ایک منظر کا افسانہ، ایک افسانے کی حقیقت
از، جواد حسنین بشر
کہیں کسی بستی کا ایک منظر۔۔۔
اونچی جگہ پر بیٹھے ایک مولانا بابا جی…
ان کے سامنے دو زانو ہو کر، ہاتھ جوڑ کر دو مرد ایک جوان ایک بوڑھا… اور دو عورتیں ایک جوان اور ایک بوڑھی…
بوڑھا مرد: مولانا بابا جی! زمین کا بنجر پن بڑھتا ہی جا رہا ہے… (پریشان آواز میں)
بوڑھی عورت: اب تو بارش بھی وقت پر نہیں ہوتی… (تھکی ہوئی آواز میں)
جوان مرد: ہمارے لیے تو بہار بھی خزاں جیسی ہوتی ہے ۔ پھول اگتے ہیں، لیکن خوش بُو کے بغیر… درختوں پر پھل لگتے ہیں لیکن ان میں چاشنی اور رس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی…
جوان عورت: مولانا بابا جی! کہیں زمین کا یہ بانجھ پن بستی کی عورتوں میں نہ پھیل جائے …
بوڑھا مرد: یہی حال رہا تو بستی ویران ہو جائے گی…
جوان مرد: ہمیں یہ بستی چھوڑ دینی چاہیے…
بوڑھا مرد: نہ بیٹا نہ! یہ بستی ہمارے آباء و اجداد کی ہے… اسے چھوڑ کے ہم کیسے جا سکتے ہیں…
جوان مرد: کوئی طوفان ایسا نہیں جو بستی سے نہ گزرتا ہو… دشمن قبیلے بھی اب آخری وار کی تیاری میں ہیں…
بوڑھی عورت: تو ہم کسی سے کم ہیں کیا؟ ہم مقابلہ کریں گے… (گرجتے ہوئے )
جوان مرد: بستی کے بڑے بوڑھے آپس میں الجھے ہیں… روز خون بہتا ہے… روز عزتیں لٹتی ہیں… روز بھوک ناچتی ہے… ہمارے پاس مقابلے کی صرف باتیں ہیں… حوصلہ نہیں ہے… (درخواست کے انداز میں سمجھاتے ہوئے)
بوڑھا مرد: تم کیسے جوان ہو… بستی کی حفاظت تمھاری ذمے داری ہے… (ڈانتتے ہوئے)
جوان مرد: ہاں! میری ذمے داری ہے… بستی کی سرحدوں پر روز میرا خون بہتا ہے… لیکن بستی کے اندر کی آگ کو کون بجھائے … عمارت کا ڈھانچہ نا کارہ ہو جائے تو عمارت کے گرد لگی باڑیں اسے زمیں بوس ہونے سے نہیں بچا سکتیں…
بوڑھا مرد: بس بس! تم چپ ہی رہو… نا سمجھ…
جوان مرد: یہ باتیں میں نہیں سب کرتے ہیں…
بوڑھا مرد: تم ان باتوں پر کان مت دھرو… ہم بڑے بوڑھے ہیں ناں فیصلہ کرنے والے… (ڈانٹتے ہوئے )
جوان مرد: میں تو آپ کے ساتھ ہوں… (ادب سے سر جھکاتے ہوئے)
مولانا بابا جی: تم سب خاموش رہو… خاموش رہو تم… مایوسیوں کے سایے گہرے ہو چلے ہیں… مجھے پتا ہے… خبر ہے مجھے… ۔ہواؤں میں موت کی سرسراہٹ ہے … (گرجتے برستے ہوئے )
بوڑھا مرد: تو ہم کیا کریں؟ کیسے اس مایوسی کے گرداب سے نکلیں… کیسے سب ٹھیک ہو گا… (پریشانی اور ادب سے)
مولانا بابا جی: م سیحا… وہ مسیحا آئے گا… جو سب کچھ ٹھیک کر دے گا… کیا بھول گئے ہو تم… (گھورتے ہوئے)
جوان مرد: کب آئے گا مسیحا مولانا بابا جی! اور کیا وہ آتے ہی سب کچھ ٹھیک کر دے گا؟… (حیرانی سے)
مولانا بابا جی: ہاں! اس کے ایک اشارے پر بستی کی بنجر زمینیں سر سبزو شاداب وادیوں میں بدل جائیں گی…
مسیحا ہمارے دشمنوں کو تتر بتر کر دے گا… بھوک اور خوف کا نام و نشان مٹا دے گا…
ساری دنیا ہمارے قدموں تلے ہو گی۔۔۔
جانتے ہو؟ اُس کی طاقت کیسی ہو گی؟
ذروں سے پھوٹتی ہول ناک آگ کی مہیب چھتری جس نے ایک ساتھ کبھی دو شہروں کو پل بھر میں نگل لیا تھا۔ اُس بھیانک آگ کو وہ ایک پھونک مار کر بجھا دے گا۔ تم فکر نہ کر…
بوڑھا مرد: دیکھا! (جوان مرد کو مخاطب کرتے ہوئے)… ہمارے آباء و اجداد اور ہمارے اسلاف نے ہمیں مسیحا کی خبر دی ہے… وہ مسیحا ضرور آئے گا… ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی… ہ میں بس انتظار کرنا ہے۔
مولانا بابا جی: ہاں! انتظار! مسیحا کا انتظار… اور اس کے استقبال کی تیاری… شان دار استقبال کی تیاری…
جوان مرد: مولانا بابا جی! آپ تو آباء و اجداد کی روحوں کے بہت قریب ہیں… مسیحا کے جلدی آنے کی دعا کریں ناں آپ…
مولانا بابا جی: آؤ! ہم مل کر دعا کرتے ہیں…
(سب کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگتے ہیں)
سب مل کر: اے خدا!
مسیحا کو جلدی بھیج۔۔۔
مسیحا جلدی آئے ۔۔۔ہمیں بچائے ۔۔۔
ہمارے تمام مسائل حل کر دے ۔۔۔
اے خدا! حاملِ معجزات مسیحا کو بھیج۔ جو بس ایک اشارے سے سب ٹھیک کر دے ۔۔آمین!
مولانا بابا جی: آؤ اب انتظار کریں…
(سب مایوسی اور امید کے ملے جلے عالم میں بیٹھ جاتے ہیں اور مسیحا کا انتظار کر نے لگتے ہیں)
… اور پھر… ایک انسان نمودار ہوتا ہے… وہ بستی والوں کی جانب آتا ہے… اور انھیں پکارتا ہے…
انسان: اٹھو بستی والو! میں آ گیا… تمھارا مسیحا… (سب اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور خوشی سے دیوانے ہونے لگتے ہیں)
بوڑھا مرد: آ گیا ہمارا مسیحا… (خوشی سے نعرہ لگاتے ہوئے)
بوڑھی عورت: خدایا تیرا شکر ہے …
(مولانا بابا جی مسیحا کے پاس آ جاتے ہیں…)
مولانا بابا جی: خوش آمدید مسیحا! میں اس بستی کا دانش مند ہوں… مجھے ہی خبر پہنچی تھی تمھارے آنے کی…
انسان: میں نے بستی میں ویرانی دیکھی ہے… زمینوں کو بنجر اور ندیوں کو سوکھا پایا ہے … درختوں کے نیچے پرندوں کے پَر اور ہڈیاں پائی ہیں میں نے … نہ پھل… نہ پھول…
بوڑھا مرد: مسیحا! کوئی ایسی مصیبت نہیں جو ہم پر نہ ٹُوٹی ہو… کوئی طوفان ایسا نہیں جس کا ہم نے سامنا نہ کیا ہو…
مولانا بابا جی: بالکل! لیکن ہر حال میں تمھارا انتظار نہیں چھوڑا ہم نے… اب تم آ گئے ہو… سب ٹھیک کر دو…
بوڑھی عورت: بستی کے خراب حال تمھارے ایک اشارے کے منتظر ہیں…
جوان مرد: مسیحا! جلدی سے سب ٹھیک کر دو!
انسان: میرے ایک اشارے سے یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہو گا… تمھیں میرا ساتھ دینا ہوگا… ہم سب مل کر ہی یہ سب ٹھیک کر سکتے ہیں…
جوان مرد: کیا مطلب؟ ہمیں کیا کرنا ہو گا…؟
انسان: محنت… کوشش… زمینوں کا یہ بنجر پن تمہاری اپنی وجہ سے ہے… اس ساری ویرانی کے ذمے دار تم خود ہو…
مولانا بابا جی: مسیحا… تم یہ کیا کہہ رہے ہو… ؟
انسان: بستی کے دانش مند! (مولانا بابا جی کو مخاطب کر کے ) مجھے تم سے یہ توقع نہیں تھی کہ تم لوگوں کو ایسا غلط سبق پڑھاؤ گے …؟ مسیحا کے بارے میں ایسی غلط خبر دو گے …؟
مولانا بابا جی: لیکن میں نے وہی کچھ بتایا جس کی خبر مجھ تک متواتر پہنچی…
انسان: سنو بستی والو! زمینیں اس لیے بنجر ہیں کہ تم نے محنت سے ہاتھ کھینچ لیے ہیں… تم کم زور ہو چکے ہو… تفریق ہو چکے ہو… بستی والو! تم سے نعمتیں تمھاری اپنی وجہ سے چھِن گئی ہیں… اٹھو! اور سب کچھ ٹھیک کر دو…
جوان مرد: یہ کیا بات ہوئی… جب سب کچھ ہم نے ہی کرنا ہے… تو تم کس بات کے مسیحا ہو …؟ ہمیں تو کہا گیا تھا کہ تمھارا ایک اشارہ سب کچھ بدل کے رکھ دے گا… ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے… غیروں کی سازش اور جلن کا نتیجہ ہے۔
انسان: تمھیں غلط بتایا گیا تھا… مایوسی، ہٹ دھرمی اور جہالت کے گھور اندھیروں میں قومیں ایسے ہی تصورات میں پناہ لیتی ہیں… اور ہاتھ پاؤں توڑ کر مسیحا کے انتظار میں بیٹھ جاتی ہیں… ایسا پہلے بھی ہوتا آیا ہے… بستی والو! مسیحا وہ ہوتا ہے جوآئینہ دکھاتا ہے… مسیحا کوئی جادوگر، یا مافوق الفطرت چیز کا نام نہیں ہے…
بوڑھا مرد: مولانا بابا جی! آپ ہی کچھ کہو… یہ سب کیا ہے …؟
مولانا بابا جی: مجھے تو یہ مسیحا نہیں لگتا… یہ کوئی جھوٹا مدعی ہے… جو مسیحا کے نام پر ہمیں تباہ کرنے آیا ہے، دھوکا دینے آیا ہے…
بوڑھی عورت: یہ تو شکل سے ہی جھوٹا لگتا ہے… (چیختے ہوئے )
بوڑھا مرد: مولانا بابا جی! حکم دو کہ ہم اس بہروپیے کو بستی سے نکال دیں… (فرطِ جذبات سے چلّاتے ہوئے)
انسان: بستی والو! نا دان مت بنو… میں ہی تمہارا مسیحا ہوں… جس کا تمھیں انتظار تھا… آؤ مل کر کوشش کریں۔
جوان مرد: بس بہت ہو گیا… یہ مسیحا نہیں ہو سکتا… اس کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے… کوئی معجزہ نہیں ہے… یہ تو خود کم زور ہے … ہماری کیا مدد کرے گا۔
انسان: اے جوان! عقل سے، غور و فکر سے کام لو… آؤ میرا ساتھ دو۔ ہر جوان اپنی قوم کا مسیحا ہوتا ہے۔
بوڑھا مرد: مسیحا تم جیسے نہیں ہوتے۔ وہ سب کچھ خود کرتے ہیں۔ ایسے مسیحا کو ہم نہیں مانتے۔
انسان: بستی والو! تمھاری سوچ مریضانہ ہے۔ اے دانش مند! تم نے ان کو سچ کیوں نہ بتایا؟ یا پھر جان بوجھ کر سچ کو چھپاتے رہے؟
مولانا بابا جی: بس بہت ہو گیا۔ پکڑ لو اسے۔ یہ گستاخ ہے۔ ہمارے آباء و اجداد اور ہمارے اسلاف کو جھوٹا کہتا ہے۔ جانے نہ پائے یہ خبیث۔ (غصے اور جوش میں چنگھاڑتے اور بھڑکاتے ہوئے)
(بوڑھا مرد اور جوان مرد مسیحا کو پکڑ لیتے ہیں…)
انسان: بستی والو! نا دانی مت کرو… یہ موقع ہے… مت گنواؤ اسے!
مولانا بابا جی: چپ گستاخ! اس گستاخ کی سزا صرف موت ہے۔ (فیصلہ)
بوڑھا مرد: ہاں! صرف موت۔ (مہرِ تصدیق)
جوان مرد: موت! مار دو اسے۔ (تائید)
بوڑھی اور جوان عورت: قتل کر دو اسے (تائید اور مسیحا کو پتھر اٹھا کر مارتے ہوئے…)
(اور پھر سب مل کر مسیحا کو بہیمانہ تشدد کے بعد قتل کر دیتے ہیں۔ اُس کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں۔ پھر درندگی بھرے اِس نیک کام سے فارغ ہو کر ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں…)
مولانا بابا جی: ہم سب نے اس جھوٹے مسیحا کو ختم کر کے خود کو تباہی سے بچایا ہے۔ فکر نہ کرو۔ ہمارا مسیحا ضرور آئے گا۔
بوڑھا مرد: ہمیں آپ پر یقین ہے مولانا بابا جی! خدا نے ہمیں اس فریب سے بچا لیا۔ یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا۔
جوان مرد: ہمیں اب کیا کر نا چاہیے؟
مولانا بابا جی: انتظار… اور مسیحا کے استقبال کی تیاری… شان دار استقبال کی تیاری۔