کتنے خورشید اترتے ہیں ایک روزن سے
(نسیم سید)
صورت حال کا زندان، اس میں پھیلا گھپ اندھیرا، اندھیرے سے لیپی ہوئی اونچی اونچی دیواریں، روشنی کو گل کرنے کی تاکید کرتے پہریدار، اور ایسے میں ایک روزن کی نوید۔
سب کچھ مجھے اچانک ماضی کے ان دنوں میں لے گیا جب ہندوستان اورپاکستان کے درمیان جنگ ٹھنی ہوئی تھی۔ دن میں کرفیواور رات کو بلیک آوٹ کا وہ تجربہ کبھی کا آج تک جوں کا توں یاد ہے۔ مجھے یاد ہے کہ گھر کے گھپ اندھیرے میں ایک چھوٹی سے موم بتی اگر کبھی گھبرا کے جلا لی جاتی تو اس کی ننھی سی کرن روشن دان سے نکل کے باہر پھیل جاتی اور فوراً دروازے کو کھٹکھٹا کے وارننگ مل جاتی کہ شمع گل کردی جائے۔
حالات گواہ ہیں کہ ہم کسی ایسی ہی صورت حال کے قید خانے میں محصور ہیں، سوچ کے کرفیو اور روشنیوں پر پابندی کا دورہے یہ۔ گھپ اندھیرے سے لیپی ہوئی دیواروں میں محصورہونا اورپھر ان دیواروں میں کسی بھی ایک روزن کا میسر آ جانا وجود کو تازہ ہوا اور روشنی کی موجود گی کا احساس دل کے میں نئے سرے سے جینے اورسوچنے کی امنگ پیدا کرتا ہے۔
لہذا بہت تازہ دم کرتا ہے یہ نظارہ اور یہ احساس کہ ’’ایک روزن” کہ چند مزدور صفت اس روزن کو کشادہ تر کرنے کی دھن میں اندھیرے سے لیپی دیواروں پر مسلسل ضرب لگا رہے ہیں۔
میری سوچ کو اس سے میسر آنے والی روشنی اور تازہ ہوا کس قدر شاداب کرتی ہے ناقابل بیان ہے۔ اس کی فہرست ان صاحبان علم کے نام سے مزین ہے جن کا نام کسی برکت جیسا ہے فکر کو۔ ایک روزن کے مزدوروں کی اس ہوش مند دیوانگی نے بارہ مہینے گزار دیئے اس مشقت میں مگرکیسے تا زہ دم ہیں؟ عجب سی سرشاری ہے اس کا گواہ بنتے ہوئے۔ بہت سی دعائیں ان چند حروف کے ساتھ روشنی اورتازہ ہوا کی نوید جیسے ایک روزن کی نذر۔