(ذوالفقار علی)
جنگ و جدل wars and warfare کا سلسلہ زمانہ قدیم سے جاری و ساری ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حکمت عملی میں تبدیلیاں ضرور آتی رہی ہیں۔ حالیہ تبدیلیوں کا اگر جائزہ لیں تو اس میں ہمیں ایک خوفناک چیز کا تجربہ ہو رہا ہے۔ اب جنگیں wars دو ممالک کے درمیان کم ہوتی ہیں جبکہ پراکسی وار proxy war، مختلف دھڑوں، نسلی و مذہبی گروہوں اور فرقوں کی آپسی جنگوں internecine wars رجحان بہت زیادہ بڑھا ہے۔ یہ رجحان خاص کر اُن ممالک میں بڑھا ہے جہاں پر جمہوری ادارے کمزور ہیں۔
اس صورتحال نے انسانی حقوق اور جوابدہی کے عمل کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ کیونکہ اس قسم کی جنگ میں دشمن کی واضح نشاندہی کرنا کافی پیچیدہ عمل ہے۔ ایسی جنگوں کی وجہ سے کسی ادارے یا ملک کو ذمہ دار ٹھہرانا کافی مشکل کام ہے اس لئے اقوام متحدہ سمیت جنگ war کو روکنے والے ادارے اور جنگی جرائم war crimes میں ملوث فریقین کو کسی احتساب اور جوابدہی کے عمل سے گزارنا اب جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اس طرح کی کوئی قانون سازی اور طریقہ کار موجود نہیں ہے جو غیر واضح اور مبہم دشمن کو عدالت کے کٹہرے میں لا سکے یا ان پر معاشی اورسیاسی قسم کی پابندیاں عائد کر سکے۔ جس کا سب سے زیادہ خمیازہ بے گناہ اور کمزور طبقات کو بھگتنا پڑ رہاہے۔
اب ایسی گنجلک صورتحال میں مختلف ممالک نے اپنے اپنے مفادات کو حاصل کرنے کیلئے مختلف النوع قسم کے جنگجو گروپ proxy orgs اور فرمز بنانا شروع کیا جن کے تانے بانے مختلف حکومتوں سے جا کر ملتے ہیں۔ اسی تناظر میں اگر ہم آج کی دنیا میں جاری جنگ war اور جنگ سے جُڑے مفادات کا جائزہ لیں تو ہمیں “بلیم گیم” کی تھیوری سے جُڑے ایسے ایسے انکشافات نظر آتے ہیں جس سے ایسے لگتا ہے جیسے پوری دنیا کے ممالک کسی نہ کسی صورت میں آپس میں دست و گریبان ہیں۔
اسے بھی ملاحظہ کیجئے: دنیا کو تڑپانے والا عمران دقنیش نامی بچہ اب کس حال میں ہے؟
مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں روس کی طرف سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق داعش Daesh کو دنیا کے چالیس ممالک کی سپورٹ کا ذکر کیا گیا۔ اس حوالے سے “جیمز بیون” جن کا تعلق ‘کنفلکٹ آرمامنٹ ریسرچ’ نامی تنظیم سے ہے کے حالیہ انکشافات کافی پریشان کن ہیں۔ عراقی فوج کی موصل میں جاری جنگ کے دوران دولت اسلامیہ کو شکست دی تو بیون نے داعش Daesh سے خالی کئے گئے علاقے میں ملنے والے اسلحے کا جائزہ لیا تو اس اسلحے کا “کھُرا” سعودی عرب، ترکی اور امریکہ میں جاتا ہے اور زیادہ تر اسلحہ مشرقی یورپ کی اسلحہ ساز فیکٹریوں سے ان ممالک کو بھیجا جاتا ہے۔ بیون کہتے ہیں جب ان اسلحہ کے سیریل نمبرز اور بیچ نمبرز کا پتا لگا کے ان ممالک سے رابطہ کیا گیا کہ یہ اسلحہ داعش کے پاس کیسے پہنچا تو انہوں نے کہا کہ یہ اسلحہ ہم قانونی طور پر سعودی عرب اور امریکہ کو فروخت کرتے ہیں۔ یہی اسلحہ ترکی کے راستے دولت اسلامیہ کو ملتا ہے۔
اسی طرح افغانستان کی جنگ میں بھی پاکستان کے ذریعے مجاہدین کو اسلحہ پہنچایا جاتا رہا تاکہ روس کو افغانستان سے نکال باہر کیا جاسکے۔ حالیہ دنوں میں نیٹو کے کنٹینر سے اسلحہ غائب ہونے کا سکینڈل بھی پاکستان کےمیڈیا پر کافی ڈسکس کیا جاتا رہا۔ اور اس کی ریکوری بھی پانی کی ٹینکیوں سے ہوتی رہی ہے۔
اب چاہے حزب اللہ ہو، بوکو حرام ہو ، نیکسلائیٹ Naxalite ہوں، القاعدہ ہو یا اس طرح کے دوسرے بہت سے جنگجو گروپس ان کی پشت پناہی اور اسلحہ کی فراہمی کے حوالے سے بہت سارے سوالات اُٹھتے رہے ہیں جن کا تسلی بخش جواب آج تک کوئی نہیں دے سکا۔
اب ایسی صورتحال میں بہت سارے پیچیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا اسلحہ دینے والے ممالک کو کسی فورم پہ جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ کیا پوری دنیا میں انسانی حقوق کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر ٹھوس اقدامات کا کوئی واضح لائحہ عمل یا میکنزم موجود ہے؟ کیا اسلحہ فروخت کرنے والی صنعت سے جُڑے کاروبار کو کسی اخلاقیات کا پابند کیا جا سکتا ہے؟ کیا جنگی جنون war hysteria میں مبتلا گروپوں کو افرادی قوت اور ٹریننگ مہیا کرنے والی تنظیموں کو کسی عدالت میں لا کر ان کا محاسبہ کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر پوری دنیا ابھی تک خاموش ہے اور اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔ جس کا سب سے زیادہ خمیازہ عام اور بے گناہ انسانوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اس خوفناک صورتحال میں مستقبل کی پیشین گوئی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ان جنگوں wars کے نتیجے میں ابھی قتل و غارت کا بازار اور گرم ہو گا۔ مختلف ممالک اپنے اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لئے اسلحے اور جنگ war میں استعمال ہونے والی افرادی قوت کا تبادلہ کر کے اس دنیا کو پر امن جگہ بنانے کے خواب کی تعبیر ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔
یہ صدی نہیں تو کچھ دہائیاں انہی المیوں اور جنگ wars کی تباہ کاریوں سے انسانوں کو زخم گزیدہ کرتی رہیں گی۔ اور ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ عام لوگ جو سارے عمل سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں وہ اس قابل نہیں رہے کہ وہ کسی قسم کی مزاحمت کر سکیں جس کی وجہ سے حقوق کے حوالے سے جاری جینوئین تحریکیں بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ ان پر بھی دہشت گردی کی تہمت لگا کر سبوتاژ کر دیا جاتا ہے۔
ہمیں ایک چیز کو اب تسلیم کرنا پڑے گا کہ آج کا حکمران عام انسانوں سے بہت الگ تھلگ سوچ رکھتا ہے ان کو انسانوں کی تباہی سے زیادہ اپنی طاقت اور حکمرانی بھی حیلے بہانے سےدائم رکھنا اہم ہے۔ چاہے وہ لاکھوں انسانوں کی جان کی قیمت پر کیوں نہ قائم ہو!