ایک برس میں ایک روزن نے کوئی انقلاب برپا نہیں کیا مگر…۔
(آعمش حسن عسکری)
ایک سال ہوا جب پاکستان کی آن لائن صحافت میں ‘ایک روزن’ کا ورود ہوا۔ بہت ساری مشکلات کے باوجود ‘ایک روزن’ نے اپنے لیے ایک مقام بنایا ہے۔ کمیاں، کوتاہیاں بھی ضرور رہ گئی ہوں گی۔ آج جب ‘ایک روزن’ کے ایک سال پر نگاہ کی تو نگاہ دور تک گئی اور جب نگاہ بہت دور چلی جائے تو قریب بکھری چیزیں دھندلی پڑنے لگتی ہیں۔ اور پھر یہ مسئلہ بھی ہے کہ جب بھی کسی علمی، فکری یا ادبی موضوع پر رائے زنی کرنا ہو تو آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی تقابل کرنے بیٹھ جاتا ہے۔
ایک روزن میں ایسا کیا ہے جو دوسرے آن لائن فورمز میں نہیں یا باقی کے بلاگز میں ایسا کیا ہے جو ایک روزن میں نہیں۔ خیال انہیں وادیوں میں بھٹک کررہ گیا تھا کہ خیال آیا کہ تقابل ایک بنیادی انسانی رویہ ہے، اس سے مفر کیسا۔
خیر ان ساری منتشر سوچوں کو مرکوز کرنا چاہا تو چند نکات سامنے آئے جن کو تحریر میں لا کر مضمون کا روپ دینے کی کوشش کی۔
ایک روزن کا دعویٰ رہا ہے کہ یہ ایک غیر صحافتی فورم ہے۔ اس دعوے کی دلیل وہ تمام تحریریں ہیں جو یہاں پچھلے ایک سال میں چھپیں۔ تمام تحاریر کا مزاج خالصتاََ علمی ہے۔ اگر کہیں صحافتی موضوع زیرِ بحث آیا بھی ہے تو وہ روایتی صحافتی shallowness کا شکار نہیں ہوا۔
اثر اس کاوش کا یہ ہوا ہے کہ ایک روزن کی کئی تحریریں ایسی ہیں جن کو کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ ان تحریروں کی قدر محض واقعاتی یا حادثاتی نہیں رہ جاتی۔
ایک روزن کا سب سے اہم کام یہ رہا ہے کہ اس نے اردو نثر کو بنے بنائے سانچوں سے بھی آزاد کیا ہے۔ اور اس کا سہرا اس کے لکھاریوں کو جاتا ہے۔ اظہار کے بنے بنائے ڈھانچوں پر انحصار نے اردو زبان کو بوجھل بنا دیا ہے۔
یہاں تک کہ اردو کے بظاہر ہمدرد بھی یہ کہتے مل جاتے ہیں کہ اردو کا ناتواں جسم جدید علمی اور فکری مباحث کا بوجھ نہیں سہار سکا۔ ایک روزن پچھلے ایک سال میں کئی ایک تحریریں سامنے لایا ہے کہ جن سے یہ تاثر ٹوٹا نہیں تو اس میں دراڑیں ضرور پڑی ہیں۔
زبان کے باب میں دوسری بڑی تبدیلی یہ لائی گئی کہ اردو کو مزاحمت کی زبان بنایا گیا، اور ان موضوعات پر لکھا گیا جو بظاہر اردو قاری کا مسئلہ نہیں لگتے۔ صنفی جبر اور صنفوں کو محض میل اور فی میل کی ثنویت سے ہٹ کر دیکھنے کی روش ایک روزن کے لکھاریوں میں صاف نظر آتی ہے۔
ایک روزن کا تیسرا اور سب سے اہم کام میری نظر میں یہ ہے کہ اس نے مین سٹریم کے جبر کو جھٹک کر رکھ دیا۔ یہ مین سٹریم کا جبر ہی ہے کہ لکھاری کو بعض اوقات ایسی بات کرنا پڑتی ہے جس میں فکری گہرائی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات بلاگز محض اپنی ٹریفک کو رواں رکھنے کے لیے بھی ایسا مواد شائع کر دیتے ہیں جو معیار پر کمپرومائز دکھائی دیتا ہے۔ مارکیٹ فورسز کا شکار نہ ہوتے ہوئے مین سٹریم کی طرف مزاحم رہنا ہی ایک روزن کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔
تو قارئین! آپ نے دیکھا کہ ایک روزن نے آن لائن لکھائی میں کوئی ‘انقلاب برپا’ نہیں کیا اور نہ ہی آن لائن صحافت میں کوئی ‘نئی روح پھونکی’ ہے۔ نقلاب کے متلاشی قاری کو ‘ایک روزن’ کی تحریر پڑھ کے شاید مایوسی ہو۔ لیکن وہ قاری جو انسان اور سماج کو سمجھنا چاہتا ہے یہاں ضرور آئے۔
نوٹ: راقم گزشتہ ایک سال سے ‘ایک روزن’ کا قاری ہے۔ یہ مضمون ایک سال پر محیط مشاہدات کا مختصر خلاصہ ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.