وباء کے بعد
کہانی از، وقاص عالَم
حاکم علی نے ایک آہ کے ساتھ آنکھیں کھولیں اور نقّاہت اور کم زوری سے پورے بدن نے ایسی انگڑائی لی کہ وہ دو بارہ بے ہوش ہو گیا۔ اگلے دن جب اسے ہوش آیا تو ارد گرد اس نے خود کو ڈاکٹروں سے گِھرا ہوا پایا جو اس پر طرح طرح کی مشینیں لگائے گِدھ کی طرح کھڑے تھے۔
وہ حیران ہوا اور اس نے اپنا دایاں ہاتھ آسمان کی طرف لہرایا۔ وہ ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا کہ اس کی جلد پر کوئی گوشت کا لوتھڑا نہیں تھا، نہ ہی اس ہاتھ پر کوئی رنگت بچی تھی، بَل کہ وہاں صرف جُھریاں تھیں۔
وہ ہاتھ کسی اور کا ہاتھ تھا۔ ڈاکٹر اس سے کچھ کہنے لگا جس کی اسے بہت کم سمجھ آئی۔ حاکم علی نے جواب کے لیے مُنھ کھولا تو گویا کوئی زنگ آلود کھڑکی کا پَٹ کھولا جا رہا ہو۔ اس کے مُنھ سے ایک ایک لفظ ادا کرنے کی مشقت نا قابلِ بیاں تھی۔
ڈاکٹر معائنہ کر کے چلے گئے اور اگلے تین دن اس کی یاد داشت کا ٹیسٹ ہوتا رہا جس میں اس کو کراچی شہر کی تصاویر دکھائی گئیں جنھیں وہ پہچانتا تھا۔ اس کے بعد اسے اس کی تصویر دکھائی گئی جو اس نے وباء میں خود کو ویکسین ٹیسٹ کرانے سے پہلے کھینچی تھی اس کے چند دوستوں کی تصاویر اور چند مشہور افراد کی تصاویر دکھائی گئیں جن میں سے یہ صرف کچھ سے واقف ہوا اور باقی اسے دیکھے دیکھے لگے۔
وہ خود کو بہت زیادہ کم زور محسوس کر رہا تھا اور ہاتھوں کی جُھریاں اور پَیروں کی جلد سے لگ رہا تھا کہ اس نے کئی ہفتوں سے کچھ نہیں کھایا پیا ہے۔ ہوش میں آنے کے کئی دن بعد اس نے ڈاکٹر سے وباء کے متعلق پوچھا کہ کیا اس کی ویکسین دریافت ہو گئی؟ اسے بتایا گیا کہ ویکسین دریافت ہو گئی اور اس میں بڑی وجہ وہ اور اس جیسے مزید والنٹِئر ہیں جس پر اسے پُر اسرار سی تسکین ہوئی۔
جب اس نے خود میں بہتری محسوس کی تو اسے نہلانے کے لیے لے جایا گیا اور پہلی بار وہ خود سے رُو بَہ رُو ہوا۔ اسے وہاں ایک لاغر، بوڑھا، جُھریوں سے بھر پُور حاکم علی نظر آیا۔
“یہ کون شخص ہے؟” ذرا چونک کر اس نے پوچھا۔
یہ تم ہو حاکم علی۔
“ہیں؟” حاکم علی کی باچھوں نے پُر اسرار طور پر پھیلنا شروع کیا جیسے وہ ہنس رہا ہے۔ “نہیں نہیں! آپ سمجھے نہیں، میں تو چوبیس سال کا جوان ہوں اور یہ سامنے والا شخص کون ہے ڈاکٹر؟”
“دیکھو! تم خود کو قابو میں رکھنا حاکم، یہ شخص آئینے کے اس پار نہیں ہے، بَل کہ تمھارا عکس ہے۔ یہ جُھریوں والا شخص حاکم علی ہے۔ یہ وائرس کا اثر نہیں ہے۔ وباء کو گزرے بیس سال ہو چکے ہیں اور تم پچھلے بیس سالوں سے کوما میں تھے۔”
“یہ میرے ساتھ تم لوگوں نے کَیا کیا ہے؟” وہ چیخنے لگا اور چلاتے روتے بے قابو ہو گیا۔ اسے بہت شدید شاک لگا جس کو وہ سنبھال نہیں پایا۔
ایک پرانے کوارٹر کی بالکونی پر کھڑا حاکم علی سامنے سائن بورڈ کو دیکھتا رہا جس پر ایک عجیب و غریب سا اشتہار لگا تھا جہاں آکسیجن ماسک کی تصویر آویزاں تھی، ایک خاتون جو نَیبُولائزر کو اٹھا کر رَیپ واک کر رہی ہے۔ یہ فیشن کے اشتہار کے ساتھ ساتھ آکسیجن کی سیل کا اشتہار بھی تھا۔ اس کی مالیت وغیرہ لکھی ہے، جس کی نہ اسے سمجھ تھی نہ کوئی خیال۔
یہ اولڈ کوارٹر اس علاقے میں واقع ہے جسے کبھی گلشنِ اقبال کہا جاتا تھا۔ وباء سے قبل کراچی کے بیش تَر علاقے گنجان آبادی والے علاقے تھے جو اب کراچی کا کوڑا دان بن چکے ہیں۔ اہل کار کہلائے جانے والے یہ لوگ پولیس کی طرح کے لگتے ہیں، مگر پولیس سے اختیارات میں وسیع اور اسلحے سے لیس رہتے ہیں۔
یہ ہی اہل کار ان تمام علاقوں کی پیٹرولنگ کرتے ہیں جو وباء سے پہلے گھنی آبادی تھی۔ دارُ الحکومت کو اب بھی خدشہ ہے کہ وباء کا مرض ان علاقوں میں موجود ہے۔ لمبی لمبی دیواروں اور چوکیوں سے مرکزی کراچی محفوظ اور رہنے کے قابل ہے جب کہ مغربی اور جنوبی کراچی بھوکے، ننگے اور مزدور طبقہ کے لوگوں کی جہنم ہے جہاں کراچی کے دوسرے باسی اپنے مردے دفناتے ہیں۔
بے خود اور بے یقنی سے وہ بالکونی سے باہر کا منظر یوں دیکھ رہا تھا گویا اس نے کوئی آفت دیکھ لی ہو۔ دوڑتے بھاگتے لوگ، آکسیجن لگائے، کوئی آکسیجن سوٹ پہنے اور کچھ بنا ماسک کے اَچھوت لوگ بے سَمت چلے جا رہے ہیں۔ ہسپتال سے نکلتے ہوئے اسے ایک موبائل اور کرِپٹو کا ایک کوڈ ملا تھا جس سے وہ کسی بھی دکان پر جا کر خرید و فروخت کر سکتا تھا۔ اس کے والدین لیاری کے نواح میں رہتے تھے جو وباء کے بعد بھی اس مرض کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔
اسے معلوم ہوا کہ وہاں پر بھوک اور پیاس کی قلت سے ہزاروں جانیں چلی گئیں تھیں اور جیسے جیسے کرفیو کے خلاف ہنگامہ آرائی بڑھی تو دارُ الحکومت نے لمبی خاردار دیواروں سے ان علاقوں کو خود سے علیحدہ کر دیا۔ اب وہاں آنا، جانا منع ہے۔
حاکم علی کے والدین نے اس ہنگامہ آرائی سے بچنے اور قلّتِ معاش کے سبب حاکم علی کے جسم کے تمام حقوق ہسپتال کو دے دیے تھے جس کی وجہ سے اس کے جسم میں وائرس کے علاج کی ٹیسٹنگ کی گئی اب قانونی طور وہ نہ کسی کو اپنے والدین کہہ سکتا ہے اور نہ مان سکتا ہے اور چُوں کہ حاکم علی پر کسی کی بھی کفالت کا ذمَّہ نہیں ہے تو وہ اب صرف دارُ الحکومت کی کفالت کے لیے مزدوری کرے گا جس کا اسے دو وقت کا کھانا بَہ طورِ اجرت ملے گا۔
یوں دارُ الحکومت کو یہ قانونی حق حاصل ہوا کہ وہ جب چاہے اور جدھر چاہے حاکم علی کی زندگی کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ حاکم علی کو صرف یہ بتایا گیا کہ وہ گزر بسر و معاش کا مستقل انتظام کر لے ورنہ زندگی نا ممکن ہو جائے گی۔ یوں اس کو شناختی دفتر جانا پڑا جہاں وہ اپنی پہچان درج کرائے تا کہ نوکری وغیرہ کے لیے قابل ہو۔
وہ صبح صبح اٹھ کر دفتر کے لیے نکل گیا۔ روڈ رستے دیکھ کر اسے یوں لگا جیسے گرد کے طوفان سے گزر رہا ہو، چُبھنے والی تیز گرمی، گرد اور کالا دھواں ہول ناک منظر کَشی کر رہا تھا۔ وہ دفتر پہنچا، ماسک خریدا اور افسر کے سامنے بیٹھا!
“آپ قانون کی رُو سے کسی کی اولاد نہیں ہیں،” شناختی افسر نے بتایا۔
“ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ میرے والدین جنھوں نے مجھے پیدا کیا ہے وہ میرے والدین نہیں ہو سکتے؟”
“آپ کے والدین نے آپ کے جملہ حقوق دارُ الحکومت کے سپرد کر دیے ہیں جن کے تحت آپ کی پروفائل میں کیا کام آئے گا وہ متعلقہ یونٹ کا فیصلہ ہو گا اور وہاں آپ کو بھیج دیا جائے گا۔ آپ کی چِپ میں اندراج ہو چکا ہے،” افسر نے مکمل تفصیل سے سمجھایا۔
“میں سمجھ نہیں رہا۔ میرے والدین کہاں ہیں؟ یہ بتائیں میں خود ملوں گا؟” حاکم علی کی آواز تند اور تیکھی ہوتی رہی اور پورے دفتر میں خلل پڑتا رہا۔
آپ دارُ الحکومت کی ویب سائٹ پر اپنی شکایت درج کر دیں وہاں یہ سارے معاملات دیکھے جاتے ہیں۔ افسر نے چڑ چڑا جانے کے بعد کہا۔
“یہ کیا ہے دارُ الحکومت؟ کون سی بلا ہے؟ میں نے اس ملک کے لیے بیس سال دیے ہیں،” حاکم علی نے غم و غصے میں یہ بات کہہ دی جس پر دو اہل کار جن کے چہروں پر سیاہ کپڑے تھے اسے اٹھا کر لے گئے اور بقیہ لوگ اس واقعے کے بعد دو بارہ پُر سکون ہو کر کام میں مشغول ہو گئے۔
کسی کوٹھری میں بیس واٹ کے پیلے بلب کے سامنے اس کو مار پیٹ کر بٹھایا گیا اور آخر میں پھر تفتیش کی گئی۔ اس کے پاس صرف ایک شناخت تھی کہ وہ وباء کا والنٹِئر تھا جس کی چِپ ایس-91 تھی اور اس کے علاوہ کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ ایک اہل کار قریب آیا اور سوالات پوچھے۔
ماجرا سنے جانے کے بعد کئی دن تک وہ کوٹھری میں رہا؛ نہ اسے جرم کا پتا تھا نہ ہی ان لوگوں کا۔ وہ پوچھتا رہ گیا لیکن وہ صرف کہتے، “زیادہ سوال نہیں ورنہ موت نہ دینے کی سزا دیں گے!” اور یہ سن کر اس کا دل بند سا ہو جاتا۔
حاکم علی کو دو دن بعد یہ خبر کی گئی کہ وہ قومی سلامتی کے پیشِ نظر کراچی، یعنی سیکشن 37 میں نہیں رہ سکتا؛ اسے یونٹ 4 کے سیکشن 1 میں منتقل کیا جائے گا۔ مُنھ پر کپڑا ڈال کر اسے دو بارہ جیپ میں ڈالا گیا اور جیپ چلتی رہی۔ کچھ وقفے کے بعد ایک مہک اسے مانوس مانوس سی لگی۔ اس نے افسر سے پوچھا، “کیا وہ بلوچستان جا رہے ہیں؟”
افسر نے سنتے ہی ایک زور دار تھپڑ اس کے مُنھ پر رسید کیا اور کہا، “یہ لفظ آئندہ بکا تو زبان کاٹ دوں گا۔ یہاں ہم اب قوموں کی اکائیوں میں نہیں بنٹے، بَل کہ ہم سب وطنی ہیں اور یہ علاقہ یا اس جیسے علاقے وباء کے دنوں میں ہوتے تھے۔ اب تمام دارُ الحکومت کے یونٹ ہیں۔ اوئے! اس خنزیر کی آنکھوں کا سکین کرو اور یہیں سیکشن ون میں سڑنے دو۔”
“سیکشن ون!” وہ سوچتا رہا کہ کب بلوچستان یونٹ بن گیا اور کب حَب چوکی سیکشن ون؟ یہ بوسیدہ عمارتیں، دھوئیں سے اٹا شہر، فیکٹری، فضلے سے بھری گلیاں، نالے اور سبز و سیاہ رنگ کی چوکیاں جس میں پہرہ دے رہے اہل کار، بے رونق پہاڑوں پر کیا پیٹرولنگ کرتے ہوں گے؟ ہر فرد اس کے سامنے ایک جیسے تھے: گلے میں چپ لگائے، سر نیچے کیے، سامان اٹھائے فیکٹری میں جاتے اور پھر سر نیچے کرتے رات میں لوٹتے۔
اسے بھی وہی کپڑے دیے گئے اور ایک تنگ گلی میں کھڑے پینتیس منزلہ بوسیدہ کوارٹر میں سے ایک کمرہ اسے دیا گیا۔
وہ گھنٹوں بیٹھا رہتا؛ اپنی زندگی سے حذف ہوچکے بیس سالوں کو سوچتا تھا کہ کیسے وہ ایک بائیس، چوبیس سال کا نو جوان ایک چالیس، بیالیس سال کا بوڑھا ہو گیا ہے۔ وہ تمام سال جو اس نے کوما میں بے بہرہ ہو کر گزارے اس کا خمیازہ کسی نے نہیں بھگتنا، بَل کہ اس کا انجام ایک بھیانک حقیقت کی صورت میں اس زندگی میں ہو رہا ہے جو اس نے کبھی چنی ہی نہیں تھی نہ ہی اسے معلوم تھا کہ خواب اس حقیقت سے زیادہ آرام دہ اور پُر سکون ہے۔
پورے سیکشن-1 میں صرف ایک جگہ ایسی تھی جسے وہ پہچان گیا۔ وہ شہر کے وسط میں ٹریفک میں گِھری ایک چھوٹی سی گھڑی کی دکان ہے جو کبھی مسجد کے سامنے ہوتی تھی۔ یہ شہر بیس سال پہلے بہت چھوٹا تھا جس کی آبادی ایک ڈیڈھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اب یہاں پر بھی دو اضلاع ہیں اور انسان نما حشرات کا ہجوم ہے جو صبح اٹھتے ہیں اور فیکٹریوں میں نکل جاتے ہیں اور پھر رات میں گھر لوٹتے ہیں۔
حاکم علی کو بھی اب مزدوری میں داخل ہونا پڑا کیوں کہ سوائے بڑے شہروں کے مرکزی باشندوں کے وطن میں بنا مزدوری کے کوئی زندہ نہیں رہ سکتا۔
“ایس-91! تمہارا کام چمنی پر ویلڈنگ کرنا ہو گا۔ دوپہر کو کھانا ملے گا اور رات کے لیے کچھ سامان جو ایک دن کے لیے کافی ہو گا۔ میڈیکل فیکٹری کی ذمے داری ہو گی اور صدارتی جلسہ کے دن چھٹی ہو گی،” فیکڑی کے سپروائزر نے سب تفصیل سے بتایا۔
“اور میری تنخواہ؟”
“تمھیں کھانا پینا کس مد میں دیا جا رہا ہے؟”
“مطلب کھانا پینا تو فیکٹری کو مہیا کرنا ہے، یہ تو مزدوروں کا حق ہے!” حاکم علی بولا۔
سپروائزر نے حاکم علی کی چِپ کا معائنہ کیا جو ہسپتال سے اسے ملی تھی جس میں اسے معلوم ہوا کہ یہ والنٹِئر تھا اور بیس سال کوما میں رہا ہے۔
سپروائزر نے حاکم علی کو مزدوری سے پہلے ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ میں بھیج دیا۔ جب حاکم علی وہاں پہنچا تو کوئی پندرہ سال، بیس سال کے نو جوان لڑکے وہاں ٹریننگ لے رہے تھے جو وطن کے قانون کے تحت یونٹس کے عوام کے لیے ضروری ہے تا کہ انھیں یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی مزدوری کرنا اس پورے سسٹم کو چلانے کے لیے کتنا ضروری ہے۔
مسلسل نو دن تک اسے پڑھایا گیا کہ قومی سلامتی کیا ہے اور کیوں ضروری ہے۔ وطن نے وباء میں خود کو فسادیوں سے کس طرح بچایا اور مارا ماری میں صدر کے ساتھ کھڑا ہونا کیوں ضروری ہے۔
ساتھ ساتھ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ اب وطن میں کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں خصوصاً جو سیاست، ادب اور فلسفے پر ہوں۔ اسے وہاں پہلی بار معلوم ہوا کہ فیض احمد فیض ایک وطنی شاعر ہیں، جن کے انقلاب کا مطلب دار اُلحکومت کو مضبوط کرنا اور عوام کو باور کرانا تھا کہ فسادیوں سے کیسے بچیں۔ ان کی رومانویت خالقِ حقیقی کا استعارہ تھی اور خواتین کا عمل دخل جن کی شاعری میں کبھی نہیں رہا۔
وہ جناح کے بارے میں بھی جان چکا کہ وہ راسخ العقیدہ تھے، جنھوں نے ساری جنگ فسادیوں کے خلاف اور دار اُلحکومت کے لیے لڑی کیوں کہ باقی زندیق تھے اور اسی لیے وہ انسان سے کم درجے پر تھے۔
ملک کے جغرافیے کے بارے میں اس نے جانا کہ یہ ہمیشہ سے ایسے ہی یونٹس تھے اور بیچ میں کچھ شر پسند سیاست دانوں نے اس کو توڑنے کی خاطر اسے علاقائی شناختوں میں بانٹ دیا تھا۔ تاریخ پڑھنا اور بحث کرنا توہین کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی سزا سنگ ساری ہے جس وجہ سے یہ وطن میں ممنوع ہے۔ عورتوں کو کسی بھی قسم کے مرکزی معاملات میں داخلہ حرام ہے اور اِنھی حرکتوں کی وجہ سے سابقہ ادوار میں وباء اور دوسری آفات ہم پر مسلط ہوئیں۔
حاکم علی کے حواس ان تمام حالات کو پراسیس نہیں کر رہے تھے۔ وہ ڈیپریشن کے اٹیک کے باعث گر پڑتا تھا۔ سو بھی نہیں سکتا تھا اور نہ ہی اسے بھوک لگتی تھی۔ وہ سوکھ کر کانٹا ہو چکا تھا۔
وہ مہینوں چمنی پر مشقت کرتا رہا اور اپنے کام سے کام رکھتا رہا۔ ہر اتوار کو درس کے لیے دو جماعتیں آتی تھیں جو مزدوروں کو محنت کا ثواب اور سادگی کے اجر پر وعظ کرتی تھیں۔ یہ جماعتیں ان کو اپنے حکم رانوں کا ساتھ دینے کے آفاقی فضائل کے ساتھ ساتھ دشمنوں کا سر تن سے جدا کرنے کے بھی انعامات پڑھاتی تھی جن کے باعث ہر شخص یہ تہیہ کرتا تھا کہ وہ زندگی میں ایک بار ضرور کسی منکر کا سر تن سے جدا کرے گا۔ منکر کی تعریف کیا ہوگی وہ دار اُلحکومت کے مجتہدین بتاتے تھے۔
حاکم علی بھی ہر اتوار یہ بیعت لیتا رہا اور آخرِ کار وہ تشدد کی فکر کا قائل ہونے لگا۔
“تم نے اتنے عرصے پہلے جو کچھ دیکھا تھا وہ سب فریب تھا بیٹے!” ایک واعظ نے حاکم علی کو کہا۔ “وہ فتنوں سے گھرا، کفر میں ڈوبا، عیاشی کا بازار تھا۔ یہاں دیکھو سب پُر سکون ہیں، خوش ہیں۔ ہماری آخری منزل تو موت کے بعد شروع ہو گی اور جب تک زندگی ہے تب تک ہم اپنی آخرت کا بندوبست کریں، یہی اس دنیا کا مقصد ہے۔ میں تمھیں دم کردیتا ہوں تا کہ تمھیں بھی سکون ملے۔”
اس واعظ نے چند وظائف حاکم علی کو دیے۔ اب سے پوری رات وہ وظائف پڑھتا رہتا تھا حتیٰ کہ اسے نیند آ جاتی۔ وہ اب اس ماحول میں ڈھلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بھول جانا چاہتا تھا کہ اسے کچھ معلوم بھی ہے۔ یہاں فون، انٹرنیٹ اور خبریں صرف شہری مراکز میں دست یاب ہوتی ہیں جس وجہ سے بقیہ وطن کے باسیوں کو کچھ نہیں معلوم کہ باہر کیا ہوتا ہے۔ البتہ یہ معلوم ہوتا رہتا ہے کہ وطن جنگیں جیت رہا ہے اور دشمنوں کو پسپا کر رہا ہے۔
اس فیکڑی میں کسی کو نہیں معلوم کہ بیس سال پہلے یہاں سیاسی گروہ تھے اور یہاں چناؤ ہوتے تھے نا ہی کسی بچے کو یہ علم ہے کہ نظریات کا ایک بے ہنگم سمندر دنیا میں بہہ رہا ہے۔ بیس سال پہلے درختوں کی نایاب نسلیں یہاں ہوتی تھیں لیکن آج یہاں اس نے نا کوئی درخت دیکھا نہ ہی کوئی باغ نا ہی اسے کبھی تارے دِکھے یہاں صرف دھویں سے اٹا آسمان، خون کے پیاسے انسان ہیں۔
“تو تم والنٹِئر تھے؟” ایک مزدور ساتھی نے پوچھا۔ “ہاں! میں تھا، بیس سال بعد اٹھا ہوں۔”
“بڑے ہمت والے ہو، صدر اپنا سایہ بنائے رکھے ورنہ میں نے سنا ہے کہ والنٹِئر زندہ نہیں رہتے۔ بدقسمت لوگ ہوں گے جو ایسی خوب صورت زندگی چھوڑ کر مریں گے،” مزدور نے بیلچہ مارتے مارتے کہا۔
“مجھے بتاؤ کہ ویکسین کے بعد کیا ہوا تھا وطن میں؟” حاکم علی نے تجسس سے بھر لہجے میں پوچھا۔
“کھانے کے وقت بتاؤں گا دوست۔ ابھی یہ کام ختم کرتے ہیں،” فراز نے خوش باش ہو کر کہا۔
“جب کرفیو کے بعد لوگ بھوک کی وجہ سے مرنے لگے تو دار اُلحکومت نے دیواریں کھڑی کر دیں اور پھر شروع ہوا غدر۔
“کئی شر پسند لوگوں نے دھرنے دیے اور ایک دوسرے کو مارنے لگے۔ ان میں سب سے خطرناک وہ تھے جو وباء کے مریضوں کو انسان کہتے تھے اور سرخ کپڑوں میں کفر کرتے تھے کہ سب برابر ہیں۔ خدا کی لعنت ہو ان پر۔ پھر خدا نے ہم پر صدر کو آسمانوں سے اتارا اور انھوں نے اہل کاروں کے ساتھ ملک سنبھالا۔
“وہ ستاروں کے لباس میں پہلی بار منظر پر آئے اور ہر جگہ سکوت آ گیا۔” فراز بہت جوش سے بتاتا رہا۔
“پھر؟” حاکم علی کے تجسس میں اضافہ ہوا۔
“پھر کیا؟ جتنے شرپسند دھرنے پر تھے وہ دو بارہ دکھے نہیں نا جانے کہاں گئے؟ ہوا میں غائب ہو گئے۔ اور پھر صدر نے وطن کو سب سے آزاد کر دیا۔ آج ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں ان کی وجہ سے۔ “البتہ! وہ غائب لوگوں کے گھر والے کہتے ہیں شہروں میں اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔” فراز نے پوری تفصیل بتائی۔
“تو کتنے ہیں جو غائب ہیں؟” حاکم علی نے پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا۔
“یہی کوئی پچاس ساٹھ ہزار،” فراز مسکرا دیا۔
وہ معمول سے چمنی پر کام کرتا رہا اس کی روٹین تھی کہ وہ چمنی سے اتر کر رپورٹ دیتا اور پھر رات کے پہر گھر جاتا، وظائف پڑھتا اور سو جاتا۔ گھر کہلانے والا یہ چھوٹا سا کمرہ کئی فلیٹس کے درمیان گِھرا تھا جس پر دیکھیں تو تا حدِّ نگاہ محض دیواروں کا ایک جنگل ہے؛ نا کوئی پیڑ ہے نا ہی جان ور!
ایک رات اچانک اس کے پڑوس کے گھر پر ریڈ کیا گیا اور وہاں رہ رہے دو لڑکوں کو اہل کار فورس اٹھا کر لے گئی۔ کئی دن تک ان کا اتا پتا معلوم نہیں ہو سکا۔ اسے فیکٹری کی چِہ مگوئیوں سے پتا لگا کہ ان کا کوئی سنگین جرم تھا۔
“کیا جرم تھا؟” حاکم علی نے پوچھا۔
“کہتے ہیں کہ وہ موسیقی سن رہے تھے اور کوئی غزل؛ وہ بھی کافروں کی۔” مزدور نے بتایا۔
“ہاہا! کیا مذاق کرتے ہو؟ بھلا کوئی غزل سننے پر گرفتار ہوا ہے؟” حاکم علی نے چائے کا گھونٹ بھرا۔
ایک سناٹا پورے ماحول میں پھیل گیا۔ سارے مزدور ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
“بھیا! موسیقی سننے کی سزا کانوں میں سیسہ ڈالنا ہے۔”
“ارے وہ تو آخرت میں خدا کا اور بندے کا معاملہ ہے،” حاکم علی بولا۔
“صدر تو نائبِ خدا ہیں۔ یہیں سیسہ ڈالا جائے گا۔ وطنی دانش ور کہتے ہیں کہ موسیقی سے باغی خیال جنم لیتے ہیں اور اسی لیے بارش نہیں ہوتی۔ موسیقی آپ کو ایک نئی دینا کا تصور دیتی ہے، ایک عجیب سا زہر آلود سکون دیتی ہے۔
“یہ سارا کفر آپ کو کاہل بناتا ہے اور کاہل لوگ مزدوری نہیں کر سکتے۔ بتاؤ پھر وطن کیسے چلے گا؟ تم تو سوئے ہوئے تھے ہم بھوک کے مارے ٹائر تک کھا رہے تھے اگر صدر نہیں ہوتے تو ہمیں یہ دو وقت کا کھانا ہمارے نصیب میں نہیں ہوتا۔ تمھارے لیے باتیں آسان ہیں، ہم نے خوں پیا ہے اسی لیے۔ یہ کاہلی کفر ہے۔”
چائے گر گئی۔
آج صدر کا جلسہ ہے اور تمام وطن میں چھٹی ہے۔ جن علاقوں میں بجلی پورے ماہ نہیں ہوتی وہاں بجلی آ گئی اور ہال میں چِپ بیم کے سامنے تمام لوگ بیٹھ کر صدر کی تعریفیں کرنے لگے کہ وہ کتنے عوام دوست ہیں۔ ان کے آنے سے ہمیں بجلی اور سہولتیں ملتی ہیں۔ اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا وہ انھیں اندھیرے میں رکھتا وغیرہ وغیرہ۔ بیم سے شعاعیں نکلیں اور ایک تصویری شکل اختیار کرتے ہوئے ایک سٹوڈیو نمُو دار ہوا۔
صدر صاحب کے آنے سے پہلے ان کے بارے میں آدھ گھنٹے تک ایک خاتون ان کی مدَح سرائی کرتی رہی۔ وہ خاتون عبایہ میں ڈھکی تھی اور بتاتی رہی کہ کس طرح وطن کو نہ صرف فسادیوں سے بَل کہ بیرونی قوتوں سے بھی محفوظ رکھا گیا؛ نیز وبائی علاقوں کو الگ کر کے مزدوروں اور بَہ قول ان کے شہریوں دونوں کے لیے یہ عمل مفید تھا جس پر تالیوں کی تھاپ سے ارد گرد گونج اٹھا۔
صدر صاحب اس سٹوڈیو کے منتشر ہونے کے بعد منظر پر آئے جن کے ساتھ نقاب پوش اہل کاروں کا دستہ تھا اور انھوں نے شہریوں اور مزدوروں کو سلام کیا۔ یہ صدر صاحب حاکم علی کو جانے پہچانے لگے۔ بہت مماثلت تھی وہ سوچتا رہا کہ کہاں دیکھا ہے۔
“میرے عزیز ہم وطنو! وطن خطرات میں گِھرا ہے اور اس کو بچانے کا ایک ہی رستہ ہے کہ تمام یونٹ دار اُلحکومت کو مضبوط کریں اور دار اُلحکومت ان کو محفوظ کرے گا۔ میرے ہم وطنو! وباء کے آنے کی ایک سب سے بڑی وجہ بے حیائی اور فرسودہ تعلیم تھی جو صرف دین و وطن سے دوری کی وجہ سے تھی۔ ہم نے اسے پاک کیا ہے اور ہم ہی نے وباء کو شکست بھی دی ہے۔
“وطن میں ہر بےحیائی حرام ہے اور کتابیں ہماری دشمن ہیں۔ ہمیں انھیں شکست دینی ہے تا کہ ہم دو بارہ بارش دیکھ سکیں اور خود کو دو بارہ تر کر سکیں۔ جتنا ہو سکے موسیقی و شاعری کے گرویدہ لوگوں کو قومی سلامتی کے پیشِ نظر ہم اپنی زندگیوں سے خارج کریں تا کہ اس جھلستی گرمی_ جو کہ دس سالوں سے ہماری دشمن ہے_ اسے مات دیں۔ ہم آپ کے حامی و ناصر ہوں!”
سکرین بند ہو گئی۔
حاکم علی پوری رات آسمان میں اٹا دھواں دیکھتا رہا اور اس انسانوں کی جہنم کے تصور سے اس میں کپکپی طاری ہو گئی۔ اس نے پورے عرصے میں لوگوں کو سوال پوچھتے دیکھا، نہ ہی کسی شخص نے کوئی شکایت کی بَل کہ ہر شخص کے لیے حقیقت وہی تھی جو ان کے سامنے تھی۔
سارے ادیب مارے جا چکے تھے۔ موسیقار بھاگ چکے تھے۔ فیض و جالب، بُھلّے شاہ و شاہ لطیف، گل خان نصیر و خوش حال خان خٹک کی کتابیں جلا دی گئیں تھیں اور بیس سال پہلے کا وطن کا کوئی نشان نہیں تھا۔
صرف دو طبقات تھے ایک اہل کاروں کا اور ایک مزدوروں کا۔ یہ وہ دنیا نہیں تھی جس کے لیے حاکم علی نے اپنی زندگی موت داؤ پر لگائی تھی، جہاں آکسیجن خریدنا پڑے اور قتل و غارت مفت میں ہو۔ جہاں بچہ بچہ قاتلوں کو رہ نما سمجھے۔ یہ وہ دھرتی کبھی نہیں تھی جہاں لوگوں کی شناخت مٹا دی جائے۔
وہ ٹکٹکی باندھے اوپر دیکھتا رہا۔ یہ بکواس وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ سب بھول جائے۔ کئی گھنٹوں بعد وہ کھڑکی پر آیا اور نیچے کیچڑ اور گٹر کے نالوں کو دیکھتا رہا۔ اسے یاد آیا کہ وہ کیسے اپنے دوستوں کے ساتھ کراچی اور بلوچستان کے ساحلوں پر رات کے پہر محض چاند کو دیکھنے اور غزلیں سننے جاتا تھا اور کس طرح پہاڑوں کو سر کرنا، دوستوں کے ساتھ ڈھابوں پر چائے کی چسکیوں میں گالم گلوچ کرنا اس کی زندگی کا مِحوَر تھا۔ اس کی ماں ٹیچر تھیں اور والد سیاسی کارکن تھے۔
یہ سارا ماضی ایک فلیش بیک کی طرح آتا جاتا رہا۔ اس سے اب سانس نہیں لی جا رہی تھی۔ وہ بچے سے بوڑھا ہو گیا تھا اور جوانی اس نے دیکھی نہیں تھی۔ وہ بے والدین بن چکا تھا، نا ہی اس دنیا میں کسی ایک فرد کو بھی وہ جانتا تھا۔
اس کو واعظ کی بات نے جھنجھوڑا: “یہی تو زندگی کا مقصد ہے۔”
“مقصد؟” وہ ٹکٹکی باندھے سات فلور نیچے کیچڑ کو دیکھتا رہا۔ چاند کی بارھویں تاریخ تھی۔ ہلکی ہلکی خنک ہوا اس کو بدن پر چھوئے جارہی تھی۔ سالوں پہلے یہ موسم اس کا پسندیدہ تھا۔ اسے کوما میں رہنا زیادہ پُر سکوں لگ رہا تھا۔
حاکم علی آنکھیں بند کرکے”مقصد”، “مقصد” بڑبڑاتا رہا۔ اچانک ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمُو دار ہوئی جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔
“ایسی قیامت میں کیا مقصد ہو سکتا ہے حاکم؟” خود سے سرگوشی کرتا رہا۔ نا والدین، نا خاندان، نا دوست، نا ادب اور نہ ہی ایسی کوئی چیز جس کے لیے یہاں جینا سود مند ہو۔
اسے ذرا وقفے کے بعد یاد آیا کہ صدر کو کہاں دیکھا تھا وہ بیس سال پہلے ایک متشدد جماعت کا سربراہ تھا جسے ہنگامہ آرائی کے پیشِ نظر گرفتار کیا گیا تھا اور پھر اس کے کارکنوں نے جیل میں آگ لگا دی تھی۔ یہ قاتل تھا!
اسے اچانک اپنے پڑوسی یاد آئے جنھیں چند دن پہلے اٹھا لیا گیا تھا۔ “انھیں جب سب معلوم تھا تو انھوں نے موسیقی کیوں سنی؟” سوچتے سوچتے وہ اس نتیجے پر پہنچا: “جس دنیا میں موسیقی نہیں اس دنیا میں رہنا غلطی ہے۔” وہ بالکونی پر چڑھا، بازو کھولے اور اس بالکونی سے چھلانگ لگا دی۔
حاکم علی نیچے گرا، سر سے خون کے فوارے نکلے اس کی چِپ نے بلِنک کیا۔ ایس-91 ٹرن آف ہو گئی۔
صبح مزدوروں نے حاکم علی کے لاشے کو فٹ پاتھ پر رکھا یہ سوچتے ہوئے کہ وہاں سے آلائش والی گاڑی اسے اٹھا لے گی۔
“مجھے لگا یہ ہمت والا ہو گا،” فراز نے ساتھی مزدوروں سے طنزیہ کہا اور سب نے زور دار قہقہے کے ساتھ حاکم علی کو بد قسمت اور بُز دل کا سرٹیفکیٹ دیا اور فیکڑی نکل گئے۔
گاڑی نے لاش کو لاش گاہ میں پھینک دیا۔ چِپ نکال لی، ڈیٹا ڈیلیٹ کیا۔ یہ وباء کے بعد 91 واں والنٹِئر تھا جس نے خود کشی کی ہے۔ دو سال بعد ہسپتال میں 92 ویں والنٹِئر علی نے آنکھیں۔ وہ بائیس سال کوما میں تھا۔