ایک روزن ، فکر نو کا روشن چراغ
(ملک تنویر احمد)
جب معاشرے پر روایت پرستی، قدامت پسندی، رجعت پسندی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کا راج ہو۔ جہاں دلیل کی بجائے دشنام کی تاریکی نے شب خون مار رکھا ہو؛ جہاں مکالمے کی بجائے بندوق کی نالی سے نکلنے والی گولی کے کثیف دھویں نے معاشرے پر چادر تنی ہو؛ جہاں سیاہی کی قوتوں نے ہر حزب اختلاف کی آواز کو زد پر رکھ کر اپنے پروں کے اندر معاشرے کو زندہ رہنے کے لئے مجبور کر رکھا ہو تو وہاں جدت کی بجائے شدت، معقولات کی بجائے منقولات، تخلیق کی بجائے تخریب، اختراع کی بجائے روایت، جدیدیت کی بجائے کٹھ ملائیت اور افکار نو کے اجالوں کی بجائے تنگ نظر سوچ و فکر کا راج ہوا کرتا ہے۔
لیکن یہ تاریکی اور سیاہی صدا معاشروں کا مقدر نہیں ہوا کرتے۔ جب تنگ نظری کی کثافت سے ذہن بوجھل ہونے لگیں تو وسعت نظری کی ایک ہلکی سی کرن کسی روزن کے ذریعے ان تاریکیوں کو شکست دینے میں کامیاب ٹھہرتی ہے جنہوں نے ذہن کو اپنے نرغے میں لیا ہوتا ہے۔ ایک روزن اس معاشرے میں پھیلی ہوئی اس تاریکی کے خلاف ایک کاوش کا نام ہے جس کا عزم مکالمے کو فروغ اور روشن خیال کو رواج دینا ہے۔
ایک روزن کسی غیر ملکی فکر سے متاثر ہو کر رواداری، تحمل اور برداشت کے اوصاف سے مزین معاشرے کے قیام کے لئے کوشاں نہیں ہے، بلکہ اس کی جڑیں اسی دھرتی میں گڑی ہو ئی ہیں جہاں تحمل، برداشت اور رواداری کی اعلٰی انسانی اقدار اس کے غازہ و رخسار کو سنوارا کرتی تھیں۔ یہ ارفع اقدار و روایات بلھے شاہ، وارث شاہ، سلطان باہو، سچل سرمست، شاہ لطیف بھٹائی، خواجہ غلام فرید اور خوشحال خان خٹک کی ان عظیم تعلیمات میں پنہاں ہیں جنہوں نے مذہب و مسلک اور رنگ و نسل کی تفریق سے بالاتر ہر خاص و عام کو انسانیت کے عظیم رشتے میں پرویا۔ ایک روزن انہی اقدار کی تلاش میں ہے جو معاشرے کو جنہم کدے کی بجائے گل و گلزار بناتی ہیں۔
پاکستانی معاشرہ تقریباً چار عشروں سے اپنے رہنے والوں کے لئے مذہب، مسلک، رنگ، نسل اور ذات کی تفریق کی بنیاد پر کوئی ایسا قابل رشک خطہ نہیں رہا۔ مسموم نظریات کی یلغار نے ایک غالب اکثریت کو اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے کا کھلا اجازت نامہ دے رکھا ہے۔ جبر کے ماحول نے ذہنوں کی تخلیقی قوتوں کو اپنے پنجہ استبداد میں کچھ ایسے جکڑ رکھا ہے کہ افکار نو کے سارے سوتے خشک ہو چکے ہیں اس لئے تو جہان نو کی بجائے ہم ایک گھٹن زدہ ماحول میں جینے کے لئے مجبور ہیں۔
ایک روزن طرز کہن پر اڑنے کی بجائے آئین نو سے مقابلہ کی دعوت مبازرت دیتا ہے۔ ایک روزن ایک ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے لئے جہد مسلسل کر رہا ہے جہاں ذہن کے دریچوں پر خوف کے پہرے نا ہوں بلکہ ہر ایک کو اظہار رائے کا حق حاصل ہو۔ جہاں مذہب، سیاست، سماجیات، تہذیب و ثقافت، بین الاقوامیت اور دوسرے موضوعات پر بات کرتے ہوئے یہ خوف دامن گیر نہ ہو کہ یہ گروہی، کاروباری یا صحافتی مصلحتوں کا شکار ہو کر ناقابل اشاعت نہ ٹھہرے۔
یہ ملک میں اظہار رائے کے روایتی میڈیا پر قابل ممنوع موضوعات پر لکھنے کا موقع فراہم کرنے کا پلیٹ فارم ہے۔ آج کے تیز تر ڈیجیٹل میڈیا دور میں ایک روزن سیم زدہ ذہنوں کو فکر نو سے ہمکنار کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ یہ روشنی کی وہ کرن ہے جو گھٹا ٹوپ اندھیروں سے لڑنے کی اپنے اندر سکت رکھتی ہے۔ کسی ویرانے میں جب مسافر دیے کی جلتی لو کو دیکھ کر اس کی جانب لپکتا تھا۔ ایک روزن نے اس معاشرے کے لق و دق صحرا میں ایک طاقچے میں فکر نو کا چراغ جلا کر رکھ دیا ہے جس کی رہنمائی و رہبری کی لو ویرانوں میں نشان منزل کا پتا بتا رہی ہے۔ ہم نے اپنے حصے کا چراغ روشن کر دیا ہے جس کی لو بجھے ہوئے چراغوں کو جلا بخش کر ایک روشن و منور معاشرے کی منزل کو آسانی سے ڈھونڈ پائے گی۔