احمد فراز، علی اکبر ناطق کو خط لکھتے ہیں
خالد کراّر (جموں، انڈیا)
عزیزی علی اکبرناطق!
تمہاری پوسٹ نظر سے گزری جس میں تم نے فیس بکیوں سے درخواست کی ہے کہ وہ تمہاری نظموں کو چاہے اپنے نام سے پوسٹ کر دیں لیکن میرے نام سے نہ کریں کہ تم نے یہ نظمیں میری موت کے بہت بعد لکھی ہیں۔ اس جملے سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ تمہیں نظمیں پوسٹ کرنے پر اعتراض ہے یا میرے نام پر۔ لگتا ہے تم مجھے شاعر نہیں سمجھتے جس طرح تم کرشن چندر کو افسانہ نگار نہیں سمجھتے۔ اس سے کچھ رنجیدگی ہوئی لیکن پھر جون ایلیا کو یاد کرکے غم جاتا رہا کہ وہ بھی تو مجھے شاعر نہیں سمجھتے تھے۔ حالانکہ میں انہیں محض ان کے حلیے بشرے سے مکمل شاعر سمجھتا رہا ہوں لیکن انہوں نے تو مروتاً بھی یہ نہ کیا۔ بھئ! کم از کم ڈیزائن دار غزلیں نظمیں پوسٹ کرنے والے پاپولر فیس بکیوں کو تو یہ رعایت دے دو کہ وہ تمہاری خوبصورت نظموں سے اس فانی دنیا میں کچھ نام کما سکیں۔ آخر کو آپ سب نے میرے ہی پاس تو آنا ہے۔اور یہاں نہ نثر کام آئے گی نہ نظم۔ نہ ہی ترجمہ کا کوئی فائدہ ہے۔
ویسے اس میں اس قدر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ تمہاری نظمیں دوسروں کے نام سے نشر ہو رہی ہیں۔ جب میں اسی طرح کی چاند ماری کا نشانہ بن رہا تھا اور بے بسی کی حالت میں روتا تھا تو تمہارے سمیت دوسرے چھوٹے بڑے سب مجھ پر ہنستے تھے۔ جون ایلیا کو تو شادمانی میں حال آ لیتا تھا اور ایسے میں آپ سب اس کی زلفوں کے رقصِ بسمل سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ نہ بھولو کہ میں اسی کیفیت سے گزر چکا ہوں جس سے تم گزر رہے ہو۔ اب بھگتو! یا نظمیں کہنا چھوڑ دو یا دل بڑا کرو۔ ایک اطمینان ہوا کہ اردو کا ایک ایسا ادیب جس کو آکسفورڈ، پینگوئین، رینڈم ہاؤس اور جانے کو ن کون سے ہاؤس دھڑا دھڑ نہ صرف مفت چھاپتے بلکہ رائیلٹی ادا کرتے ہیں اور چار دانگ عالم جس کا طوطی بولتا ہے،( حالانکہ طوطی ہمیشہ بولتی ہے) بھی اسی کرب سے دوچار ہے جس سے ساری عمر میں دوچار رہا ہوں۔
اب تم پوچھو گے کہ بھائی آپ کو کیا کربناکی کہ آپ نے تو تمام عمر لطف و کرم کی بارشیں دیکھی ہیں، ملکوں ملک گھومے ہیں، عہدے داریوں کا لطف اٹھایا ہے،عشق کئے ہیں اور اپنی غزلوں کو گویوں سے گوایا ہے۔ناطق! یہ بات کوئی اور پوچھتا تو شاید میں نہ بتاتا لیکن تم اسلام آباد کے ایچ8 میں، جہاں میرا مرقد ہے، بارہ برس تک میرے ہمسائے رہے ہو، اس اس تعلق کا پاس رکھتے ہوئےبتا رہا ہوں کہ ساری زندگی شاعری سے رومان کشید کیا اور ہر طرح کاسامان بہم پہنچایا ہے۔ اعزاز و اکرام سے نوازا گیا ہوں۔ماؤں نے میرے نام پر بیٹوں کے نام رکھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گلی کوچوں اور محلوں میں احمد فرازوں کی بھرمارہونے لگی۔
ہر ٹرک کی بتی کے ساتھ شعر نما عبارت اور اس عبارت پر ناچیز کا نام۔ انٹرنیٹ پر تلاش کے دوران میرے نام کے ساتھ ایسے اشعار منسوب کئے گئے کہ شعر گوئی عیب لگنے لگی۔تم مجھے شاعر، بڑا شاعرسمجھو نہ سمجھو لیکن یقین ہے کہ اقبالؔ اور غالبؔ کو تو شاعر ضرور سمجھتے ہو گے کہ ہم تینوں اردو کے وہ مظلوم و مقہور شاعر ہیں جن سے کچھ بھی کہیں بھی کیسا بھی منسوب کیا جاسکتا ہے۔ ہم تینوں میں غالبؔ کو استثنیٰ ہے کہ انہیں گلزار جیسا جانثار میسر آگیا ہے۔ تاہم بیچارے اقبال ؔ کو قوال میسر آئے یا پھر پروفیسر یوسف سلیم چشتی جنہوں نے اقبالؔ کو قومیانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔بعدازاں جو کمی رہتی تھی وہ عمران شاہد بھنڈراور صلاح الدین درویش نے پوری کر دی اور مسلسل کر رہے ہیں ۔یہ دیکھ کر یک گونا اطمینان ہوتا ہے کہ یہاں محض میرا ہی نہیں بڑے بڑوں کا خانہ خراب ہے۔ادھر سنا ہے ایک بزرگوار فضیل جعفری نامی میرے بھی پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
خیر! جیسا کہ تم جانتے ہو اردو کا ہر شاعر جو شاعر ہے اور ہر وہ شاعر جو شاعر نہیں ہے ، دوسرے کو شاعر تسلیم نہیں کرتا۔ سو اگر تم مجھے شاعر تسلیم نہیں کرتے نہ سہی لیکن سنا ہے کوئی ایک ہزار جیالوں نے تمہاری نظمیں اپنے نام کر رکھی ہیں۔شکر کرو تم طویل نظمیں لکھتے ہو جو ٹرکوں پر درج نہیں کی جا سکتیں۔ یہ طریقہ فائدہ مند ہے جاری رکھو۔ یقین مانو یہ فیس بک اسی لئے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ اس نے مجھے رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے۔اب تو حالت یہ ہےکہ میرے پاس کل ملا کر تین غزلیں بچی ہیں جو واقعی میری ہیں
’’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ” شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو‘‘ ان کی بقا میں مجھ سے زیادہ استاد مہدی حسن خان کا ہاتھ ہے اور تیسری غزل جسے میں ساری زندگی کی کوششوں کے بعد محض اس باعث بچانے میں کامیاب رہا کہ ہر مشاعرے اورہر انٹرویو، ہر تقریب میں اس کی فرمائش مجھ سے کی گئی۔ تم جانتے ہی ہو وہ غزل’’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘‘ان تین غزلوں کے سوا محض ’’محاصرہ‘‘ نام کی ایک نظم ہے جس پر مجھے اپنی ہونے کا گمان ہوتا ہے وہ بھی تب جب اقتدار کے ایوانوں میں فوجی بوٹوں کی دھمک پیدا ہوتی ہے۔
تم کہتے تھے نا کہ’’ریشم بننا کھیل نہیں ہے‘‘ سو بُنا ہے تو اب بھگتو۔ تم چاہے ’’نفیرے والیاں لکھو‘‘’’دیوار ِ گریہ‘‘ یا کچھ اور جب تک تمہارا نام اقبالؔ غالبؔ اور میری طرح ٹرکوں اور بسوں پر درج نہیں ہوتا میں بھی تمہیں شاعر نہیں سمجھتا ، جاؤ جو کرنا ہے کر لو۔ اگر ہو سکے تو خط کا جواب دینا نہیں تو یہی سمجھوں گا کہ اس کی وہ جانے اسے پاس ِ وفا تھا کہ نہ تھا تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
احقر
احمد فراز عفی عنہ