بے کار کی باتیں: ایک زندگی سے کچھ ورق
نسیم سید
ایک عزیز دوست نے مجھے لکھا، “سب لکھ دیجیے گا؛ زندگی کو آپ نے کیسے گزارا اور زندگی نے آپ کو کیسے گزارا۔ “میں نے کئی ہفتوں تلک ٹالا۔ مگر پھر و عدہ کرنا ہی پڑا کہ چلو ڈھونڈتی ہوں خود کو لیکن پھر کئی ہفتے گزر گئے زندگی کے ان اوراق کو ڈھونڈنے میں جو شاید کہیں کھو گئے یا شاید میں نے پھاڑ دیے ہوں۔ “سب لکھ دیجیے” مگر کیسے؟ بات یہ ہے کہ ہم زندگی میں پورے کے پورے اپنے ہا تھ لگتے ہی کب ہیں؟ اور پورا کا پورا خود کو یاد بھی کب رہ جاتے ہیں؟ مگر کوشش کرتی ہوں جہاں جہاں سے خود کو یاد ہوں “سب سا منے لا ئے دیتے ہیں” یہ ایک خاصا خوبصورت تین منزلہ گھر ہے خیر پور کے چھوٹے سے محلے لقمان میں۔ (خیرپور سندھ پا کستان کا ایک چھوٹا سے شہر ہے) الہ آباد سے میرے والدین بھی یہاں آگئے تھے رُلتے رُلاتے۔
والد سید تھے اور کئی بار ہم ” نجیب الطرفین” ہیں کا فخریہ حصار ہمارے گرد کھینچتے نظر آئے تھے۔ ایک شجرہ سینے سے لگائے لگائے پھرتے جس میں شاید کوئی تفصیل تھی ان کے نجیب الطرفین ہونے کی اور یہ کہ کس طرح اکبر الہ آبادی ہمارے رشتہ دار ہیں۔ مگر ہم چھ بہن بھائیوں میں سے کسی کو کبھی کبھی اس تفصیل میں جانے کا شوق نہیں ہوا گو کہ وہ شجرہ اب بھی میرے بھائی کے پاس کسی الماری میں دھرا ہے مگر اس کو دیکھنے کا فا ئدہ؟ ہم بہت چھوٹے چھوٹے تھے تب ہی اچانک اماں نے ایک دن اپنی مٹھی کھول کے خود کو اپنے ہا تھوں سے جھاڑ دیا۔
ہمارے اس تین منزلہ گھر کے دالان میں میری ماں کی لحد ہے اور اس لحد میں میرا اور میرے با قی پانچ بہن بھائیوں کا بچپن دفن ہے۔ اس گھر کے کمروں میں دالان میں صحن میں اوپر کی منزلوں میں ان کے آخری الفاظ ” میرے بچے” اور “بیٹا بہت پڑھنا” ہر طرف گونجتے تھے اور بہت سالوں تک میں کوئی آ واز نہیں سن پائی سوائے اس آواز کے۔ ہم سب بہن بھائی ایک سا تھ تھے مگر ہم ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے اپنی اپنی تلاش میں لگ کے۔ تب میں شاید چھ سال کی تھی مگر ماں کے آخری الفاظ کا مطلب نہ سمجھتے ہوئے بھی بہت کچھ سمجھ میں آ گیا۔
میرے اور بہت بچپنے میں ہی زندگی نے بہت کچھ سمجھا اور سکھا دیا مجھے اس کی سمجھائی ہوئی یہ بات تو جیسے ازبر ہوگئی کہ دکھ درد اور غم وہ کڑوی گولیاں ہیں جنہیں چبانا نہیں چاہیے۔ بلکہ ایک گھونٹ میں نگل لینا چاہیے۔ میں ان کڑوی گولیوں کو نگلتی اور یہ میرے اندر برسہا برس کی زہریلی روایا ت کے بدن میں زہر اتارتی گئیں اپنا اور مجھ میں تریاق کا کام کرتی گئیں ان کڑ وی گولیوں کے بیج سے میں اپنے اندر اندر پھو ٹتی رہی شاید، کسی نئے پو دے کی طرح جس کا مجھے بہت بعد میں اندازہ ہوا۔
میری بڑی بہن جتنی ڈرپوک اور خاموش تھی میں اتنی ہی نڈر اور بے باک۔ لہذا جب ساتویں کلاس میں تھی تو اس اسکول میں جس کی ہیڈ مسٹریس بھی بر قع اور نقاب میں ڈھکی چھپی رہتی تھی جب پر دے کے مو ضوع پر مباحثہ ہوا تو پر دے کے خلا ف تقریر کی اور مزے کی بات یہ کہ پہلا انعام بھی لیا۔ یہ ایک چھوٹا سا کپ تھا جو مجھے زندگی نے عطا کیا تھا اپنے سا منے اپنا اقرار کر نے کا۔
والد سید تھے سو ہم سید قرار پا ئے اور میں نسیم سید ہو گئی۔ والد ویسے ہی تھے جیسے اس دور کے والد ہوا کر تے تھے ” کھلاو سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نگا ہ ” ان کے پاس گو ہمیں سونے کا نوالہ کھلا نے کو نہیں تھا مگر شیر کی نگا ہ تھی۔ سو یہ نگاہ ہمارے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھر نے سب کو قوانین کا پابند رکھتی تھی۔ میرے اندر سوالوں کا ہمیشہ انبار رہا۔ اور یہ سوالا ت اکثر ان کے قوانین سے ٹکراتے، جب ٹکراتے تو سخت جھاڑ جھپاڑ ادھیڑ پچھاڑ ہوتی۔
میری مگر یہ سب کچھ مجھے اوپر سے خا موش اور اندر سے پر شور بناتا رہا ۔ غرض سوال کر نے کی عادت کے سبب اسکول اور گھر دونوں جگہ، خوب خوب صلواتیں پڑیں۔ سزا بھگتی ٹھکائی ہوئی۔ یہ سب کچھ اب بھی ہو تا ہے کسی اور انداز سے مگر اپنی نظموں میں جو جی کرتا ہے بکتی ہوں۔ لہٰذا “بدن کی اپنی شریعتیں ہیں” جیسی نظمیں لکھیں تو کئی بڑے شا عروں نے اشاروں اشاروں میں اور کھل کے سمجھایا کہ عورت کو کیسی شا عری سے پرہیز کرنا چاہیے اور کیسی شا عری کر نی چاہیے۔ اس جملے کو معترضہ سمجھیں۔
تو با ت تھی نو عمری کے زما نے کی اپنے چھانے پھٹکے جانے کی، کو ٹے پیسے جانے کی۔ سا تویں کلاس میں دو اہم واقعات ہوئے ایک پردہ کے خلاف میری جیت اور دوسرا دلچسپ وا قعہ یہ ہوا کہ امتحان میں جملے بنانے کو آ تے تھے اس زمانے میں۔ جیسے چو ری اور سینہ زوری، بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی وغیرہ وغیرہ۔ میں نے سب کو شعر بنا ڈالا بجائے جملے کے۔ ایک فضول سا شعرکیونکہ اس پر بہت مار پڑی تھی اس لیے شا ید اب بھی یا دہے ۔ ٹیٹوا دبا نا کا جملہ بنانا تھا۔ میں نے لکھا میں سر دبانا چاہتا تھا آ پ کا حضور بھولے سے میں نے ٹیٹوے کو ہی دبا دیا میری اردو کی استا د کو بہت غصہ آ یا۔ اس نے میرا امتحان کا پیپر میرے منہ پر مارا۔ اور خوب ڈانٹا پھر ایک گھنٹہ کے لیے کلاس کے کو نے میں کھڑا کردیا۔ اس کونے میں کھڑے ہو کے میں نے اس ایک گھنٹہ کو بہت سرشا ری میں گزارا کیونکہ مجھے بڑا مزا آ رہا تھا یہ سوچ کے کہ اتنی جلدی جلدی میں نے شعر گڑھ ڈالے جبکہ اس سے پہلے ایک شعر بھی نہیں کہا تھا۔
اس دن اس کو نے میں کھڑے کھڑے میں نے اپنے لیے سزا میں سے جزا کا فارمولا دریافت کر لیا ۔ والد نے حسب دستور چالیس دن کے اندر شادی کرلی تھی۔ دوسری ماں بھی بالکل ویسی تھیں جیسے انہیں ہو نا چا ہئے تھا۔ بڑی بہن بارہ سال کی ہوئی تو اس کی پینتالیس سال کے مرد سے شادی کر دی گئی۔ تو ان کی شا دی شدہ زندگی ویسی تھی جیسی اسے ہونا چاہیے تھا۔ بڑے بھائی پائلٹ کی ٹریننگ کے لیے انگلینڈ بھیج دئے گئے ۔والد نے ہمیں دوسری والدہ کے سا تھ بہت انصا ف کا ا حسا س دیا ۔ اپنے طور پر محبت بھی دی۔تحفظ بھی اور تعلیم کے لیے آ گے بڑھتے جا نے کی اپنی بساط بھر پو ری مدد بھی ۔مگر ان کے اور میرے بیچ میری ماں کی لحد کا فاصلہ تھا اور یہ فا صلہ لق و دق تھا شا ید جو میں چا ہتے ہوئے بھی ختم نہیں کر پائی۔
ہم چار بہن بھائی اب بھی ایک سا تھ تھے مگر ایک دوسرے سے بے خبر اپنی اپنی تلا ش میں گم تھے۔ میں کلاس میں فرسٹ اس لیے آتی تھی کہ جس لڑکی کو ہرا کے میں نے سیکنڈ پوزیشن پر کر دیا تھا وہ بہت امیر باپ کی بیٹی تھی اور میری کلاس ٹیچرز اس کے نا ز نخرے جوتے سب کچھ اٹھا نے کو تیا ر رہتی تھیں۔ وہ نمبر دینے میں اکثر میرے ساتھ بے ایمانی کرتیں جب وہ لڑکی مقابلے پر ہوتی۔ میں نے ٹھان لیا کہ مجھے فرسٹ آ نا، کھیل کے میدان میں اسے شکست دینا ہے۔ جب ہیڈ گرل کا الیکشن ہو ا تو اسے ہرا کے مجھے لگا میں نے اسے نہیں “بے ایما نی ” کو ہرایا ہے۔
مجھے میری ٹیچرز اور والد کی جا نب سے جن کتابوں کو نہ پڑھنے کی تاکید کی گئی میں نے وہ ساری کتابیں ڈھو نڈ ڈھونڈ کے پڑھیں۔ منٹو کے افسا نے ایک کزن کی خوشامد کر کے منگوائے ۔ اس پر ہسٹری کی کتاب کا ٹائیٹل چڑھا کے اپنے بستے میں چھپا دیا ۔ مگر والد کو شاید پینسل کی ضرورت ہوئی بستہ چیک کیا اور منٹو ہا تھ آ گئے۔ انہوں نے وہ کتاب چو لھے میں ڈال دی ۔ مجھے آ گ میں جلتا منٹو گلزار دکھائی دیا ۔اور پھر اس آ گ نے بڑی روشنی دکھا ئی مجھے زندگی بھر۔ میں نے بتا یا نا کہ سزا میں جزا کا فا رمولا تلاش چکی تھی میں۔
پہلے شعری مجمو عے “آ دھی گو اہی ” کی پہلی نظم “تعارف ” یا د آ گئی ( ایک ہی نثری نظم ہے میرے پا س ) سنا تی چلو ں با ت آ گے بڑھا نے سے پہلے ۔ تعا رف بچپن میں اس چڑیا کی کہا نی ہم سب نے سنی ہے جو زندہ رہنے کے گر سے واقف تھی سو ، جب اسے آزا د فضا ئوں سے گرفتا ر کر کے پنجرے میں ڈالا گیا تو وہ گا رہی تھی ” آ ہا !! میں نے اتنی تیلیوں والا، کیا محفوظ سا اک گھر پایا ” چھری تلے آئی تب بھی گا تی رہی” آ ہا !! میں نے لال کپڑے پہنے۔ سب نے کیسا مجھے سجایا ” اور جب کڑاہی میں تلی گئی تو وہ گا رہی تھی ” آہا !! آگ میں جل کے سو نا کندن میں ڈھل آ یا ” شا ید میں وہی چڑیا ہوں۔ لیجیے ابھی تک میں نے خو د کو سمیٹا ہی نہیں اور تصنیف حیدر کی تا کید ہے کہ پا نچ چھ صفحات ہوں تو مجھے اب ایک ورق میں سمیٹنا ہے خود کو۔ ویسے ایک ورق سے زیادہ کچھ ہے بھی کہاں میرے پاس اپنے تعارف میں۔ فا سٹ فارورڈ کر تی ہوں با قی وقت کو۔
دسویں کے بعد کیونکہ خیر پور میں کا لج نہیں تھا لہٰذا کراچی بھیج دی گئی اس ضد پر کہ مجھے آ گے پڑھنا ہے۔ کراچی کا لج کا زمانہ ۔۔۔ کیا اچھے دن تھے۔ شاعری نے پھر ایک دن ایک نظم کی صورت میں مخاطب کیا۔ اور پھر اس سے مسلسل رابطہ رہا۔ میں اپنے کالج کے میگزین ” فضا” کی ایڈیٹر تھی، یونین کی صدر تھی، ڈرامہ سوسائٹی کی صدر تھی۔ ڈیبیٹ، مشاعرے سب میں شا مل۔ غرض اس مصروفیت میں عجب فر صت تھی، عجب آرام تھا، عجب خوشیاں تھیں۔ حیدرآباد ویمن کالج میں مشاعرہ تھا۔ پورے پاکستان سے شاعرات اس مشاعرے میں شرکت کر رہی تھیں۔
حمایت علی شاعر اور (شاید) عبیداللہ علیم ججز میں تھے۔ اس مشاعرے میں جب میرے نام کا اعلا ن ہوا پہلے انعام کے لیے تو میں بہت دیر تک سمجھتی رہی کہ غلطی سے میرے نام کا اعلان ہوا ہے۔ ( حما یت علی شاعر آ ج بھی میرے اس ہونق پن پر ہنستے ہیں) یونیورسٹی پہنچتے تک شاعری سے میری اتنی گا ڑھی چھننے لگی تھی کہ جب تنقیدی نشستیں ہو تیں تو وہ لڑ کے جو خا ص کر ہو ٹنگ کر نے ہی آتے تھے مجھے اکثر بخش دیتے تھے۔ ایک نظم لکھی تھی میں نے “جمیلہ بو پا شا ” ہمارے ہیڈ آ ف ڈیپارٹمنٹ اور تمام پروفیسر ڈیپارٹمنٹ کے اسٹیج پر موجود ہو تے تھے۔ اس دن فر مان صاحب نے جو کہا وہ جملہ میرے لیے بہت بڑی سر شاری تھا ” نسیم !! تمہاری شاعری کا مستقبل بہت تابناک ہے “( سر !! میں شر مندہ ہو ں۔ یہ ذمہ داری اور سر شاری نبھا نہیں سکی۔)
یونیورسٹی کے دوسرے سال کے آ غاز میں شادی ہو گئی۔ مجھے شادی انتہائی احمقا نہ خیال لگتا تھا سو بہت بار بھوک ہڑتال کر کے رو کر پیٹ کر شادی کا چکر ختم کرا چکی تھی۔ مگر مو ت اور شادی بر حق ہیں اس لیے اس بار ایک نہیں چلی۔ دوسرا سال ایم اے کا کسی طرح پوارا ہوا اور شادی ہو گئی ۔ شادی کے بعد مجھے پتہ چلا کہ شریف عورتیں شاعری نہیں کرتیں ۔ مشاعروں میں نہیں جاتیں، کتابیں نہیں پڑھتیں وغیرہ وغیرہ۔ خیر یہ کوئی ایسا زندگی اور مو ت کا مسئلہ بھی نہیں تھا سو سرکا دیا خود کو ایک طرف۔ ہمارے ہو نے کی ان کو بہت شکا یت تھی ۔۔۔۔ سو خود سے ہٹ کے ٹھکانہ بنا لیا ہم نے!
کینیڈا آ ئی تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہمارے میاں ایک گوری کو پیارے ہو گئے (جیسے لو گ اللہ کو پیارے ہوجا تے ہیں۔) نہ جانے ایسے میں جب بہت چھو ٹے چھوٹے چا ر بچے تھے۔ دو دو نو کریاں تھیں۔ پڑھائی تھی ( ہماری ڈگریاں یہاں آ کے ردی کا غذ جیسی ہو تی ہیں اگر یہاں کی کو ئی ڈگری نہ ہو میں نے ہوٹل مینیج مینٹ کا کورس یہاں سے کیا) ایسے میں وہ جو میں تھی اپنے اندر کسی کونے میں پڑی جسے کب کا بھول بھال چکی تھی وہ آ موجود ہوئی۔ برتن دھوتے، برف صاف کر تے، گھاس کاٹتے، روٹی پکاتے، گاڑی چلاتے میں نظمیں لکھتی رہی۔ نہ صرف لکھتی رہی بلکہ چھپتی بھی رہی۔ فنون میں، ارتقا میں، ادب لطیف میں شاعر میں اور بہت سے مختلف رسائل میں۔ ادبی تنظیم بنا ڈالی، اور شاید ہی کوئی معروف شاعر ایسا ہو جو کنگسٹن نہ آ یا ہو۔
سردارجعفری کا لیکچر یادگار ہے۔ میری زندگی کا کہ ایک ہفتہ سردار بھائی میرے گھر رہے تھے۔ جو ن بھائی سے تفصیلی ملاقات بھی تب ہی ہوئی۔ قاسمی صاحب کے’’ بیٹی’’ سر شروع ہونے و الے خطوط ۔۔۔خوبصورت یادیں، بدصورت تجربات، مشاہدے، مشاعرے ۔۔۔ شاعروں کے عظیم مگر بھربھری مٹی سے بنے مجسمے۔ بہت کچھ ہے لکھنے کو، مگر پورا سچ بولنا بخدا بہت مشکل ہے مگر اپنے سر پھرے قلم سے ڈرتی ہوں کیا پتہ کب کیا طے کرڈالے ۔۔۔ سو کبھی شاید ان اوراق میں ہی کچھ اضا فہ کروں۔ اسی زمانے میں شعراء سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اور بہت کچھ سمجھا اور جانا، اپنی شعراء برادری کے بارے میں۔ اس کا تفصیلی ذکر بھی پھر کبھی۔ اسی مصروفیت کے زمانے میں پہلا مجموعہ ” آدھی گواہی” آیا، “سمندر راستہ دے گا ” دوسرا مجموعہ ہے۔ آدھی گواہی کے بعد یہ یقین کہ سمندر را ستہ دے گا کا سبب یہ تھا کہ خوف کی چھوٹی چھوٹی چڑیا۔۔۔ میرے بچپن سے جو مجھ میں قید پڑی تھیں۔
تاکیدوں کی جن کے پروں میں گرہیں لگی تھیں، میں نے ان سب چڑیوں کے پر کھول دیے۔ میں نے بہت سے شعراء کی بے پناہ خوبصورت شاعری پڑھ کے سوچتی ہوں، میرے لکھنے کا اور پھر شائع کرنے کا کیا کوئی جواز ہے؟ ” نہیں ہے” میرے اندر سے آ واز آتی ہے۔ پھر بھی لکھتی ہوں کہ اس کے علاوہ مجھے خود سے مخاطب ہونے کا طریقہ نہیں آ تا۔ زندہ رہنے کے لیے اپنے آپ سے مکالمہ ضروری ہے۔ میری شاعری میرا مجھ سے مکالمہ ہے، اورکچھ نہیں۔ مجھے اپنی صرف ایک کتاب پسند ہے، “شمالی امریکہ کے مقامی باشندوں کی شاعری” یہ ترجمہ نہیں ہے، بلکہ بہت خوبصورت احساسات کی ترجمانی ہے۔ اور یہ تر جما نی بہت دل سے کی ہے میں نے۔ اس پر ابھی اور کام کر رہی ہوں۔ ” جس تن لا گے ” یہ کچھ کہا نیاں ہیں۔ بے شمار کہانیاں جو ہمارے اطراف موجود ہیں ان میں سے چند ۔۔۔ اس بے کار کی بات کے ابھی بہت سے اوراق ہیں میرے پاس بس ان کو ترتیب دینا ہے۔
بہت عمدگی سے آپ نے اپنی کہانی بھی بیان کی اور ہم کو باتوں باتوں میں بہت سے سبق بھی دئیے۔ سلامتی اور دعائیں