احسن اقبال جیسے انسان اور وزیر کی پاکستان پرستی
از، عرفانہ یاسر
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی خبر سنی تو شدید رنج ہوا۔ ان کا بھلا کون دشمن ہو سکتا ہے؟ اس خیال میں وہ تو اپنی سیکورٹی کی کچھ خاص فکر نہیں کرتے۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ جب پتا چلا کہ احسن اقبال صاحب کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
احسن اقبال کے ساتھ وزرات منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات میں کچھ عرصہ بہ طور الیکٹرانک میڈیا آفیسر کام کرنے کا موقع ملا۔ ان سے جہاں بہت کچھ سیکھا وہاں ایک عام سیاست دان یا پھر ہماری سیاسی ثقافتی فضا میں کسی سیاست دان یا وزیر کا جو تاثر عمومی طور پر پروان چڑھایا گیا ہے، وہ یک سر بدل گیا۔ انہیں ایک عام سیاست دان سے بلکل مختلف پایا۔
میڈیا میں کام کرتے ہوئے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ریٹنگز کی دوڑ میں مصالحہ دار، ہائی ساؤنڈنگ، آتش گیر قسم کی اور منفی چیزوں کی بابت زیادہ خبر چلتی ہے۔ وہاں جب لوگوں کے سامنے یہ کہا کہ ایسا نہیں ہے اور احسن اقبال کی درست تناظر میں باتیں بتانے کی کوشش کی تو مسلم لیگ ن کا ٹھپہ بھی لگانے کی کوشش کی گئی۔ ان کے کاموں کے بارے میں لوگوں کو بتایا تو کہا گیا کہ ہاں آپ تو اپنی اگلی نوکری پکی کر رہی ہیں۔ حالاں کہ خود وزارت منصوبہ بندی سے چھوڑ کر دوبارہ میڈیا میں آئی ہوں اور آج کل اے آر وائی نیوز میں کچھ بہتر پیسوں پر ملازمت کر رہی ہوں۔
احسن اقبال حقیقی طور پر منکسر المزاج، بہت ہی محنتی اور انتہائی دیانت دارانسان ہیں۔ ایک ایسا انسان و عوامی عہدے دار جس کے منھ پر ہر وقت پاکستان پاکستان رہتا ہے۔ جس کے لیے پاکستان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ جس کے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے۔
کام کی نوعیت ایسی تھی کہ ان کے ساتھ ہر میٹنگ میں بیٹھنا ہوتا تھا۔ اور تقریباً ہر تقریب میں بھی ان کے ساتھ ہونا تھا۔ وہ ہر جگہ ایک ہی بات کرتے کہ ہم سب کو مل کر پاکستان کو آگے لے کر چلنا ہے۔ میٹنگز میں ان سے غیر ملکی وفود ملنے آتے تو وہ ان کو بتاتے کہ پاکستان ویسا نہیں ہے جیسا غیر ملکی میڈیا ان کو بتاتا ہے۔ وہ ان کو بتاتے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں سیاسی اختلافات ضرور ہو سکتے ہیں، لیکن پاکستان کی ترقی کے لیے سب اکٹھے ہیں۔ غیر ملکیوں کے سامنے ان کو کبھی بھی کسی بھی سیاسی حریف کے خلاف بات کرتے نہیں سنا۔
بہ طور وزیر منصوبہ بندی، تعلیمی منصوبہ جات کے بارے انتہائی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ سب سے ترجیحی بنیادوں پر اور جلدی منظوری دیتے ہیں۔ ایسے منصوبوں کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے۔ پاکستان کے ہر ضلع میں یونی ورسٹی یا اس کے کیمپس کے قیام کا منصوبہ بھی ان کی محنت سے شروع کیا گیا۔
وہ اداروں میں اصلاحات چاہتےہیں۔ ماڈل سکول اور ماڈل پولیس سٹیشن کے منصوبے شروع کیے گئے۔ اس کے علاوہ سول سروسز ریفارمز پر بھی کام کیا گیا۔ سول سروسز میں عمر کو تیس سال تک بڑھانا بھی ان کی وجہ سے ممکن ہوا۔ وہ نو جوانوں کی بات کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہر نو جوان کو آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ وزارت منصوبہ بندی میں ینگ ڈویلپمنٹ فیلوز YDF کا منصوبہ ان کی وجہ سے شروع ہوا۔ جس میں مختلف اعلیٰ درجے کی بیرون ملک اور اندرون ملک کی یونی ورسٹیوں کے گریجوئیٹس نوجوانوں کو وزارت کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کا موقع ملا۔
بہ طور وزیر صبح صبح دفتر میں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے بعد پورا دن ایک نا ختم ہونے والے کام کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ وہ تھکتے نہیں تھے۔ ان کے چہرے پر کبھی تھکن نہیں دیکھی۔ وہ دنیا کو پاکستان کی منفی نہیں بل کہ مثبت باتیں بناتے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ پاکستان میں یہ نہیں ہے، بل کہ کہتے پاکستان میں یہ یہ ہے۔
ان کے دفتر میں جانے کی سب کواجازت ہوتی ہے۔ اگر ان کو کوئی بھی عام فرد معاشرہ ای میل کرتا یا میسج کرتا تو وہ اس کا جواب دیتے ہیں۔ وہ سب کو سنتے۔ وہ ایسے نو جوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو پاکسستان کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
ان کے دفتر کے باہر وزٹنگ روم میں ہر وقت لوگ موجود ہوتے جو اپنے مسائل لے کر آتے۔ ان میں زیادہ لوگ وہ ہوتے جو ان کے حلقے نارووال سے آتے اور وہ ان کی بات سنتے اور حل بھی نکالتے۔ ان کے حلقے سے ایسے لوگوں کوبھی ان کے دفتر میں دیکھا جو ان سے تلخ لہجے اور جھگڑے کے سے انداز میں بات کرتے، لیکن احسن اقبال مسکرا کر جواب دیتے۔
رائزنگ پاکستان Rising Pakistan کا سلوگن انھوں نے متعارف کرایا۔ جس کا مطلب تھا پاکستان درست سمت جا رہا ہے۔
مثبت ذہن والے، انہیں کبھی یہ شائبہ بھی نہیں رہا کہ ان کا کوئی دشمن ہے۔ دہشت گردی کے ماحول میں بھی اسلام آباد میں اکیلے گاڑی ڈرائیو کرتے نظر آتے رہے ہیں۔ پارکس میں واک اور جاگنگ کرتے رہے ہیں۔ کئی دفعہ وزارت کے دفتر سے واک کرنے کے خیال سے گاڑی ساتھ نا لے جاتے۔
مزید ملاحظہ کیجیے: احسن اقبال کا ہسپتال میں پہلا سوال؟
ان پر حالیہ بارشوں اور بادلوں کے موسم میں کہیں نیب کا سورج جو چمکتا ہے اس سے پہلے آپ کی دیانت داری پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی تھی۔ اس الزام میں بھی آپ پر ایک ایسے پراجیکٹ جس کی کل لاگت کا تخمینہ 2.9 ارب ہے، اور جس کے ابھی 2.4 ارب روپے جاری ہو سکے ہیں، ان میں معجزاتی طور پر 6 ارب روپے کی بد عنوانی کرنے کا الزام دھرا گیا ہے۔ فلم بہت ہی بڑی بنائی جا رہی ہے۔
ہاں اگر کسی وقت ان پر کچھ لوگ کوئی الزام دھرتے ہیں تو یہ کہ اپنے حلقے سے وزارت کے دوران بھی مضبوط تعلق رکھا ہے۔ حالاں کہ کے وفاقی وزیر بننے کے بعد تو اسلام آباد کے پر فضاء شہر کو ہی ٹھکانہ بنائے رکھنا چاہیے۔ انھیں اپنے حلقے پر بہت زیادہ خرچ کرنے کے طعنے ملتے ہیں۔ وہ کچھ بھی ہو جائے ہفتے اور اتوار کے روز اپنے حلقے ضرور جاتے۔ وہ ایسے وزیر ہیں جنھوں نے اپنے حلقے سے اپنا تعلق کبھی ختم نہیں کیا۔
ن لیگ کے جونیئر وزیر ان سے بعض اوقات تلخ لہجے میں بھی بات کرتے نظر آئے۔ لیکن انھوں نے انھیں قائل کرنے کی ہی کوشش کی، اپنی انا مجروح ہونے کو اپنے حلم پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔
کتنی دفعہ پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ مکمل طور پر ہذیانی حالت میں ان سے ملاقات کرنے آتے رہے کہ سی پیک میں ان کے زیرِ حکومت صوبے کا حصہ کدھر لے گئے ہو، لیکن جب بھی وزیر اعلیٰ موصوف وزارتِ منصوبہ بندی کے دفتر سے نکلے تو مکمل قائل ہوتے تھے۔ وہ الگ بات ہے کہ پشاور واپس جا کر گراری واپس اپنے مقام پر آ جاتی تھی۔ احسن اقبال کو اپنی صداقت اور صاف گوئی سے کسی کو بھی قائل کرنے کا ہنر آتا ہے۔
احسن اقبال جیسے لوگ کسی بھی قوم اور ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں ان کی قدر کی جانی چاہیے۔ خدا انھیں صحتِ کاملہ دے۔ آمین