ایک موت پر طویل خود کلامی
از، سعید احمد
داؤد رضوان !
یار پھر تم چلے ہی گئے۔۔۔! پچھلے کئی سالوں سے تم دوستوں سے دور رہ کر کسی کھوئے ہوئے اطمینان کی تلاش میں تھے کسی بے چینی کسی اضطراب کے گہرے ہوتے ہوئے زخم کو بھرنے کی آرزو میں تھے اور ہم یہ سوچ کر تم سے ایک فاصلہ رکھے ہوئے تھے کہ جس دن بھی تمہارے اندر کا خلا کچھ کم ہوا، تم ہماری طرف لوٹ آؤ گے اور ہماری زندگی کے خالی پن کو اپنی گفتگو کی روانی سے بھر دو گے، لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ تم اپنے ازلی اضطراب کو ابدی نیند کی خاموشی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر چکے ہو___!
دیکھو اس تاریکی میں کیسا جھلملاتا ہے وہ دن، کوئی پچیس برس ادھر وہ دن، جب تم ’’دشتِ سوس‘‘ لیے میرے پاس آئے اور کہنے لگے ’’یار ناول تو کمال ہے تم ضرور پڑھنا لیکن اس کے آغاز کا یہ جملہ تو سنو ’’وہ ایک شعلہ مستعجل تھا جو اپنی آگ میں آپ ہی جل بجھا‘‘___!‘‘ مجھے یاد ہے تم اس جملے کے سحر میں کتنی دیر اور کتنے دن رہے تھے۔ یہاں تک کہ آنے والے سالوں میں جب بھی اس ناول کا ذکر آیا تم نے یہ جملہ ضرور دہرایا۔ یوں لگتا ہے یہ جملہ آج کے دن کی پیش بنی بن کر تمہارے ذہن سے چپک گیا تھا۔ جس کا یقین مجھے آج آیا ہے اور اب میں ہر ایک سے کہتا پھرتا ہوں ’’وہ ایک شعلہ مستعجل تھا جو اپنی آگ میں آپ ہی جل بجھا۔‘‘
یہ غالباً 1986ء کے آغاز کی ایک سرد شام تھی جب حلقہ ارباب ذوق کے ایک اجلاس کے بعد تم اپنی نشست سے اٹھ کر میرے پاس آئے اور یوں گویا ہوئے ’’مجھے رضوان عدیل کہتے ہیں، میں حلقہ ارباب غالب کا جوائنٹ سیکرٹری ہوں۔‘‘ اور پھر حلقہ ارباب غالب کا فوٹو سیٹ کیا ہوا آئندہ ہفتے کا پروگرام میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’آپ وہاں بھی آیا کریں‘‘ ادبی دنیا میں کسی ہم عمر کے ساتھ یہ میری پہلی شناسائی تھی جسے ابدی دوستی میں بدل جانے کا اس وقت شائبہ تک نہ تھا ___ تو تم اس وقت رضوان عدیل تھے۔ میں سعید احمد سعید اور اختر عثمان، اختر محمود اختر___!
مجھے اور اختر کو تو اپنے ناموں میں کچھ نہ کچھ رد و بدل کرنا ہی تھا کہ یوں نام کی تکرار سے تخلص بنا لینے میں کہنگی جھلکتی تھی لیکن مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب تم اپنے اچھے بھلے شاعرانہ نام کے پیچھے پڑ گئے ___ تمہیں یہ احساس ہونے لگا تھا کہ داؤد رضوان اور رضوان عدیل دو نام رکھنے سے تمہاری شخصیت بٹ گئی ہے اور یہ دوئی تمھیں گوارا نہیں۔ ذات کی اکائی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جو نام بچپن سے چلا آ رہا ہے بس اسے ہی کافی سمجھا جائے۔ وغیرہ وغیرہ___ کسی بھی نئے، انہونے یا بلا ضرورت کام تک کے لیے فلسفیانہ جواز فراہم کر لینا تمہارے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اور میں تھا کہ ایسی توجیہات کا کوئی جواب نہ پا کر خاموش ہو جاتا۔
ادھر تم خود کو مکمل طور پر اپنی دسترس میں دیکھ کر خوش ہو جاتے اور میں ہی نہیں سب دوست تمہاری اس خوشی میں خوش ___! لیکن یارا ہمیں یہ خوشی بہت مہنگی پڑی ہے۔ اب سوچتا ہوں کاش ہم تمھیں تمہارے حوالے نہ کرتے۔ کاش ہم جبراً تمھیں اجنبی راستوں کی کشش سے باز رکھ سکتے، کاش ہم تمہاری فلسفیانہ دلیلوں کے سامنے بے بس نہ ہو جاتے تو شاید تم کچھ زیادہ وقت ہماری دنیا کو آباد رکھتے، شاید تمہارے اور موت کی وادی کے درمیان فاصلہ کچھ زیادہ ہو جاتا___! معلوم نہیں ایسا ہوتا یا نہ ہوتا لیکن اگر تم آج ہوتے تو اس سوال کا جواب بھی ضرور دیتے جس نے تمہارے جانے کے بعد مجھے گھیر رکھا ہے کہ ’’اتنے برسوں سے موت تمھیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی، یا تم خود موت کے راز کو پانے کی جستجو میں خود سے بے خبر اس کی طرف دوڑے جا رہے تھے؟‘‘ آخر تم نے خود اپنی ایک نظم ’’لا وقت ہونے کی خواہش‘‘ میں کوئی 15 برس پہلے کہہ جو دیا تھا۔
’’جاتی عمروں کے یہ پل ہیں
اور راتوں کے شکستہ پر اکٹھے کرتے کرتے
نیند وادی میں اتر جانے کی خواہش
روح کے اندر ہمکتی ہے مسلسل‘‘___!
لیکن ہم سمجھ نہیں پائے۔ اب تمہارے جانے کے بعد تمہاری نظموں کا ’’سناٹا بولتا ہے‘‘ حیران ہوں کہ یہ نظمیں کیا کیا کچھ کہہ رہی ہیں لیکن جب تم تھے تو ہم صرف اس بات پر دھیان دیتے تھے کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ ہوٹلوں کی میزوں پر ہونے والی گفتگوؤں میں، حلقے کی بحثوں میں دوستوں کی محفلوں میں تم سے زیادہ خوش گفتار اور نکتہ رس اور کون تھا جہاں تم ہوتے وہاں صرف تم ہوتے اور تمہاری گفتگو کا جادو ہر سننے والوں کو مسحور کر دیتا تمہارا اور صرف تمہارا نقطۂ نظر ماننے پر مجبور کر دیتا ___ کبھی کبھار تم بلاوجہ بھی کسی بات پر اڑ جاتے اور اپنے مخالف کو قائل کر کے چھوڑتے لیکن ان جڑواں شہروں کی گذشتہ پچیس برس کی محفلیں گواہ ہیں کہ فہم کی برق رفتاری میں کوئی تمہارا ثانی نہ تھا۔
حلقے میں جب بھی کوئی ادق پیچیدہ یا انتہائی مبہم تخلیق پیش کی جاتی تم فوراً اس کی تہ تک پہنچ کر اس پر گفتگو شروع کر دیتے۔ باقی دوست قدرے ناخیر سے اپنی آرا دیتے ا ور وہ آرا بھی عموماً تمہارے نقطۂ نظر ہی کی تائید ہوتی تھیں۔ تمہاری خوبصورت پر معنی اور پر مغز گفتگو نے تمہاری تخلیقات کو نمایاں ہونے سے روک رکھا تھا کیونکہ ابتدا ہی سے بطور نقاد اور دانش ور تمہارا تعارف مستحکم ہو چکا تھا۔
حالاں کہ اگر تمہاری تنقیدی گفتگو وں اور تجزیوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو تمہاری شخصیت اپنے ظاہر و باطن، عادات و اطوار اور میل جول میں شاعرانہ اوصاف سے بھری ہوئی تھی ___ ایک دھان پان سا نوجوان جس کی بڑی بڑی روشن آنکھوں میں ذکاوت و ذہانت ہی نہیں اداسیوں کے سائے بھی بہت گہرے تھے، پتلی پتلی انگلیوں میں ہر وقت سلگتا سگرٹ، بے پروائی، بے نیازی اور دیوانگی سب کچھ ہی تو تمہارے شاعر ہونے کی گواہی دیتا تھا ___ مگر تم اپنی نظمیں بہت کم سناتے ___ دوستوں کی نظمیں سننا اور کڑی سے کڑی تنقید کے ذریعے ان کی اصلاح کرنا تمھیں زیادہ پسند تھا اور مجھ سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ تم دوسروں کی اچھی تخلیقات پڑھ کر یا سن کر کس قدر خوش ہوتے تھے۔ یہی نہیں دوسروں کے چھپے ہوئے جوہر تم پر وقت سے پہلے آشکار ہو جاتے تھے ___ اور میں حیران ہوتا تھا کہ آخر تمھیں کسی کی تخلیقات کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے کیسے پتا چل جاتا ہے کہ مذکورہ شخص میں لکھنے کا جوہر کتنا ہے ___
ایسی ہی ایک رائے تم نے تابش کمال کے بارے میں دی تھی جس سے تم مل چکے تھے اور جس کے بارے میں تم نے مجھے بتایا تھا کہ یار اس نے ابھی ایک ہی غزل اور شاید ایک نعت لکھی ہے لیکن وہ شاعر ہے۔ دیکھنا وہ لکھے گا ، اور بہت لکھے گا ___ اس جملے پہ مجھے حیران ہوتے ہوئے دیکھ کر تم نے کہا تھا کہ تم اس سے مل لو پھر بات کریں گے ___ اور پھر جب جلد ہی ہم تینوں کی ملاقات ہوئی تو مجھے تمہاری رائے پر یقین کرنے میں تو ذرا دیر نہیں لگی لیکن یہ جان کر اور بھی خوش ہوا کہ پہلی ہی ملاقات میں ہم ایسے گھلے ملے بیٹھے تھے جیسے برسوں کی آشنائی ہو۔ یوں لگا جیسے دوستی کی اس مثلث قدیم کی تکمیل تمہاری دور رس نظر سے دفعتہ ممکن ہو گئی تھی ___ اور کچھ ہی دنوں میں جب تابش کمال پر غزلوں کی برسات ہونے لگی تو شہر بھر میں ہماری دوستی کی خوشبو نے ہر ایک کو متوجہ کر لیا ___ میں اور تابش کمال بہت کم گو تھے۔ ویسے بھی ہمیں بولنے کی کیا ضرورت تھی یہ کام تم سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا تھا ___ لیکن آفرین ہے تم پر کہ تم نے اپنی گفتگو سے کبھی خود کو شاعر یا نقاد منوانے کی فکر نہیں کی۔تمہارا لحن
داؤدی سنگ و آہن کو ہم دونوں یا اپنی نسل کے نوجوانوں کے حق میں موم بنانے پر صرف ہوتا رہا۔
تم بولتے رہے، ذیشان کیفے کی طویل نشستوں میں جہاں میری اور تابش کی خاموشی میں انوار فطرت اور فاروق عادل کی خاموشی بھی شامل ہو گئی تھی۔ تمہاری آواز ہماری سماعتوں سے ہو کر ہمیں زندہ ہونے کا پتا دیتی رہی۔ ہم ادب، آرٹ، موسیقی، سیاست، معیشت، تاریخ اور فلسفے کے موضوعات پر تمہاری بے تکان گفتگو سنتے رہے یہاں تک کہ ہم بہت اچھے سامع بن گئے۔ ہمیں جو تھوڑا بہت بولنا آتا تھا ہم وہ بھی بھول گئے۔ لیکن یار یہ تم نے کیا کیا تم خاموش ہو گئے۔ تم نے گفتگو ترک کر دی تم نے اپنے تجزیوں اور تجربوں کو ہم سے share کرنا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا ہے! اور اب ہمیں مجبور کرتے ہو کہ ہم کچھ کہیں، ہم کچھ بولیں، ہم کچھ لکھیں لیکن تم ہی بتاؤ یہ کیسے ممکن ہے۔ تمہاری خاموشی کے ساتھ ہی ہماری زبانیں گنگ ہیں اور ہمارے آنسو بولنے لگے ہیں۔ ہمارے دلوں میں مچلتے دکھ کے بندھن کھولنے لگے ہیں۔ تمہیں یہ گفتگو شاید پسند نہ آئے کہ تم ہمیں ہمیشہ ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتے تھے۔ سو ہم لوٹتے ہیں تمہاری نظموں کی طرف ان نظموں کے عنوانات ہی سے ان کی فکری گہرائی اور اسلوب کی انفرادیت جھلکتی ہے۔
’’آنکھیں صحرا ہوئیں‘‘، ’’نا ممکن کا ممکن‘‘، ’’مشترکہ خواب کی قبر پر‘‘، ’’ذات کا شمشان گھاٹ‘‘، ’’کائی زدہ پانیوں میں عکس دیکھنے کی خواہش‘‘، ’’لاوقت ہونے کی خواہش‘‘ اور ’’آگہی کے ساحل پر‘‘ زوال پذیر سماجی ماحول میں فرد کے داخلی کرب، ذات، ذات آشوب، وقت کی گزران کا دکھ اور سب سے بڑھ کر خواہش مرگ کا المیہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں____
’’سناٹا بولتا ہے‘‘ اس مجموعے میں شامل نظموں کی اکثریت 90ء کی دہائی میں تخلیق ہوئی۔ 90 کی دہائی جس کی پہچان ہماری نسل کے لکھنے والوں سے قائم ہوئی ____ یہ وہ وقت تھا جب زندگی کے نئے سے نئے تجربے کرنے کے شوق میں تم نے گھر سے دور اکیلے رہنے کا فیصلہ کیا ____ پہلے پیر ودھائی، پھر چمن زار، پھر I-8 جہاں تم ارشد معراج، روش ندیم، صلاح الدین درویش اور ہمارے بہت پیارے سلیم احمد ہاشمی کے ساتھ مل کر رہتے رہے۔
بعد ازاں تم، سلیم احمد ہاشمی اور تابش کمال میری گلی میں میرے مکان سے دو مکان کے فاصلے پر رہنے لگے۔ دن بھر تو ہم اپنی نوکریوں پر ہوتے لیکن شام ہوتے ہی شمع ریسٹورنٹ اور ذیشان کیفے کی نشستوں میں شریک ہونے کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور رات دیر تک ڈاکٹر رشید امجد، جلیل عالی، یوسف حسن، جاوید احمد، اختر عثمان، امجد طفیل، کامران کاظمی، عابد سیال کے ساتھ کبھی سیاسی، کبھی نجی اور کبھی ادبی نشستوں میں شریک رہتے ____ اگر ادب کو زندہ رکھنے میں ادبی محفلوں اور ادبی گفتگوؤں کا کردار تسلیم کر لیا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ گذشتہ پچیس برسوں میں ادب کو پروان چڑھانے اور اس کی آبیاری کرنے میں جن دوستوں نے بھرپور حصہ لیا ان میں داؤد رضوان تمہارا نام سرِفہرست ہے۔
خیر تو میں کہہ رہا تھا کہ تم میری گلی میں آ کر رہنے لگے تھے ان دنوں کی یادگار وہ نشستیں ہیں جو میرے گھر پر ہر جمعے کو منعقد ہوتیں۔ تم، تابش کمال، سلیم احمد ہاشمی اور کبھی کبھار فاروق عادل بھی آ جایا کرتے____ موسیقی سے تمھیں بے حد لگاؤ تھا تم ڈرائنگ میں داخل ہوتے ہی ایک کونے میں پڑے ہوئے ڈیک کی طرف بڑھتے اور ہمیشہ ایک ہی کیسٹ لگاتے۔ R.D Burman کی موسیقی، گلزار کے بول اور کشور اور لتا کی مدھر آوازیں سارے میں گونجنے لگتی۔
تم آ گئے ہو نور آ گیا ہے / نہیں تو چراغوں سے لو جا رہی تھی۔
جینے کی تم سے وجہ مل گئی ہے / بڑی بے وجہ زندگی جار ہی تھی
اور اس کیسٹ کا آخری گیت انھی فنکاروں کا ترتیب دیا ہوا تھا۔
تیرے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں / تیرے بنا زندگی بھی لیکن زندگی تو نہیں
وقت حالات اور تناظر بدلنے کے ساتھ ہمارے معمول کے بے معنی کام بھی کیسے بامعنی ہو جاتے ہیں۔ اب لگتا ہے تم کسی لاشعوری تحریک کی بنا پر اس کیسٹ کا کس قدر درست انتخاب کرتے تھے۔ بالکل اس کیسٹ کے پہلے گیت کی طرح تم نور لے کر ہماری زندگیوں میں آ گئے تھے اور اچانک ہمیں تاریکیوں میں چھوڑ کر ایک ایسی زندگی کے حوالے کر کے چل دیے ہو جس سے تمہارے بنا کوئی شکوہ تو نہیں لیکن آخر تمہارے بنا یہ زندگی بھی تو زندگی نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے تم ہمیشہ اپنے ہی راستوں کے مسافر رہے۔
ہم تمھیں روکتے رہے اور تم آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ہم روکتے ہی رہ گئے اور تم بہت دور چلے گئے____ ہم ہمیشہ تمھیں شاعری چھوڑ کر تنقید لکھنے کا مشورہ دیتے رہے لیکن تم نہ مانے اور آخر 2004ء میں نظموں کا مجموعہ چھپوا کر ہی دم لیا۔ لیکن جیسے ہی تمہارے فن کی قدر کا آغاز ہوا تم نے اچانک راستہ بدلا اور جستجو کا نیا میدان میڈیا کی صورت میں منتخب کر لیا ____ پہلے اخبار، پھر ریڈیو پھر ٹی وی تک جا پہنچے۔ ہم روکتے رہے کہتے رہے کہ یہ تمہاری ادبی و تخلیقی صلاحیتوں کے مقام متعین ہونے کا زمانہ ہے مگر تم نہ مانے ____ لیکن جیسے ہی میڈیا میں کامیابی کے دروازے کھلنے کا وقت آیا تم چپکے سے وہاں سے بھی کھسک آئے اور زندگی کا سب سے بڑا راز پانے کے لیے خود کو وقف کر دیا____ تمہاری انھی عادتوں اور اس سے پہلے بھی کئی بار موت کو شکست دے کر بچ نکلنے کے سبب کسی کو یقین نہ تھا کہ تم یوں چلے جاؤ گے۔
ڈاکٹرز نے جب تمہاری سانسوں کو وینٹی لیٹر کا مرہون منت بتایا ہم تب بھی سوچ رہے تھے کہ تم یہ تجربہ کر کے کچھ دن بعد ہنستے مسکراتے ہمارے درمیان لوٹ آؤ گے____ لیکن اس دکھ کا مداوا کیا ہو کہ اس بار تم نے ہوا کی قید سے رہا ہو کر مٹی کی آغوش میں پناہ لینے کو ترجیح دی۔ تمھیں سپرد خاک کرنے کے بعد جب قاری عتیق الرحمن دعا مانگ رہے تھے کہ ’’یا خدا انھیں منکر نکیر کے سوالوں کا جواب دینے کی توفیق عطا فرما____ تو میں سوچ رہا تھا کون سا ایسا سوال ہے جس کا جواب داؤد رضوان نہیں دے سکتا اور پھر منکر نکیر نے جو سوال پوچھنے ہیں ان کے جواب تو اس کے دل پر کندہ ہیں روح میں گھلے ہوئے ہیں۔
کیا ہی خوبصورت اور محبت والی شخصیت
داؤد رضوان