ایک ٹیچر ہونے کا احساس
عابد میر
بزرگوں سے سنا اور کتابوں میں پڑھا کہ خود شناسی، خداشناسی ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے عالم ، فاضل و فہمیدہ انسان خود آگاہی کا درس دیتے ہیں۔ مشکل مگر یہ ہے کہ خود آگاہی کا یہ مرحلہ، خود سے طے نہیں پاتا، جب تک کہ مقابل کوئی آئینہ نہ ہو۔ ہر انسان کے لیے اس خود آگاہی میں معاونت دینے والے اس آئینے کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں، میرے اس آئینے کا نام ہے: معلمی، مدرسی، علم و تدریس سے وابستگی۔
میں خود کو ان خوش نصیب انسانوں میں سے سمجھتا ہوں، غالبؔ کے بقول جن کا شوق ہی ان کا پیشہ بن جائے۔ مجھے ہمیشہ محسوس ہوتا تھا کہ میں اچھا اداکار بن سکتا ہوں یا اچھا استاد۔ بنا کسی زیادہ محنت کے میں استاد بن گیا (اداکاری کا شوق میں اسی میں پورا کر لیتا ہوں)، جب کہ اچھا لکھاری بننا میری شدید خواہش رہی ہے۔ یہ خواہش ہنوز تشنہِ تکمیل ہے۔ ’دیکھیے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!‘
ایک اچھا استاد بننے کی تمنا جبلی طور پر موجود تھی۔ شاید اسی لیے مجھے اس میں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس پیشے سے وابستگی کے دسویں برس کے آغاز میں اس تمنا کی تکمیل کو تو مکمل پاتا ہوں۔ ساتھ ہی مجھے اس میں ایک خلش کا احساس رہ رہ کر ہوتا ہے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میرے لیے ایک استاد ہونے کا احساس کس قدر دل پذیر و خود آگہی کا وسیلہ بنا ہے۔
ہمارے ہاں ایک عمومی خیال پایا جاتا ہے کہ مدرسی، پیغمبرانہ پیشہ ہے۔ اس خیال کے ساتھ جو تقدس وابستہ ہے، وہ دراصل ایک بھاری بھرکم ذمہ داری کا احساس بھی ساتھ لاتا ہے۔ میں ٹیچنگ کو اس طرح نہیں دیکھتا تھا۔ میرے لیے اس میں کشش کا پہلو مسلسل پڑھنے اور پڑھانے کا عمل تھا۔ جس کے ساتھ مسلسل سیکھنے کا عمل لازمی طور پر جڑا ہوا ہے۔ کتاب، قلم، مطالعہ، مکالمہ، یہ لوازم مجھے تدریس کی جانب متوجہ کرتے تھے۔ میں سوچتا تھا، پڑھنے کے بھی اگر پیسے ملیں، اس سے زیادہ لطف، اس سے بڑھ کر ’عیاشی‘ کیا ہو سکتی ہے!
نہ صرف پڑھیں، بلکہ جو آپ پڑھتے ہیں، اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کریں۔ انسانوں سے مکالمہ کریں۔ کچھ سنیں اور سنائیں، کچھ سیکھیں اور کچھ سکھائیں۔۔۔ اوراس کام کے عوض سرکار آپ کو پیسے بھی دے۔۔۔ یہ سراسر ’عیاشی‘ ہے۔ میں ان معنوں میں ایک ’عیاش ترین‘ آدمی ہوں، جس کا اس کام سے کسی صورت جی نہیں بھرتا۔ میرا ‘پڑھنے سے اور پڑھانے سے کبھی جی نہیں بھرتا۔ انسانوں سے مکالمہ کرنے سے میرا کبھی جی نہیں بھرتا۔
لیکن پچھلے چند برسوں میں، میں نے اپنے پیشے کو ذمہ داری کے ایک نئے احساس کے بہ طور پایا ہے۔ یہ ایک نیا، قدرے تلخ مگر نہایت پُرتاثیر احساس ہے۔
کہیں کوئی کہانی پڑھ کر، اس سے متاثر ہو کر، اسی کی طرز پر، ٹیچرز ڈے پہ گزشتہ برس میں نے ایک تجربہ کیا۔ اس کا نام رکھا :Make a wish to your teacher ۔ بچوں اور بچیوں (کالجز ‘جہاں میں پڑھاتا ہوں) سے کہا کہ اپنے ٹیچر سے متعلق کسی ایک خواہش کا اظہار کریں، جیسے کہ ان کے ٹیچر کو کیسا ہونا چاہیے، کیا کرنا چاہیے، کیا نہیں کرنا چاہیے، کیا نہیں کہنا چاہیے،یا کچھ بھی. کوئی بھی خواہش جو وہ اپنے ٹیچر سے رکھتے ہیں، ایک کاغذ پہ لکھ دیں (بھلے اس پہ اپنا نام نہ لکھیں)۔
بچیوں کی باتیں بڑی دلچسپ تھیں۔ ایک بچی نے لکھا: ’’سر، میری خواہش ہے آپ میرے لیے ایک بڑی سے Lays چپس لے آئیں۔‘‘ میں مسکرا دیا، اور ایک شرارت جان کر اگلے روز اس کے لیے ڈھیروں چپس لے گیا۔ بچی خوشی سے بے قابو ہو گئی۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ جسے میں محض شرارت بھری معصوم خواہش سمجھا تھا، وہ ایک’’سنجیدہ مطالبہ‘‘ تھا۔ یہ ہمارے سریاب کے مزدوروں کی بچیاں ہیں، اچھے کھانے کو ترسی ہوئی بچیاں۔۔۔ اس کے بعد اب میں اپنی بچی کے لیے ہمیشہ بڑی سی چپس لاتا ہوں، اور اس سے کہتا ہوں کہ محلے کی بچیوں کے ساتھ کھائے اور سب دوستوں کو ضرور کھلائے!
اسی سال میں نے بچیوں کا امتحان لیا۔ ایک بچی جس کا پیپر بڑا اچھا تھا۔ میں کوئی کتاب اس کے لیے تحفہ لے گیا اور کلاس میں بلا کر اسے تھماتے ہوئے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ بچی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ میں سمجھا، خوشی کا اظہار ہے۔ اس نے نم لہجے میں کہا، ’’سر، آج تک میرے باپ نے بھی اس طرح میرے سر پہ ہاتھ نہیں رکھا۔‘‘
یہ فقرہ مجھے اندر تک چیر گیا۔ تب سے میں اپنی ہر اسٹودنٹ کے سر پہ ہاتھ رکھ کے ملتا ہوں۔
مجھے لگا کہ ایک استاد ہونا کس قدر ذمہ داری کا معاملہ ہے۔۔۔بشرطیکہ آپ اس ذمہ داری کے احساس سے آشنا ہوں!
اب اس کا ایک اور پہلو دیکھتے ہیں:
میرے لیے ٹیچر محض کلاس روم میں نصاب کی تفہیم کرنے والے شخص کا نام نہیں۔ میری زندگی میں اکثر ٹیچر وہ لوگ رہے ہیں، جنہوں نے مجھے کبھی کلاس میں نہیں پڑھایا۔ میری زندگی میں سب سے بڑی ٹیچر میری محبوبہ اور ایک محبوب شخص رہا ہے۔ اپنی محبوباؤں سے میں نے سیکھا کہ عورت سے پیار کیسے کیا جائے۔ اپنی ماں سے،بہنوں سے، بیوی سے سیکھا کہ عورت کا احترام کیسے کیا جائے۔ باپ سے سیکھا کہ بزرگ اگر غلط بھی ہوں، تو ان کی رائے کا احترام کیسے کیا جائے۔ بھائیوں سے سیکھا کہ کڑے وقت میں ایک دوسرے کا ہاتھ کیسے تھاما جائے۔ دوستوں سے سیکھا کہ خوشیوں کی شیئرنگ کیسے کی جائے۔ ۔۔۔ تو کیا ان سب کو ’استاد‘ اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی کلاس میں نہیں پڑھاتے؟
جب کہ میری زندگی کا سب سے بڑا استاد، وہ محبوب شخص ہے جس نے مجھے کبھی کلاس میں ایک لفظ نہیں پڑھایا، مگر جس کی صحبت میں ہر لمحہ، کئی کلاسوں پہ بھاری ہوتا ہے۔ جس کے صرف الفاظ ہی نہیں‘ تحریر سے، طرزِ عمل سے، رویے سے، بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے، جہاں سے بہت کچھ سیکھا ہے میں نے۔
اپنے اسی استاد سے، اور اپنے طلبا سے میں نے سیکھا اور جانا کہ استاد ہونا، دراصل ذمہ دار ہونا ہے۔ اور ذمہ دار ہونا، انسان ہونے کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ میں اس خیال پر یقین رکھتا ہوں کہ ’ایک استاد، ایک قلم، ایک کتاب، دنیا کو بدل سکتے ہیں‘ لیکن اس سے پہلے خود کو بدلنا ضروری ہے۔
اس لیے استاد ہونا، ایک ذمہ دار نسان ہونے کا وسیلہ ہے۔ یہ احساس مجھے اس پیشے سے مزید اُنسیت و اپنائیت پیدا کرتا ہے۔ سو مجھے لگتا ہے اس پیشے سے منسلک جو بھی شخص کسی بھی سماجی معاملے میں غیرذمہ دار ہے، وہ ٹیچر کہلانے کا مستحق نہیں۔
مشکل مگر وہی درپیش ہے کہ جس طرح خودآگاہی، ازخود نہیں آتی، ویسے ہی ایک استاد ہونے کے ساتھ ذمہ دار ہونے کا احساس از خود نہیں آتا۔ جب تک کہ یہ احساس دلانے والا آئینہ آپ کے سامنے نہ ہو (خواہ اس کی صورت کچھ بھی ہو!)۔ ورنہ اگر استاد ہونے کے ساتھ ذمہ دار ہونا ایک لازمی وصف ہوتا، تو میں دنیا بھر کے غیرذمے دار انسانوں کو اس پیشے سے لازماً منسلک کرنے کی سفارش کرتا۔