاری ہونے کے ایک دن بعد سوشل میڈیا پر سپانسرڈ افراد نے ایک پروپیگنڈہ مہم چلائی جس میں کہا گیا کہ اوبامہ نے جن قیدیوں کو معافی دی ہے اُن میں عافیہ صدیقی کا نام بھی شامل ہے۔
اس جھوٹی خبر کو موجودہ گورنمنٹ پر سیاسی پریشر بڑھانے کیلئے مُختلف فورم پر خوب اُچھالا گیا اور مُطالبہ کیا گیا کہ نواز شریف اس معاملے میں ملی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے اور اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عافیہ کو پاکستان لائے۔ میں ہو بہو وہ سٹیٹس یہاں پر دے رہا ہے جس کو دس ہزار لوگ لائیک کر چُکے تھے۔ اور 7 ہزار کے لگ بھگ اس کو شیئر بھی کر چُکے تھے۔
صدر اوبامہ نے اپنے عہدے سے سبکدوشی ہونے سے پہلے بہت سارے قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا ہے قیدیوں کی جو لسٹ جاری کی ہیں اس میں عافیہ کا بھی نام ہے اللہ نے یہی سب سے بڑاموقع ہمیں دیا ہے اور حکومت پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانےکیلئے۔ انتخابات سے قبل پرائم منسٹر نے خود ہی عافیہ کے خاندان سے وعدہ کیاتھا کہ سب سے پہلے اقدام عافیہ کوامریکہ سے رہائی کیلئے اٹھاؤنگا۔
اب وقت آگیا ہے اور موقع بھی ہے کہ پرائم منسٹرصاحب عافیہ صدیقی کی خاندان سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کرے
عافیہ صدیقی کی رہائی پوری پاکستان کیلئے غیرت، عزت اور انا کا مسئلہ ہے۔ ہمارا حکومت پاکستان سے پرزور مطالبہ ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کی رہائی کو ممکن بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
اب یہاں پر کُچھ سنجیدہ سوالات ہیں جن کو اُٹھانا ضروری ہے:
1۔ کسی جھوٹی خبر کو بغیر تصدیق کےیوں لائیک کرنا اور شیئر کرنا ہمارے مزاج کا حصہ ہے؟
2۔ جھوٹی خبر پر سوال اُٹھانے والوں کی ماں بہن کو گالیاں دینا مومنین کا شیوہ ہے؟
3۔ ایسے عناصر کے ایجنڈے کو سپورٹ نہ کرنے سے دائرہ اسلام سے خارج ہو جانا لازمی ہے؟
4۔ اس قسم کی پروپیگنڈہ مہم چلانے والے اتنے منظم ہیں کہ وہ ایک جھوٹی خبر پر اتنے لائیک اور شیئر کرتے ہیں؟
5۔ یہ مائنڈ سیٹ جھوٹ کی بُنیاد پر پھیلائی جانے والی خبروں پر اختلاف رکھنے والوں کو جتنا مرضی لتاڑ لے کوئی پوچھنے والا نہیں؟
6۔ اس قسم کے لوگوں سے بحث کرنا ممکن ہے یا ان کو اس حال پے چھوڑ دینا چاہیے؟
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا تعلق ہمارے معاشرے کی اخلاقیات اور اقدار کی نہج کو پرکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس جھوٹی خبر کو جواز بنا کر اپنے ایجنڈے کے تکمیل کیلئے مین سٹریم میڈیا اور بقول پروپیگنڈہ مہم کے سر باوردی شخصیت، عائشہ سیدہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو قرار داد پیش کی گئی اور یہ کمیٹی اس قرار داد کو مُتفقہ طور پر منظور بھی کر لیا گیا۔ اس مائنڈ سیٹ سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی ڈرتی ہے اور فوری طور پر ایسی قراردادوں کو منظور کر لیتی ہے۔
اب معاملے کی مزید تہہ میں جاتے ہیں کیا یہ لوگ اتنی اکثریت میں ہیں کہ ان کا پریشر برداشت نہیں کیا جا سکتا یا وجہ کوئی اور ہے؟ اگر یہ لوگ واقعی اکثریت میں ہوتے تو جماعت اسلامی مُلک کی اکثریتی پارٹی ہوتی مگر اُسے تو چند سیٹیں ہی مل پاتی ہیں۔ کیا عافیہ صدیقی واقعی قوم کی بیٹی ہے اور اس سے ہمارے مُلک اور عوام کی عزت، انا اور غیرت جُڑی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہم اس مُدعے پر اختلاف کرنے کا حق نہیں رکھتے؟
میرے خیال میں ایسا بھی نہیں ہے کیونکہ عافیہ کا کوئی ایسا کارنامہ یا جدو جہد میرے علم میں تو نہیں ہے جس کی بنا پر ہم اُس کو بطور ہیرو قبول کر سکیں۔ وہ جس جہاد پر یقین رکھتی تھی اُس جہاد کی بدولت تو ہمارے مُلک میں ہزاروں لوگ مارے جا چُکے ہیں اور لاکھوں شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ اس پُر تشدد جہاد کی بدولت ہمارے مُلک کو خارجہ اور داخلہ دونوں محاذوں پر بہت کُچھ قُربان کرنا پڑا ہے۔ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی کیونکہ یہ مائنڈ سیٹ ابھی شکست تسلیم کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں ہے بلکہ مُختلف طریقوں سے سماج کے اندر گُھستا جا رہا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو سپورٹ کرنے والے عناصر ریاست کے اندر، ریاست کے باہر، حکومت کے اندر اور حکومت سے باہر موجود ہیں۔ جس کی تازہ مثال چوہدری نثار علی خان کا حالیہ بیان ہے جس میں موصوف نے فرمایا کہ دہشت گرد اور فرقہ وارانہ تنظیموں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ چوہدری نثار صرف چوہدری نثار نہیں ہے بلکہ اُس کا کُھرا جہاں جاتا ہے یا وہ جن لوگوں سے طاقت پاتا ہے اُس کا جسٹس قاضی فیض عیسٰی کی حالیہ رپورٹ میں تفصیل سے ذکر ہے۔
اس مائنڈ سیٹ کو شکست دینے میں کمیشن، عدالتیں، ادارے سب اتنے بے بس کیوں ہیں؟ آخر ہر بار عام آدمی اپنی ثقافتی، رویہ جاتی اور مقامی اقدار کی نفی کر کے ان کی مُسلط کردہ جھوٹ اور اس دھرتی سے کٹی ہوئی سوچ کو چار و نا چار قبول کرنے پہ مجبور کیوں ہے؟ جب بھی کوئی ایسا بیانیہ تشکیل پاتا ہے جس کی جڑیں مقامی اقدار اور کلچر سے جُڑی ہوتی ہیں تب تب ہمارے سیاسی ادارے کمزور کیوں پڑ جاتے ہیں؟
میں نے تو اپنی زندگی میں ایک مُشاہدہ کیا ہے کہ جب بھی مُنتخب جمہوری حکومت اس دھرتی کے اصل وارثوں اور ثقافتی اقدار کی بات کرتی ہے تب تب ان حکومتوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے اُن کو کمزور کیا جاتا ہے، سکینڈل کھڑے کر دئے جاتے ہیں، جھوٹے کیس بنائے جاتے ہیں، ماورائے عدالت قتل اور اغوا ہونے لگتے ہیں۔ بالاخر خوف کے سائے میں حکومتوں کو چلتا کیا جاتا ہے۔ تبھی تو سیاسی لیڈرشپ اور حکومتیں آج بھی ڈرتی ہیں اور نیشنل ایکشن پلان جیسے متفقہ لائحہ عمل کو لاگو کرنے سے گُریزاں ہیں۔ پتا نہیں یہ گھٹا ٹوپ اندھیرے کب چھٹیں گے کب روشنی ہوگی اور کب ہم اپنے پرائے کو پہچاننے کے قابل ہو سکیں گے!
اعلىٰ اور فكرانگيز تحرير