ایک پہیلی سلجھی ہوئی
از، سرفراز سخی
خیال
ستارے بھڑکتی ہوئی ہائیڈروجن (hydrogen) اور ہیلئم (helium) کے گولے، جو کے درمیان لاکھوں کلو میٹر کا فاصلہ چھوڑے پوری کائنات میں ہر سمت چھترائے ہوئے ہیں، کسی آشفتہ سر کی طرح اپنی ہی ہجر کی آگ (گیسوں) میں جلنے کی بدولت یہ بے چارے روشن نظر آتے ہیں، یہ گیسوں والے ستارے رات کو ہی نظر آتے ہیں لیکن کچھ ستارے ایسے بھی ہیں جو چند خوش نصیب لوگوں کو ان کے کرتوتوں کے باعث دن میں نظر آ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری “اسلام اور جدید سائنس” نامی تصنیف میں اسلام اور سائنس کا تقابلی مطالعہ پیش کرتے خامہ فرسا ہوتے ہیں کہ:
اِرشادِ ربانی ہے،
فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْO
(المرسلت، 77 : 8)
اور جب ستارے بے نور کر دیے جائیں گے۔
ستاروں کا بے نور ہونا در اصل اُن کی زِندگی کا آخری مرحلہ ہے۔ یہاں ہمیں ایک ستارے کی شروع سے لے کر آخر تک مکمل زِندگی کا سمجھنا ضروری ہے۔ ستارے گیسوں سے مرکب ایسے گولے ہیں جو نیوکلیئر فیوژن سے پیدا شدہ توانائی کا اخراج کرتے ہیں۔ اُن کی پیدائش گرد اور گیس کے اُن بادلوں میں ہوتی ہے جنہیں نیبیولا (nebula) کہا جاتا ہے۔ نیبیولا یعنی سحابیہ در اصل کسی ستارے کی وہ اِبتدائی دُخانی حالت (gaseous stage) ہوتی ہے جس سے وہ تشکیل پاتا ہے۔
سحابیے میں موجود گیس اور گرد و غبار کششِ باہمی کی وجہ سے آپس میں ٹکرا کر سکڑتے ہوئے پروٹو سٹار کو جنم دیتے ہیں۔ پروٹو سٹار کو ہم نیم ستارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی پروٹو سٹار اندرونی دباؤ کے تحت کثیف اور شدید گرم ہوتے چلے جاتے ہیں، با لآخر وہ اِتنے شدید گرم ہو جاتے ہیں کہ اُن کے اندر خود کار ایٹمی دھماکوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اَب ہم اُنہیں مکمل ستارہ کہہ سکتے ہیں۔
حقیقت
گیس کسی محبوب کی طرح خواہ مخواہ روٹھ کر جانے والی ہے۔
خیال
اک معصوم سے درمیانے درجے کے ستارے کی عمر بس یہ ہی کوئی چند ارب سال ہی ہوتی ہے، یہ بات میں نہیں
قومی ہوا پیمائی اور خلائی انتظامیہ یعنی NASA والے کہتے ہیں۔
اتنی کم عمر کو دیکھتے ہوئے سیماب اکبر آبادی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو کہ اکثر بہادر شاہ ظفر سے منسوب کیا جاتا ہے۔ کالم نگار محمد آصف بھلی 02 مارچ 2010 نوائے وقت میں شایع ہونے والے اپنے اک آرٹیکل بہ عنوان مجھے تاریخ دہراتی رہے گی ہر زمانے میں میں لکھتے ہیں کہ:
(07 فروری کے نوائے وقت میں دو گز زمین کے عنوان سے برادرم فضل حسین اعوان کا ایک کالم شائع ہوا ہے۔ جس میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی ایک مشہور غزل بھی شایع کی ہے۔ اس غزل میں انہوں نے درج ذیل شعر بھی شامل کر دیا ہے، عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن؛ دو آرزو زو میں کٹ گئے دو انتظار میں۔ یہ شعر ہماری نصابی کتابوں میں غلطی سے بہادر شاہ ظفر سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ خود میں بھی اس غلطی کا مرتکب ہو چکا ہوں۔ میری ایک تالیف ”جب میرا انتخاب نکلے گا“ کے نام سے 1995ء میں شایع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں تین سو سالوں کی منتخب اور مشہور غزلیں شایع کی گئی تھیں، ظاہر ہے اس میں بہادر شاہ ظفر کا کلام بھی شامل تھا اور کچھ نصابی کتب پر انحصار کرتے ہوئے میں نے بھی متذکرہ بالا شعر بہادر شاہ ظفر ہی کا سمجھتے ہوئے اپنے انتخاب میں شایع کر دیا لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ یہ شعر سیماب اکبر آبادی کا ہے اور ان کے شعری مجموعہ کلیم عجم میں وہ پوری غزل شامل ہے جس کا یہ ایک بہت ہی مشہور شعر ہے۔
مزید دیکھیے: اخلاقیات کی قبر پر تبدیلی کا کتبہ
سیماب اکبر آبادی کی کتاب کلیم عجم پہلی دفعہ 1936ء میں شایع ہوئی تھی اور اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن 1985ء میں ان کے بیٹے مظہر صدیقی نے شایع کیا تھا جو اب میری ذاتی لائبریری میں بھی موجود ہے۔ سیماب اکبر آبادی کے دیوان ”کلیم عجم“ میں 1898ء سے 1908ء تک کی جو غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ انہی میں سے ایک غزل کا وہ زبان زدِ عام شعر ہے جو سہواً ہم لوگ بہادر شاہ ظفر کا سمجھتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ وضاحت یہاں ضروری ہے کہ سیماب اکبر آبادی نے اپنے شعر میں ”لائے تھے“ نہیں بل کہ ”لائی تھی“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔)
تو اک معصوم سے درمیانے درجے کے ستارے کی اتنی کم عمر کو دیکھتے ہوئے سیماب اکبر آبادی کا جو شعر یاد آیا وہ یہ ہے کہ:
عمرِ دراز مانگ کر لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
حقیقت
ہم بجلی کے مشتاق بنے اس کی راہ کسی عاشقِ نا کام کی صورت پہروں تکتے رہے، اور یہ کم بخت سارے دن کی گئی، گھوم گھام کر ابھی آئی۔
خیال
ہائیڈروجن جل جل کر بغیر کسی رقیب کے ہیلئم بنتی رہتی ہے۔ اور ہائیڈروجن کے جلنے کے باعث کھلکھلاتے ہوئے پیدا ہونے والے درجہ حرارت کو جوان ہوتا دیکھ۔ اس سے مرعوب یا متاثر ہو کر ہیلئم بھی جلنا سیکھ لیتی ہے۔ یہ اس کی مجبوری کہہ لیں یا محبت بہ ہر حال دونوں صورتوں میں جلنا یقینی ہوتا ہے۔ اور ان دونوں کا کُڑھنا گویا ستارے کی شامت آنا۔
اس کڑھتے رہنے کے عمل کی دوران ہیلئم کی راکھ یعنی کاربن ستارے کے مرکز میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے۔ جس کے حساب کتاب کا کوئی اندازہ نہی۔ البتہ جب ہیلئم بڑی مقدار میں کاربن کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ تو ان کی آپس میں بنی بگڑ جاتی ہے۔ اور ایک دھماکہ ہوتا ہے۔ جس کے کارن ستارہ غصے سے پھول جاتا ہے۔ اتنا پھولتا ہے کہ وہ اپنی اصل ڈیل ڈول سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اور مارے سخت برہمی اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے۔ جسے اصطلاح فلک شناسی میں “سرخ ضخام” (Red Giant) کہتے ہیں۔
اس کےبعد وہ ٹھنڈا ہو کر سکڑنے لگتا ہے۔ اگر یہ ننھا سا معصوم سا چھوٹی سی عمر والا ستارہ ہمارے سورج ماموں سے دس گنا بڑا ہو تو وہ مرنے سے قبل ایک بار پھر سپر نووا کے دھماکے سے پھٹتا ہے۔ اور اس دھماکے کی آواز آسمان کی وسعتوں میں اپنی دھاک جمانے کے غرض سے نکلتی ہے۔ اور کھو کر رہ جاتی ہے۔ NASA والوں کے مطابق یہ ستارہ جلد ہی سیاہ شگاف یعنی بلیک ہول میں تبدیل ہوجاتا ہے.
حقیقت
پانی کی ٹنکی کسی مفلس کی جیب کی طرح سارا دن خالی رہی۔
یہ خیال اور حقیقت مختصر مگر وسیع، پییچدہ مگر خوب صورت سی پہیلی کی مانند ہیں۔ اور پہیلی بھی ایسی جو سلجھی ہوئی ہونے کے با وجود بھی ہمیں الجھی ہوئی نظر آتی ہے۔ اور اسی سلجھی ہوئی پہیلی کے لیے، علامہ اقبال کی نظم حقیقت حسن کے یہ چند اشعار بطورِ کلید حاضر ہیں۔
خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تونے لا زوال کیا
ملا جواب، کہ تصویر خانہ ہے دنیا
شبِ دراز عدم کا فسانہ ہے دنیا
ہوئی ہے رنگِ تغیر سے جب نمود اس کی
وہی حسیں ہے، حقیقت زوال ہے جس کی۔