بادشاہ اکبر کیا مسلمان نہیں تھا؟
از، جمشید اقبال
الیگزینڈر اکبر کو قدر کی نگاہ دیکھتا اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ روشن نظر حکمران مذہبی تعصبات سے بالکل آزاد تھا۔ الیگزینڈر اکبر کی جن خوبیوں کی بنا پر اُسے دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے نمونہ قرار دیتا ہے انہی خوبیوں کی بنا پر آج اُسے مغربی دُنیا پہلا وہ بادشاہ قرار دے رہی ہے جس نے بین المذاہب مکالمے کا سرکاری سطح پر آغاز کیا۔ اس وقت دنیا اکبر کے عبادت خانے کو رُوئے زمین پر پہلی مجلسِ ادیان قرار دیتی ہے۔
الیگزینڈر لکھتا ہے کہ اکبر اچھی طرح واقف تھا کہ عدم برداشت سطحی اذہان کا چلن ہے۔ اس کی تربیت ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے طور پر ہوئی تھی۔ مگر وہ اجتماعی خود پسندی سے آزاد ہونے کے ناطے نہ صرف اپنے مذہب کا، بَل کہ، تمام مذاہب کا دقت نظری سے مطالعہ کیا اور ان سب کا احترام کرنے لگا۔ اس احترام کی وجہ سے مغرب میں اس افسانے نے جنم لیا کہ اس نے مسیحیت قبول کر لی ہے کیوں کہ مسیحی قیادت کا خیال تھا کہ اکبر جیسا کشادہ دل شخص مسلمان نہیں مسیحی ہی ہو سکتا ہے۔
یہ افواہ مغرب میں پھیلی ہوئی تھی مگر الیگزینڈر یہ افواہ تسلیم نہیں کرتا کہ اکبر اپنے مذہب (اسلام) سے پھر گیا تھا اور اُس نے کوئی اور مذہب اختیار کر لیا تھا۔ الیگزینڈر اورنگ زیب کے دربار میں رہ کر بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ہر مسلمان انتہا پسند ہوتا ہے۔ الیگزینڈر کے بعد مکھن لعل رائے نے اپنی تحقیقی کتاب دینِ الٰہی – دی ریلیجن آف اکبر دی گریٹ (کلکتہ یونیورسٹی 1941) میں بے شمار دلائل کی مدد سے ثابت کیا کہ اکبر آخری سانس تک مُسلمان رہا۔
مکھن لعل لکھتا ہے کہ مغرب میں اکبر کے اسلام چھوڑنے کا فسانہ ونسنٹ سمتھ نے پھیلایا اور سمتھ کی تحقیق کا دار و مدار بدایونی نامی مورخ پر رہا۔ بدایونی ابوالفضل کا ہم جماعت تھا جسے بے روز گار دیکھ کر ابو الفضل 1572 میں دربار میں لائے مگر وہ اپنے محسن کا دربار میں عزت و احترام دیکھ کر حسد کا شکار ہو گیا۔
’’بدایونی اور ابو الفضل دونوں نے شیخ مبارک سے دینی تعلیم حاصل کی تھی۔ بدایونی کو اس بات کا دُکھ تھا کہ وہ ایک پرہیز گار اور با شرع مسلمان ہو کر بھی محض نمازوں کی امامت کرانے والا ادنیٰ درباری مُلّا ہے مگر اس کا ہم جماعت شبانہ روز ترقی کرتا جارہا ہے۔‘‘ (دین الہٰی۔ ص 28)۔
سولہویں صدی میں بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمہ کے تصورات اتنے عام نہیں تھے لہٰذا ان پر عمل اور دوسرے مذاہب کے احترام کو مذہب سے رُو گردانی مان لیا گیا۔ اکبر کو بین المذاہب تعلقات کے فروغ کی عملی کاوشوں اور غیر مسلم رعایا کے بنیادی حقوق کا احترام کرتا دیکھ کر بدایونی تنگ نظر حلقوں میں اکبر کے ارتداد کی خبریں پھیلانے لگا۔
اکبر کا کوئی قصور تھا تو محض اتنا کہ وہ چند صدیاں پہلے پیدا ہوگیا تھا۔
اکبر محلاتی سازشوں سے بے خبر اپنی رعایا کے مذہبی عقاید سے واقف ہونا چاہتا تھا۔ الیگزینڈر لکھتا ہے:
’’وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دیگر مذاہب کے بر عکس ہندو کسی کو یہ مشورہ نہیں دیتے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر ہندو مت قبول کر لے بَل کہ اپنا مذہب چھوڑ کر ہندو مت قبول کرنے کا فیصلہ کرنے والوں کو یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک اپنے راستے سے نجات پا سکتا ہے کیوں کہ نجات کے ہزاروں راستے ہیں جیسے پہاڑ کی ایک چوٹی تک کئی راستے جاتے ہیں۔ اس لیے وہ انہیں قائل نہیں کر سکتا تھا کہ اُسے ویدک شاستروں کی تعلیم دی جائے۔ اُسے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک چال چلنا پڑی۔‘‘
اکبر نے ابو الفضل کے مشورے سے اس کے بھائی فیضی کو بنارس کے ایک برہمن کی شاگردی میں دے دیا۔ فیضی کی عمر اس وقت دس سال تھی اور برہمن کو بتایا گیا کہ وہ ایک یتیم اور بے سہارا لڑکا ہے۔ برہمن نے لڑکے کو نہ صر ف اپنی اولاد کی طر ح پالا بَل کہ اپنے جانشین کے طور پر اس کی تعلیم پر بَھر پُور توجہ دی۔
متعلقہ: بر صغیر کی موسیقی میں عوامی موسیقی کا چلن از، یاسر اقبال
ایک روزن پر جمشید اقبال کی دیگر تحریریں
دس سال بعد فیضی نے سنسکر ت پر عبور حاصل کر لیا اور وہ تمام علوم جو بنارس کے برہمنوں کے پاس تھے سیکھ لیے۔ پھر ایک دن اکبر نے فیضی کی محفوظ واپسی کا بند و بست کر تے ہوئے اسے واپس بلوا بھیجا۔
برہمن خواتین ہندوستان بھر میں اپنے حسن کی وجہ سے ہمیشہ مشہور رہی ہیں۔ برہمن کے ہاں قیام کے دوران فیضی برہمن کی اکلوتی بیٹی کے عشق میں گرفتار ہو گیا۔ بوڑھا برہمن نوجوان جوڑے کی باہمی محبت پر بہت خوش تھا اور اس نے فیضی کو اپنی بیٹی سے شادی کی پیشکش بھی کر دی۔
فیضی بوڑھے برہمن کی محبت دیکھ کر احساسِ ندامت میں مبتلا ہو گیا اور ایک دن اس نے اپنے محسن کو اپنی حقیقت بتا دی۔
برہمن اسے برا بھلا کہے بغیر خاموش رہا لیکن اس نے خنجر تلاش کیا اور اسے اپنی شہ رگ پر رکھ دیا۔ فیضی نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے اور درخواست کی کہ وہ ا پنی جان لینے کی بجائے اس کی معافی کا کوئی راستہ بتائے۔
برہمن نے فیضی سے کہا کہ اگر وہ معافی کا طلب گار ہے تو اسے دو کام کر نے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ وہ کبھی ویدوں کا ترجمہ نہیں کرے گا، اور دوسرا یہ کہ ہندو عقائد کو کسی کے سامنے کبھی نہیں کھولے گا۔ فیضی نے دوسرا وعدہ پورا کیا یا نہیں، کوئی نہیں جانتا لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ اس نے ویدوں کا کوئی ترجمہ نہیں کیا۔
اس واقعے کے بعد اکبر نے ہندو دھرم کا بے حد احترام کرنا شروع کر دیا۔ جس سے تنگ نظروں کو اس حد تک تکلیف پہنچی کہ وہ اسے ہندو کہنے لگے لیکن کشادہ نگاہ مسلمان اچھی طرح جانتے تھے کہ اکبر مذہبی تعصبات سے آزاد ہے۔
ہندوستانی اپنے مذہب کو راز کیوں رکھنا چاہتے تھے؟ الیگزینڈر اس کا مختصر مگر جامع جواب دیتا ہے۔ اس کے نزدیک ہندوستانی ہر سچے مذہب کو نجات کا راستہ سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک معاشرے کے ہر فرد کا مذہبی یا پھر جنگ جُو ہو جانا معاشرتی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے قدیم ہندوستانی معاشرے میں مذہب اور جنگ مخصوص طبقات کے میدان رہے۔ جسے بعد میں ذات پات کا نظام کہا گیا وہ در اصل انتظام تھا کہ مذہب، سیاست اور جنگ و جدل کو ایک دُوسرے سے الگ رکھا جائے۔ اگر تقسیم کو اس مثبت زاویے سے دیکھا جائے تو ہندوستان کو دُنیا کا قدیم ترین سیکولر خطہ کہا جاسکتا ہے۔
کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب ’’فیلڈز آف بلڈ‘‘ (2015) میں بر صغیر میں مذہب، جنگ اور کار و بار کے لیے ذاتیں اور طبقات مخصوص کرنے کے انتظام کو عین الیگزینڈر کی آنکھ سے دیکھتی ہیں اور اسے ایک بزرگ تہذیب کا انتہائی دانش مندانہ عمل قرار دیتی ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی لکھتی ہیں کہ معاشرے میں امن و ہم آہنگی قائم رکھنے کے لیے بنائے گئے ان اصولوں سے مفاد پرستوں نے ذات پات کا نظام اخذ کر لیا۔
الیگزینڈر کہتا ہے کہ مقدس کتب کے تراجم سے انکار کی حکمت یہ ہے کہ ہندوستانی مفکروں کے نزدیک ایک خطے کا مذہب دُوسرے خطے کے لوگوں کے لیے اس قدر با معنی نہیں ہو سکتا جتنا کہ مقامی لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ لوگ مختلف ہیں اس لیے مذاہب بھی مختلف ہیں۔ جیسے ایک علاقے کا پھل دار پودا دُوسرے علاقے میں اگایا جائے تو پھل کا ذائقہ متاثر ہوتا ہے؛ ویسے ہی ایک خطے کا مذہب دُوسرے خطے میں اپنی حلاوت اور تاثیر کھو کر تشدد کو جنم دے سکتا ہے۔ کسی خطے پر کسی دُوسرے خطے کا مذہب نہیں تھوپا جا سکتا لیکن باہمی اثر و نفوذ سے مذاہب ایک دُوسرے کا رنگ قبول کرنے لگتے ہیں۔ الیگزینڈر کہتا ہے کہ اسی بنا پر مقامی لوگ مذہب پھیلانے کے لیے کسی دُوسرے خطے پر کبھی حملہ آور نہیں ہوئے۔
گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد شٹاکوا یونیورسٹی امریکہ میں لیکچرز کی ایک سیریز ’’مذہب کیا ہے‘‘ کا انعقاد کیا گیا، اس میں دنیا بھر کے مذہبی ماہرین جمع ہوئے تو کیرن آرمسٹرانگ نے بر صغیر کے قدیم مذہبی مفکرین اور رشیوں سے یہی اصول سیکھنے پر زور دیا (یہ تمام لیکچرز شٹاکوا یونیورسٹی کی ویب سائٹ اور گریٹ لیکچرز ڈاٹ کام پر دستیاب ہیں۔)
الیگزینڈر اس کے بعد ہندوستانی رسوم و رواج پر بات کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مقامی لوگوں کے ہاں آٹھ قریبی رشتہ داروں میں شادیاں کرنے کا حکم نہیں ہے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ قریبی رشتہ داروں سے شادیاں خاندانی بُری عادات اگلی نسل میں منتقل کر دیتی ہیں۔ یہ لوگ کثیر الازواجی کی اجازت دیتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک صحت مند دل و دماغ رکھنے والا مرد بنیادی طور پر یک زوج ہوتا ہے اور اس کے لیے ایک ہی بیوی کافی ہے۔
الیگزینڈر بد نامِ زمانہ سَتّی کی رسم پر بھی بات کرتا ہے۔ ہندوستانی معاشرے کی سب سے بھیانک رسم ”ستی“ کی رسم ہے جس کے خلاف آج کے روشن نظر ہندو بَر سرِ پیکار ہیں۔ اس رسم کے مطابق خاوند کی مو ت کے بعد بیوی کو بھی، عروسی لباس میں، زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ تاہم اس رسم کا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اسے کبھی مذہبی فریضہ سمجھا گیا ہے؛ لیکن مغرب میں ہم نے ہندوؤں کو وحشی ثابت کر نے کے لیے اسے ایک نہا یت طاقت ور دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ وحشیانہ رسم بھی، بہت سی دوسری رسومات کی طرح، بیمار ذہنوں کی اختراع ہے۔ ویدوں میں ایک مقام پر یہ کہا گیا ہے کہ ”اپنے خاوند سے محبت کرنے والی عورت جو اس کی موت پر جیتے جی مر جاتی ہے، اُسے اگلی زندگی میں ایک بار پھر اُس کے محبوب خاوند کی محبت ملتی ہے۔“ یہ بات محبت کرنے والی عورت کو خاوند کی موت کے بعد زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے کہی گئی تھی لیکن ایک بادشاہ نے وزیر کے مشورے سے اس سے جاہلانہ اور ظالمانہ رسم کا جواز پیدا کر لیا ہے۔
یہ رسم کیسے شروع ہوئی؟ الیگزینڈر اس کا جواب کچھ یوں دیتا ہے:
ایک روایت کے مطابق یہ رسم کسی دور میں پیدا ہونے والے ایک معاشرتی مسئلے کے حل کے طور پر شروع ہوئی اور وہ مسئلہ یہ تھا کہ ہندوستانی خواتین نے خاوندوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر انہیں قتل کرنا شروع کر دیا تو ایک شہنشاہ نے اپنے زیرک وزیر کے مشور ے سے ستی کی وحشیانہ رسم کا آغاز کیا اور یوں عورتوں نے موت کے خوف سے خاوندوں کے قتل سے توبہ کر لی۔
(جاری ہے)
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.