ایک نوٹ کا سفر
از، شیراز بشارت خان
مزدور انگڑائی لیتے ہوئے چارپائی سے اٹھا تو کانوں میں فجر کی اذان گونج رہی تھی۔ شہر کے زردار سو رہے تھے اور یہ نادار اب سڑک کے بیچ کھڑا ارد گرد کے اونچے مکانوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ ایسے میں ہوا سے اڑتا ایک ہزار روپے کا نوٹ اس کے چرنوں میں آگرا۔ اس نے فٹا فٹ نیچے جھک کر نوٹ اٹھایا، پھر آسمان کی جانب دیکھ کر خدا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا “لگدا اے قیامت قریب اے۔” اتنے میں اذان ختم ہوئی، اس نے وضو کیا اور ورزش کرنے وہ جائے نماز پر کھڑا ہو گیا۔
پھر غریبِ شہر دوپہر کے کھانے کا بندوبست کرنے سبزی والے کے پاس پہنچ گیا۔ تین ٹماٹر، دو پیاز، ایک ادرک کی ڈلی، تھوڑی سی بھنڈی اور دھنیا خریدا۔ سبزی والے نے کہا تیرے دو سو بیس روپے بن گئے ہیں، مزدور نے جب حساب مانگا توجھٹ سے سبزی والے نے حساب دیتے ہوئے معذرت سے کہا دو سو بیس نہیں، دو سوروپے بنے ہیں۔ “میاں ہم نے بھی کچی گولیں نہیں کھیلیں، آخر حلال کی کمائی ہے” یہ کہتے ہوئے مزدور نے وہ ہزار کا نوٹ نکال کر سبزی والے کو دےدیا۔
سبزی والے کا بیٹا موٹر سائیکل پر ویلی مارتے اور اوٹ پٹانگ کرتب کرتے دکان کے باہر پہنچا۔ اندر آتے ہی اس نے ابے کو اپنے خرچوں کی اک جھوٹی فہرست سنائی اور ہزار روپے کا تقاضا کیا۔ سبزی والے نے وہی ہزار کا نوٹ نکال کر بیٹے کو دے دیا۔ بیٹا موٹر سائیکل پر دھوم مچاتے یونیورسٹی پہنچ گیا۔ اپنے دوستوں کو لے کر وہ کینٹین چلا گیا اور سب کو بہترین کھانا کھلایا۔
کینٹین کے مالک راجو نے حساب میں ایک فالتو رائیتہ اور بوتل کے پیسے بھی ڈال دیے۔ بیٹے کو کیا فکر تھی حساب کی، اس نے وہی ہزار کا نوٹ راجو کو پکڑایا اور راجو نے شكر الحمد لله کا نعرہ لگا کر قبول کیا۔ راجو کی پتلون کی بائیں جیب پھٹی ہوئی تھی اور اس نوٹ کی اگلی منزل کا رستہ اسی جیب سے تھا۔ وہ ابھی دو گام چلا ہی تھا کہ ہزار کا نوٹ جیب کے بیچ میں سے کھسک کر زمین پر جا گرا اور راجو بے خبری میں آگے نکل گیا۔
پیچھے سے ایک پروفیسر صاحب چلتے آرہے تھے۔ کام چور تو وہ تھے ہی، جب زمیں پہ نظر پڑی تو نوٹ چور بھی بن گئے۔ پروفیسر صاحب دوپہر چھٹی کے بعد گھر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیگم صاحبہ وہی ڈرامہ دوبارہ دیکھ رہی ہیں جو پچھلی رات دیکھ کر سوئی تھیں۔ بیگم نے حاکمانہ لہجے میں کہا ہزار روپے دو آئس کریم کھانی ہے۔ پروفیسر صاحب نے وہی ہزار کا نوٹ نکال کر دے دیا اور ساتھ ہی طنزیہ لہجے میں بولے ” ہم دن رات ایک کر کے حلال روزی کمائیں اور تم دن رات آئس کریم کھاو یہ کہاں کا انصاف ہے”۔ پر بیگم کی آئس کریم بند کرنا جوئے شِیر لانے سے کم مشکل نہ تھا۔
پروفیسر صاحب سو گئے تو بیگم کو درزی کی خبر لینے کا خیال آیا۔ سو اس نے کریم کی گاڑی منگوائی اور بازار کی جانب روانہ ہوگئی۔ منزل پر پہنچ کر جب حساب ہوا تو کریم والے نے تین سو روپے بتلائے۔ بیگم نے مہیب ترین لہجے میں تین گالیاں بکیں اور پوچھا کہ صرف تین کلو میٹر کے اتنے زیادہ پیسے کیسے بن گئے۔ ڈرایور نے جواب دیا بی بی تین کا پیک فیکٹر لگا ہوا تھا۔ بیگم نے ہزار کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا یہ سراسر دھوکا ہے، تم لوگوں کی میں پیک نکالتی ہوں۔ کریم والے نے گھبرا کر بقایا پھینکا اور وہاں سے
گاڑی بھگا دی۔ گھبراہٹ کا یہ عالم تھا کہ تیزی میں جاتے ہوئے کریم والے نے پولیس کی عارضی چوکی میں گاڑی دے ماری۔ کیا خوب قسمت تھی، بٹیرا خود آکر جال میں پھنس گیا۔ پولیس والے نے کہا کہ بھائی تم پر دہشت گردی کا پرچہ کٹے گا۔ اب کریم والا بے چارا اسے کیا بتاتا کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار تھا۔ خیر بات تین سے شروع ہوئی اور ایک پر آکر ختم ہو گئی۔ پولیس والے نے وہ ایک ہزار کا نوٹ جیب میں ڈالا اور اسے چھوڑ دیا۔
ڈیوٹی ختم ہوئی تو پولیس والا اپنے ویسپے پر گھر کی جانب روانہ ہوا۔ رستے میں اس کا دھیان کھو گیا اور اس نے پیچھے سے ایک وکیل کی گاڑی میں اپنا ویسپا دے مارا۔ گاڑی کے بمپر میں ایک بہت ہی چھوٹی سی دراڑ پڑ گئی، وکیل نے جب باہر نکل کر دیکھا تو دھمکی لگائی “ساری عمر کورٹ کے پھیرے لگواوں گا تجھے”۔ پولیس والے نے معذرت سے پوچھا میاں کتنا خرچہ ہے تو وکیل نے جواب میں خوب نوٹنکی کھیلی اور سڑک پر ہی کچہری لگا دی۔ خیر بات تین سے شروع ہوئی اور ایک پر آکر ختم ہو گئی۔
وکیل نے نوٹ اپنی جیب میں ڈالا اور واپس گاڑی میں بیٹھ گیا۔ بیٹھتے ساتھ ہی اس کی چھاتی میں درد شروع ہو گیا، اس خدشے سے کہ کہیں دل کا دورہ نہ ہو وہ بلا توقف ڈاکٹر کے پاس پہنچ گیا۔ ڈاکٹر نے اوپر اوپر سے معائنہ کیا اور تسلی دی کہ صرف وہم ہے اور کچھ نہیں۔ لیکن احتیاطاً ڈھیر سارے ٹیسٹ اور دوائیاں لکھ دیں۔ ساتھ ہی تین ہزار روپے کا جرمانہ پیش کر دیا۔ ایک کی نوٹنکی ختم ہوئی تو دوسرے کی باری آگئی۔ وکیل نے اپنا تفصیلی تعارف کرایا اور کچہری کی خوفناک صورت ِحال بیان کرنی شروع کردی۔ وہ ایک خوفناک پہلو بیان کرتا اور ساتھ ہی کہتا کہ آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، میں ہوں نا۔
گفتگو کے آخری مرحلے میں اس نے ڈاکٹر کو یقیں دلا دیا کہ کچہری ایک بہت خوفناک جگہ ہے اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ ڈاکٹر کو بھی ایک دن وہاں جانا پڑ سکتا ہے لہٰذا وہاں اس کا اپنا ایک مددگار ہونا لازم ہے۔ نتیجہ یہ نکلا صاحب کے جرمانہ تین سے ایک پر آگیا اور وہ ایک ہزار کا نوٹ اب ڈاکٹر صاحب کی جیب میں چلا گیا۔
ڈاکٹر بہت خوش لباس تھا اور جمعے کے دن بہت اہتمام سے شیروانی پہنتا تھا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ملک کا وزیراعظم اس کا بچپن کا لنگوٹیا یار تھا۔ رات میں ہسپتال سے چھٹی کرنے کے بعد ڈاکٹر کو اس کے لنگوٹیے یار نے فون کیا اور بیماری کی شکایت کی۔ سو ڈاکٹر پرائم منسٹر ہاوس پہنچ گیا ، اندر کمرے میں جا کر شیروانی اتاری اور ہینگر پر لٹکا دی۔ اس ہینگر پر ساتھ ہی وزیراعظم کی شیروانی بھی لٹکی ہوئی تھی جس میں ہزار کے تین نوٹ پڑے ہوئے تھے۔
خیر ڈاکٹر نے اوپر اوپر سے معائنہ کیا اور تسلی دی کہ صرف وہم ہے اور کچھ نہیں۔ تسلی کے بعد پھر یار نے بتلایا کہ کل 25 دسمبر ہے اور قائد ِ اعظم کے مزار پر بہت شاندار تقریب ہونی ہے۔ میرے پیر صاحب نے مجھے خاص حکم دیا ہے کہ قائد کی لحد پر ہزار کے تین نوٹ رکھ کر آنا تو تمام مشکلات حل ہو جائیں گی۔ ڈاکٹر نے پوچھا صرف تین نوٹ ہی کیوں؟
یار نے جواب دیا کہ میرے پیر صاحب کہتے ہیں قائد کے لیے تین چیزیں بہت اہم تھیں اور وہ سب جانتے ہیں۔ ڈاکٹر نے فٹ سے جواب دیا ایمان، اتحاد اور تنظیم۔ یار نے کہا بالکل صحیح ، بس اسی نسبت سے تین نوٹ رکھنے ہیں۔ خیر گفتگو ختم ہوئی اور واپسی پر ڈاکٹر غلطی سے وزیرِ اعظم صاحب کی شیروانی پہن کر چلا گیا۔
اگلے دن، 25 دسمبر 2030، کو وزیرِاعظم قائد کی لحد کے سامنے کھڑے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو صرف وہ ایک ہزار کا نوٹ پکڑائی دیتا ہے۔ شیروانی تبدیل ہو چکی تھی ، اور ساتھ ہی وہ تین نوٹوں والا ایجنڈا، کرپشن کے اس ایک نوٹ کے ساتھ تبدیل ہو چکا تھا۔ وزیرِاعظم نے گھبراہٹ میں ہی وہ ایک ہزار کا نوٹ لحد پر رکھا اور پھر پریشانی میں اپنا سر نہ اٹھا سکے۔
زمین پر عجب تماشا چل رہا تھا، پر صاحب آسمان پر کون سا کم تھا۔ اوپر آسمان پر قائد اور اقبال پریشان حال بیٹھے تھے۔ قائد نے اقبال سے کہا کہ اس سے بڑھ کر کیا بے حرمتی ہو کہ میری تصویر صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے کی پہچان بن کر رہ گئی ہے، اقبال کچھ کرو کہ اب میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اقبال نے کہا اے قائد خبر کچھ یوں ہے کہ ایک فرشتہ آیا تھا آج، اس نے اطلاع دی کہ نوٹ کے اوپر سے آپ کی تصویر ہٹانے کا حکم ہوا ہے۔ قائد نے تذبذب میں پوچھا پھر نئی تصویر کس کی لگائی جائے گی، اقبال نے کچھ دیر خاموش رہ کر جواب دیا “ماؤزے تنگ کی”