ایلن، پائیپر اور آسکر
از، سرفراز سخی
پکزار اسٹو ڈیو (Pixar Studio) سے کم و بیش ایک میل ایمیری ول کلیفورنیا (Emeryville California) میں اک پُر سکون ساحلِ سمندر ہے جہاں اکثر انیمیٹر ایلن باریلارو (Animator Alan Barillaro) دنیا کے جھمیلوں سے بچ بچا کر قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے یا یوں کہہ لیں کہ قدرت سے ملنے کے لیے جاتا رہتا ہے۔
تین سال قبل اسی ساحلِ سمندر پر چہل قدمی کرتے ہوئے، باریلارو کے ذہن میں اک ایسے خیال نے جنم لیا، جو کہ پکزار کے کیے جانے والے نئے کاموں میں سب سے عمدہ ہے، اور وہ خیال پائیپر (Piper) ہے۔
چھ منٹ کی اس مختصر فلم، جس نے 89 ویں اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب میں، 26 فروری 2017 کو موج مستی و آرام والے دن یعنی بروزِ اتوار، اپنے فن کارانہ، تکنیکی اور خوبیوں سے لبریز پہلوؤں کے باعث، بیسٹ شارٹ اینیمیٹڈ (best short animated) وہ ایوارڈ جیتا جو ہر سال اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹ اینڈ سائنس کی طرف سے دیا جاتا ہے، جسے آسکر (Oscar) کہتے ہیں۔
باریلارو نے ساحلِ سمندر پر چہل قدمی کے دوران یہ غور کیا کےسینڈرلنگس (Sanderlings) لہر کو آتا دیکھ اس سے بچنے کے لیے اپنا اپنا کھانا چھوڑ جلدی جلدی پیچھے کو دوڑ رہے ہیں، اور جوں ہی انہیں لگ رہا ہے کہ اب کوئی خطرہ نہیں، وہ جاتی لہر کے سنگ سنگ واپس کھانے کو پلٹ جار ہےہیں، ان ننھے ننھے پرندوں کے کھیل کی دھن باریلارو کو آشفتہ سر کر دے گی اس بات سے وہ خود بھی بے خبر تھا۔
ایسا دیوانوں کے ساتھ میرا مطلب ہے کہ تخلیقی لوگوں کے ساتھ اکثر ہی ہوتا ہے، اور اس طرح باریلارو کے دماغ میں جلتے برقی قمقمے فیوز ہوتے ہیں، جس کے باعث اس خیال کا جنم ہوتا ہے۔ خیال کے ملتے ہی مصنف نے جس خوبی کے ساتھ اپنی تخلیقی عمل کی بدولت اس کی ساج سجاوٹ کر کے اس کی جو شکل و صورت بدل اک مدعا دیا۔ تو مصنف کے اندر کا نقاد بھی بے ساختہ داد دیتے ہوئے، میر سے معذرت کرتے ہوئے تھوڑے سے فرق کے ساتھ گویا ہوا کہ:
ہم ہوئے، تم ہوئے، کہ میر ہوئے
اس کہانی کے سب اسیر ہوئے
نقاد افسانوی ہے اور افسانے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
کہانی کا پیغام “اپنے خوف پر سبقت لانا ہے۔” دیکھنے میں اس فقرے کا قد چند ہی الفاظ پر مبنی ہے، لیکن اس جملے کی معنی ہیں بے حد وسیع۔ یہاں خوف کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے، بغیر دنگل کے اسے پچھاڑنا ہے جو کہ کوئی مخول بات نہیں۔ ننھے ریت سُریلے جس کا نام مصنف نے مووی کے نام پر پائیپر ہی رکھا ہے، اس کی ماتے چاہتی ہیں کہ اس کا بچہ یعنی پائیپر گھونسلے سے نکل ساحل پر پہنچ غول کے ساتھ مل کر اپنا کھانا خود کھوجے اور کھائے، اور اس خود کھوجنے کے اندر ہی ساری گُتھیاں رکھی گئی ہیں، اور خود اعتمادی گُھتیوں کی کنجی۔
باریلارو نے اس مختصر سی فلم میں بھوک کو کنایتاً ہمت، ماتے کو راہ نما اور چھوٹے ہرمٹ کیکڑوں کو تقویت کی صورت جس خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے، یہ سب کچھ بغور و انہمناک سے دیکھنے والا ہے۔
اب چُوں کہ مصنف ایک اینیمیٹر (animator) بھی ٹھہرا تو خیال کو برقی جلا بخشنے (animate) کی خواہش باریلارو کے خانۂِ دل میں تڑپی، اور یوں بات آتش زیرِ پا والی ہوئی۔ یعنی خیال کو متانت و سنجیدگی کے ساتھ اپنے اوپر اک خواب کی صورت طاری کیا گیا، اور اس کی تعبیر کی تلاش کے لیے حقیقت کے میدان میں جستجو کے مضطرب گھوڑے دوڑا دیے۔
باریلارو اوراس کے گروہ نے کئی ہفتے بے ایریا کے ساحلوں پہ پل تلے گرد سے اٹی سڑکوں پہ پرندے ڈھونڈتے گزارے ، اور ہمیشہ ایک دوسرے سے موبائل فون کے ذریعے رابطے میں رہے، جہاں جسے پرندوں کا کوئی غول نظر آتا وہ دوسرے کو اطلاع کرتا، باریلارو کہتا ہے “یہ سب کچھ جیسے ایک خزانے کی تلاش کی طرح تھا” پرندوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنا، ان کے اسکیچ بنانا، تصاویر لینا، یہاں تک کہ کچھ باریک اور چھوٹی چیزوں کو سمجھنے کے لیے میکرو فوٹو گرافی بھی کی گئی, تا کہ ان اشیاء کی اصلی صورت کو بخوبی بنایا اور سبجیکٹ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے طُول و عرض کو بہتر و تفصیلاً سمجھا جا سکے۔
بایلارو کہتا ہے “میں نے ایک بار اینیمیٹر سے پرندے کا سر نفی کے انداز میں ہلانے کو کہا جس طرح ہم انسان کرتے ہیں۔ میں داد دوں گا جان کے اس نوٹ کی جس میں اس نے مجھے یہ لکھا کہ “میں جانتا ہوں یہ مشکل ہے، مگر تم اپنے خیالات کے باعث کچھ منفرد انداز اختراع کر سکتے ہو۔”
ہماری بھرپور کوشش یہ تھی کہ اس کہانی کو کسی بھی صورت خواصِ بٙشٙری سے متصف نہ کیا جائے، یہ سارا کام اس لیے سر انجام دیا گیا کہ خیال کو خوب صورت طریقے سے جلا بخشی (animate) جا سکے۔
باریلارو جو کہ ۱۸ سال کی عمر سےاب تلک پکزار اسٹوڈیو پر زیرِ ملازمت ہے، اور جو اسٹوڈیو کی ہر سطح پر کام کر چکا، اس کے با وجود باریلارو اور اس کے گروہ کو “پانی”، “ریت” اور “پر” ان تین عناصر کو اینیمیٹ کرنے میں بے انتہا تکنیکی پیچیدگیاں در پیش آئیں، باریلارو کی بھرپور کوشش یہ تھی کہ مووی میں نظر آتی ہر شے اصل لگے، اور وہ ایسا کرنے کے لیے پکزار اینیمیشن ٹیکنالوجی کو جہاں تک لے جا سکتا تھا لے گیا۔
مزید و متعلقہ: موریشس کا ساحل از، آبیناز جان علی
پائیپر میں ہر پرندے کے پروں کی تعداد ۴۵ تا ۷۰ لاکھ تک کی ہے اور ان کا بخوبی خیال رکھا گیا ہے کیوں کہ یہ ان کی زبان کی طرح ہیں، جن کی بدولت وہ اپنی مختلف کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں، اور ریت کے ذرے گنتی سے بہت آگے کی بات ہیں، جس محویت کے ساتھ اک اک شے کی گہرائی میں اتر اسے سمجھ بنایا گیا ہے یہ سب بیان سے باہر ہے، اسے بس دیکھا جا سکتا ہے۔
آسکر فقط سونے اور کئی دھاتوں سے مل کر بنے ایک مجسمے کا نام نہیں ہے، آسکر اک باریک بینی و نفاست کا نام ہے، یہ مشق و مُزاوَلَت اور وسیع مشاہدہ کاری کا حاصل ہے، یہ اَبلقِ ایام کی کاوش و جستجو کا متبسم نغمہ ہے، تو حضرات غالب نے ازراہِ تفنن یہ سخن نہ فرمائے تھے کہ:
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا