احمد فراز کے عشق
محمد حمید شاہد
دو سال پہلے کی بات ہے ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں احمد فراز کی یاد میں منعقدہ تقریب ڈاکٹرعبدالعزیز ساحر نے ملک کے ایک معروف نعت خواں کو اسٹیج پر بلایا اور فراز کی لکھی ہوئی نعت پڑھوا کر سماں باندھ دیا۔ اسی سے تقریب کا مزاج بھی متعین ہو گیا تھا۔ پروفیسر فتح محمد ملک گفتگو کرنے آئے اورجنرل ضیا الحق کے زمانے کے ایک ایسے نعتیہ مشاعرے کا ذکر چھیڑ دیا جس کی صدارت ریٹائرڈ جنرل شاہد حامد نے کی تھی۔
ملک صاحب نے اپنی زبان سے صدر تقریب کا نام لینے کی بجائے تجاہلِ عارفہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نام کے بھول جانے کا تاثر دیا اور اس کی ایک نشانی اس کے تاجر ہونے کی بتائی۔ حاضرین میں سے کسی نے اُونچی آواز میں صحیح صحیح نام اُچھال کر اُن کی یاد داشت تازہ کرنا چاہی۔ ملک صاحب نے برہم ہو کر کہا، مجھے اس تاجر کے نام سے کیا لینا دینا، مجھے فراز کو یاد کرنا ہے اور اس جرات مند شاعر کا نام ذہن میں پوری طرح روشن اور زبان پر جاری ہے۔ خیر، ملک صاحب نے واقعہ آگے چلایا ، کہا فراز کی باری آئی تو نعت سنائی:
مرے رسول، کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
زمانہ یاد رکھیے، کہ بھٹو کی پھانسی کے فورا بعد کا زمانہ تھا ۔ اسی نعت کا ایک شعر تھا :
مرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے
بہ قول فتح محمد ملک، مشاعرہ ختم ہوا تو صاحبِ صدارت غصے میں فراز کے پاس پہنچے اور تلخ آواز میں کہا: ’’تم باز نہیں آتے فراز، میں تمہیں دیکھ لوں گا۔‘‘ فراز نے جواب میں کیا کہا، اس پر بات کرنے سے پہلے ملک صاحب رُک گئے،اور افسوس کے ساتھ کہا وہاں ایک سے بڑھ کا ایک بڑا شاعر موجود تھا، مگر سب چپ تھے ۔ یہیں اُنہوں نے اضافہ کیا کہ فراز اس لیے بھی بڑا ہے کہ جب سب چپ ہو جاتے تھے تو تب بھی فرازکلمہ حق کہنے سے نہ چوکتا تھا۔
اسی تقریب میں وائس چانسلر شاہد صدیقی نے فراز چیئر بنانے کے منصوبے پر کام کرنے کا اعلان کیا تھا، نہیں معلوم اب تک اس باب میں کیا ہوا، سعدی فراز نے اپنے ابا کی نظم سنائی، یوں کہ لگا خود فرازخود نظم سنانے آگئے تھے۔
شبلی فراز کو بھی ابا کے بہت قصے یاد تھے، سناتے چلے گئے۔ مجھے اپنی باری پر آغاز ہی میں کہنا پڑا کہ فراز کے عشق یاد نہ کیے جائیں تو فراز کا ذکر کیسے مکمل ہوگا اور یہ اضافہ کیا کہ فراز کی شاعری کے مزاج کو بھی ان عشقوں کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہیں مجھے ایک اور تقریب کا واقعہ یاد آتا ہے ۔ وہ بھی یہاں لکھ دیتا ہوں۔
یہی دن ہوں گے کہ ہم اکادمی ادبیات پاکستان کے کانفرنس ہال میں احمد فراز کو یاد کر رہے تھے، ساتھ ہی نوجوان شاعروں کا مشاعرہ بھی رکھ لیا گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب کچھ کہنے کو میری باری آئی اور میں نے اپنی بات کو آغاز دینے کے لیے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے پہلا جملہ، جو کہا، وہ یہ تھا:
’’فراز نوجوانواں کے شاعر تھے‘‘
شبلی فراز، تب بھی وہاں موجود تھے، جھٹ انہوں نے مجھے درست کرنا چاہا:
’’فراز نوجوانوں کے بھی شاعر تھے‘‘
مجھے اپنے آپ کو درست کرنے میں کوئی قباحت نظر نہ آئی ،تب میں نے’’ بھی‘‘ کے ساتھ پہلا جملہ دہرا دیاتھا ۔ شبلی کی بات مان لینے میں مجھے یوں کوئی جھجھک محسوس نہ ہوئی تھی کہ میرا واسطہ ایسے ادیبوں سے بھی رہا ہے جو فراز کو محض اور صرف ٹین ایجرز کا شاعر سمجھتے رہے اور سمجھتے ہیں۔
خیر، درست یا نا درست فراز کے حوالے سے یہ ٹین ایجر والا تاثر بنا ۔ اور مجھے تو لگتا ہے کہ اسے بنانے میں خود ہمارے اس محبوب شاعر نے اپنی زندگی کھپا دی تھی، اور اب یہ عالم ہے کہ ہر پیڑھی کی جواں نسل فراز سے محبت کرتی ہے۔ اس باب میں فراز کے معاصرین بھی پورا پورا حصہ ڈالتے رہے ہیں ۔ مجھے یاد ہے پروین شاکر نے اپنے ایک مضمون میں بتایا تھا:
’’ڈھلتی عمر کے شعراء اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ فراز ٹین ایجر ز کا شاعر ہے ، جو زیادہ زخم خوردہ ہیں وہ اس سے بھی ایک قدم آگے جاکر فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ فراز تو لڑکیوں کا شاعر ہے۔‘‘
سو یوں ہے ، کہ فراز کا ذکر ہو اور بات اس نسل کی نہ ہو جس کے دل کی دھڑکنیں تک فراز نے چرالیں تھیں یہ کیسے ممکن ہے ۔ تاہم میں اسے فراز کی توفیقات میں سے ایک سمجھتا ہوں، کہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک نوجوان نسل کا محبوب ترین شاعر رہا اور اپنے چل بسنے کے بعد بھی اس نسل نے اسے بھلایا نہیں ہے، لڑکے اور لڑکیاں اگر فراز کا نام لے لے اور شاعر بننے کا سوانگ بھر کر اپنی بات کہنے کو شعر بنا لیتی ہیں، جہاں شعر نہیں بھی بنتا کہ (یہ تو توفیق ہی سے بنا کرتا ہے)، وہاں بھی محض فراز کا نام کاا ستعمال، اسے شعر کی سی دھج دے دیتا ہے تو یہ محبت اور مقبولیت تو نصیب والوں کو ہی ملتی ہے، فراز بخت والے تھے کہ یہ انہیں ملی۔
ذرا پلٹ کر دیکھئے ، ماضی قریب میں اور ماضی بعید میں دور تک ، کون ہے وہ خوش بخت جسے اتنی محبت ملی ہو۔ اور لطف یہ ہے کہ سال پر سال بیت رہے ہیں فراز سے محبت کرنے والوں میں کمی نہیں آتی۔ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے آئے ہیں کہ اس محبت کا عملی مظاہرہ نوجوان نسل کی طرف سے مسلسل اور استقلال کے ساتھ ہوتارہا ہے ۔
احمد فرازنے کہا تھا :
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں ، سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
جنہیں فراز نے سادہ کہا ہے؛ یہ وہ ہیں،جو اپنے تئیں بہت پاپڑ بیلتے رہے، اور بیل رہے ہیں، کہ فراز کو ایک خاص مزاج کا قیدی بنا کر پیش کریں ،یہ سادہ لوگ جوکرتے رہے ،ہم اسے معاصرانہ چشمک میں ڈال سکتے ہیں مگر ہمارے ناقدین کو کیا ہوا ہے کہ فراز کی شاعری کی فنی اور جمالیاتی توفیقات پر کوئی ڈھنگ کا مضمون دیکھنا چاہو تو دھونڈے سے بھی نہیں ملتا ۔ خیر یہ جملہ معترضہ تھا ، مجھے یہاں کہنا یہ ہے کہ کوہاٹ جیسی غزل کش فضا میں پیدا ہونے والے اس شاعر نے غزل کے مزاج اور بانکپن کو جس سلیقے سے بحال رکھا، نہ صرف بحال رکھا اس میں نیا جمال اور نکھارپیدا کیا ، اسے بھی دیکھا اور آنکا جانا چاہیے۔
ہاں توبات نوجوانوں کی ہو رہی تھی اور میں بتا نا چاہ رہا تھا کہ عشق ایسا موضوع ہے ، جو کچی عمر میں ہی دھڑکنیں برہم کر دیا کرتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ موضوع خود فراز کے دل کی دھڑکنیں، آخری عمر تک بے ترتیب کرتا رہا۔ یہ جو فراز کے ہاں، بہت زیادہ لسانی تجربے کیے بغیر، غزل کے مزاج میں رچ بس کر، اپنی بات کہنے کا سلیقہ ہے، اس کے فارمیٹ اور مزاج کو تنگنائے جان کر اس میں اکھاڑ پچھاڑ سے وسعتیں پیدا کرنے کی بجائے، فنی کمال کی پچکاری سے جمال کے دھنک رنگ برساتے ہوئے، ایک خاص نوع کی لذت اور لطف کے ساتھ ایک ایک مصرع کہنے کا چلن ہے، اس کا سبب بھی یہی ہے کہ فراز نے عمر بھر اپنے دل کو جواں رکھا ہے ۔ تاہم ایسا ہے کہ اس کا عشق کبھی بھی عام سا عشق نہیں رہا کہ جب جب وہ محبوب کو دیکھتا رہا، اس کے مزاج کی گہرائیوں کو بھی آنکتا رہا ہے :
ہر حسنِ سادہ لوح نہ دل میں اُتر سکا
کچھ تو مزاج یار میں گہرائیاں بھی ہوں
محبوب کا مزاج بنتے بنتے بنتا ہے، کہ مزاج بننے میں ایک عمر لگ جایا کرتی ہے ، گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ بظاہر یہاں عشق سے معاملہ ہے مگر ایسے عشق سے نہیں جو اُتھلا ہو، کچی عمر کی ناسمجھی ہو اور خطا ہو ، اب اگر میں یہ کہوں کہ عشق کو تھا م لینا اور اُس میں سے اُتھلے پن کو منہا کرتے چلے جانا فراز کے عشق کا ایک قرینہ تھا، تو بے جا نہ ہوگا۔
عشق کی اوبڑ کھابڑ راہوں پر محبوب تو بہت مل جاتے ہیں،جی ایسے بھی، جن پر گماں گزرتا ہے کہ یہ تو وہی ہے جس کی طلب تھی ، مگر فی الاصل وہ کہاں اور کیسے مل پاتا، کہ جس کی فراز کوچاہ تھی ، سو عشقوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ ایک کے بعد ایک اور عشق، اور اس میں بھی یہ التزام کہ جو تعلق قائم ہوا تھا، وہ بھی آنسو وں کی طرح آنکھوں میں چمکتا رہے:
یا تجھے دیکھ کے بھر آئے خوشی سے آنسو
یا مری آنکھ میں گزری ہوئی شب ہے کوئی
تسلیم کرنا ہوگا کہ اس باب میں بھی فراز ریا کار نہیں رہا، اُس نے ایک محبت کا دھنڈروا پیٹنے کے لیے اپنی دوسری محبتوں کو کسی بھی مرحلے پر چھپایا نہیں، بلکہ وہ تو اس باب میں بیان کی سفاکانہ حد تک چلا جاتا تھا:
اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ تو میرا نہیں تھا اور میں تیرا نہ تھا
صاحب، یہاں تک آتے آتے ، آپ نے جانچ لیا ہوگا کہ عشق کا وہ مضمون جو ہماری غزل کی روایت میں بہت نمایاں رہا ہے فراز نے اُسے چپکے سے ایک نیا رُخ دِے لیا تھا ۔ مجھے اپنا جملہ درست کرنا ہوگا ، چپکے سے نہیں بلکہ سفاکی سے بھی:
ہم ترے لطف سے نادم ہیں کہ اکثر اوقات
دِل کسی اور کی باتوں سے دُکھا ہوتا ہے
تو یوں ہے صاحب، کہ فراز میں حوصلہ تھا کہ ایک لطف کے سمے میں ایک دُکھ کی لذت چکھ لے، ایک کیف کے لمحے سے دوسری کیفیت میں اتر سکے اور اس دوسری کیفیت کو بھی اسی قرینے سے اپنے شعر کا حصہ بنالے۔
دوسری کیفیت یا دوسری نوع کا عشق، جو فراز کی شاعر کا بنیادی وظیفہ رہا ہے وہ اپنے لوگوں سے جڑنا ہے، اُن کے دُکھ سکھ سے جڑنا ہے، ان کی نارسائیوں پر کڑھنا اور اُن میں مر مر کر جینے اور مرتے چلے جانے کے چلن کو جھٹک کر اپنے وجودوں میں جینے اورجینے کا حق ادا کرنے کی اُمنگ بھرنا ہے۔
اب میرا ہنر ہے مرے جمہور کی دولت
اب میرا جنوں خائف تعزیر نہیں ہے
اب دل پہ جو گزرے گی وہ بے ٹوک کہوں گا
اب میرے قلم میں کوئی زنجیر نہیں ہے
جمہور سے جڑنے کی یہ للک ترقی پسندوں کی عطا سہی ، مگر فراز کے ہاں یہ محض کسی مہربان کا عطا کیا ہوا منشور نہیں رہتا، اپنے وجود سے پھوٹا ہوا اور اپنے رگوں میں لہو کی طرح گردش کرتاہوا عشق ہو جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب جب فراز نے اس موضوع کو برتا ہے ایک عاشق کے باطن کی سچائی سے برتا ہے ؛ یوں کہ پڑھتے ہوئے اس کا قاری ایک ایک لفظ کی آنچ کو محسوس کر سکتا ہے ۔
جس کو دیکھو وہی زنجیر بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں
جمہور سے اسی وسیلے سے اپنے وطن سے وہ جذبے کی سطح پر جڑے اور عملی طور پر بھی ۔ جمہور سے جڑنے کا شاخسانہ ہے کہ قومی سانحات کو اپنی شاعری کا حصہ بنانے لگے تھے، کہ یہ سانحات براہ راست جمہور کی زندگیوں کا ناس مار رہے تھے ۔اسی سبب سے ہی فراز کی شاعری میں مزاحمت کا رنگ گہرا ہوتا چلا گیا ۔ یوں یہ مزاحمت بھی فراز کا ایسا عشق ہو گئی ہے جس کے بغیر فرازکی شاعری کو ڈھنگ سے سمجھا ہی نہیں جا سکتا، ایک بار پھر وہی شعر جس سے بات آغاز ہوئی تھی:
مرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے
سو ایسا ہے کہ قاتلوں کا ٹولہ جب جب روپ بدل کر آئے گا، جب تک زندگی کی تاہنگ میں قتل ہونے والے قتل ہوتے رہیں گے، جب تک زنجیر بپا لوگ داخل زنداں کیے جاتے رہیں گے اورظلم جب جب اور جہاں کہیں شب خون مارے کر ہمیں محاصرے میں لے گا ، ہم فراز کے عشق کی چھتر چھاؤں میں رہیں گے اور اس سے توانائی کشید کریں گے ویسی ہی توانائی جوکسی جواں سال کے دل میں اس کا منہ زورعشق اُنڈیل دیا کرتا ہے۔