ایک روزن کا ایک سالہ اشاعتی سفر اور میڈیا میں کیسیٹی کلچر ٹائپ کا فرمائشی جِن
(ایچ بی بلوچ)
کچھ حالات و واقعات ہماری باتوں خبروں اور تبصروں کا حصہ اس لیے نہیں بن پاتے کیونکہ یہ ہماری وحشت کی تسکین نہیں کر پاتے جو ہمارے عمومی سماج کی نفسیات کی گھٹن کا آئینہ دار ہوتی ہے۔ تو دراصل ان واقعات میں سوچنے کے مواقع بھی نکلتے ہیں۔
گوئٹے کے بقول ہمارا کام صرف رونا یا ہنسنا نہیں بلکہ ہمارا کام سوچنا بھی ہے۔ اور یہ ایسے سماج کے لیے انتہائی مشکل کام ہوتا ہے جس میں آنکھوں سے اس لیے کام نہیں لیا جاتا کہ پر امن راستے تلاش کیے جائیں۔ کانوں سے کسی اچھی بات سے استفادہ نہیں کیا جاتا۔ جہاں زبان کے لیے سچ حرام کر دیا گیا ہو۔
سماجی الجھن کی نفسیاتی لذت کو بیچنا اور اتنا غیر ممنوع بنا دینا کسی بھی طور ذرائع ابلاغ کے حوالے سے نظر انداز کرنے جیسا موضوع نہیں ہے۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے صرف ایک واقعے یا ایک تبصرہ میں سمجھنا یا سمجھانا بہت مشکل ہے۔ جب کہ یہ موقع اس لیے نامناسب ہو کہ اگر ہم ایک روزن کے ایک سالہ سفر کی مناسبت سے بات کر رہے ہوں۔ مگر صحافتی حوالے سے اس موضوع کا تذکرہ کیے بغیر ایک روزن کے لیے آخر کیا لکھا جائے؟ ایک سسکی یا ایک قہقہہ؟
بالکل بھی نہیں۔ یہ ایک ایسی سوچ کا سفر ہے جو ہر نئے قلم کی مثبت جنبش کو تاریخ کا حوالہ بنانے کا ادراک رکھتی ہے۔ فن کے حوالے سے پسند کی اقلیت یا اکثریت کا ایسا گھن چکر ہے جو شعوری حوالے سے معاشرے پر منفی اثرات کا مرتکب ہوتا ہے۔
دو مسائل بہت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جب ہم سوچتے ہیں کہ اکثریت کیا پسند کرتی ہے اور کیا وہی بہتر ہوتا ہے جو اکثریت پسند کرتی ہے؟ جسے سماج کے اس نرم فیڈر کی طرح سمجھنا چاہیے جو دودھ کی لذت کے باعث بڑھاپے تک سماج کو بچہ بنائے رکھے۔ اسے سرمایہ دارانہ نظام میں رینکنگ سے پر مہذب نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
بر صغیر کے لیے جمالیات اور مجاز ادب کا بنیادی محرک رہا ہے۔ دراصل اس رجحان کے عوامل سماجی طرزِ قوانین کے حامل رہے ہیں۔ جس میں نسلی اونچ نیچ کے اثرات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی طبقاتی تفریق کی وجہ سے جنس کی عدم دستیابی کی وجہ سے جنم لینے والے انتہائی عشق کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ مجاز اور غم ذات محبوب سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کو باعثِ عشق بنا دیتی ہے۔
اکثر شعرا کا مختلف علاقائی اور قومی زبانوں میں ایسا کلام مل جاتا ہے۔ جس میں سے ناک کے لونگ ہاتھ کے کنگن کان کے بندے میں سے محبوب کو ڈھونڈنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ چند دہائیاں پہلے اسی نوعیت کی غیرمعیاری شاعری نے غیر معیاری کیسیٹ کلچرل انڈسٹری کو فروغ دیا۔ باشعور حلقے جس پر وقتاً فوقتاً تشویش کا اظہار کرتے رہے۔
الیکٹرانک میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا ہماری جمہوری رائے کی طرح اس مذاقیہ خدشے کا شکار نظر آتی ہے کہ بہروں کی اکثریت گونگے بھی چُن سکتی ہے۔ ایک آدھ سائٹ نے تو پورے پاکستان کی تحریروں کی شمولیت اور پورے پاکستان کے کبڑے کرداروں کے جانبدار انٹرویوز کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک بابا جی سرندے سارنگی اور الغوزے کی کیسیٹ کی دُھن پر جِن نکالتے تھے۔ ایک نوجوان لڑکی کا جِن موسیقی کے سارے حیلے وسیلوں کے باوجود حاضر ہی نہیں ہو پا رہا تھا۔ اسی بھاگم دوڑی اور عجلت میں غلطی سے ٹیپ ریکارڈر پر شمن میرالی کی کیسیٹ چڑھ گئی، اور جِن اسی وقت حاضر ہو گیا۔
تو دعا ہے کہ ایک روزن کیسیٹی ٹائپ کے کسی فرمائشی بد سائے سے دور رہے۔