الحان (صوتی شاعری) از سعادت سعید
نعیم بیگ
گزشتہ دنوں عالمی ادب پر منعقد کئے گئے انجمن ترقی پسند مصنفین کے پانچویں اجلاس منعقدہ پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ، جہاں مجھے بھی ایک مضمون پڑھنا تھا، میری محترم دوست ڈاکٹر سعادت سعید سے ملاقات ہوئی ۔ گو اجلاس کی گہما گہمی میں ان سے کچھ زیادہ گفتگو تو نہ ہو پائی البتہ سعادت سعید بھائی نے ہاتھ پکڑی دو عدد کتابیں مجھے تھمائیں۔ یہ انکی تازہ ترین کتابیں ہیں، جو مکتبہ نسیم 33 لاج روڈ لاہور نے شائع کی ہیں ۔
پہلی کتاب “الحان” کے عنوان سے انکی صوتی شاعری (نظم ) کا مجموعہ ہے ۔ اس پر ایک مختصر تاثراتی جائزہ پیش خدمت ہے۔ دوسرے مجموعے ” من ہرن” کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
ء میری مٹھی میں آبِ خواب خاکِ آرزو تو ہے
مگر موسم ابھی نخلِ دعا ہونے نہیں دیتے
(بیرم غوری)
سعادت سعید کے منظوم کلام میں ایک طرف جہاں فطرت اپنے وجود کے امکان کو روشن کرتی ہے وہیں انکے شعور کی آنکھ میں ابن آدم کی وحشت کا خوف بھی رقصاں ہے۔ اسی لیے انھوں نے روح کے زخموں کو سر اور لحن سے مندمل کرنے کی کوشش میں “الحان” کو جنم دیا۔
اس مجموعے کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی دلکشا نغمہ ، گیت ، کوئی حقیقی مسرتوں میں ڈوبی ہوئی آواز، کسی آدرش کے زیر اثر بنائی گئی جنت کے وجود کا احساس دلاتی ہے، جہاں سب کچھ موجود لیکن معدوم ہے۔ ہجر و فراق ، ناآسودگی و تلخی حیات اور بے اعتباری کیفیات روح کے گھاؤ کو اتنا گہرا کر دیتے ہیں کہ خود فراموشی در آتی ہے۔
وہ اس نظمیہ مجموعے کے پیش لفظ ” ادبی تخلیق اور بشریاتی بھنور” میں خود کلامی کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ ” تخلیق ادب کو بعض سطحیت پسند نظریہ سازوں نے اطمینان قلب کی بازیابی کا وسیلہ جانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ادبی اظہار ادب کے داخلی بحران کا خاتم ہے۔ فنی تخلیق کا صفحہ قرطاس پر آراستہ ہونا، ان کے لیے فاضل ہیجانات کی لفظی نکاسی ہے۔ یعنی جب سینہ جذبات سے معمور ہو جائے اور اس میں مزید گنجائش نہ رہے تو اس میں موجود مواد کا چھلکنا، بہہ نکلنا اور خارج ہونا لازم ہے۔ اس قسم کا نظریہ تخلیق کو وجود کا مذملہ تو بنا سکتا ہے، وجود کا اظہار نہیں۔ اسے ہمیں ادب کا نظریہ حوائج ضروری قرار دینے میں کوئی باک نہیں۔ “
سعادت سعید کی فکری اساس میں یہ منظر نامہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے حقیقی زندگی کسی سراب یا کسی روحانی طسلم کدہ میں رکھ کر نہیں دیکھا اور غالباً انھیں ان سہاروں کی ضرورت بھی نہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ حقیقت کا فریب ہی اتنا جاذب نظر ہوتا ہے کہ وہ کسی سمت دیکھنے ہی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ سعادت سعید اس تھکا دینے والی چکا چوند حقیقت میں بھی پوری تازگی ، بشاشت اور لہجے کے کھرے پن کو لے کر آگے بڑھے ہیں ۔
موت میں منقلب ہوتی تمنا کے آخری نقش ( از الحان)
ـــــــ
میرے بعد میری کہانی کے کتبے
محلوں ، مکانوں، دریچوں پہ آویزاں کرنا
ہوا بند معبد سے باہر نکل کے
مرے خون میں ڈوبے
مرے گردآلود لفظوں کے پیراہنوں سے
قتلیوں کے چہرے پر سہرے سجانا!
یہ کہنا
” زمین کی سیا بخت مٹی
تمنا کی روئیدگی سے منزہ ہوئی “
زمانے کی صد چاک آنکھیں
ہوس کی بصیرت سے معمور
بکھری ہواؤں میں آئینہ بن کے دمکنے لگیں
مری خواہشوں کے سیاہ کار تابوت
اس کی کہانی کی عبرت سے محفوظ، اب تک
کسی غار میں دفن ہیں
جس میں ، اس کی تمنا
ہوا بن کےداخل ہوئی اور خلابن گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی ان کا فہم و ادراک ہے کہ سعادت سعید، مجید امجد کی نظم “نیلے تالاب” کے ایک مصرعے کی سیاق و سباق
۔ ۔ ۔ ۔
” اے رے شہر ابد کے واٹر ورکس کے رکھیا،
دلوں کی صد رخ نلکی میں اپنی سطحیں ہموار نہ رکھ سکنے والے سب پانی،
سارے مقدس پانی
کس طرح تیرے نیلے تالابوں میں آکر یک سو ہو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ “
کے مدنظر کہتے ہیں “سو دلوں کی صد رخی نلکی میں اپنی سطحیں ہموار نہ رکھ سکنے والے سبھی پانیوں کا ان کے ابدی انجام سے قبل جائزہ لینا فنکاروں اور شاعروں کے لیے از بس ضروری ہے، ورنہ یوں لگے گا کہ زندہ ہوتے ہوئے ان کے اندر کسی انفرادی لحن نے جنم نہیں لیا۔ وہ لحن جو ” اپنے دلوں کی صد رخ نلکی میں” اپنی سطحیں ہموار نہ رکھ سکنے والی بہتی آوازوں کو گرفت میں لیتا ہے۔ ناہمواریوں کو چیلنج کرتا ہے اور اپنی ناہمواری کے جوہر تک پہنچ کر محبت کے نیلے تالابوں کی خبر دیتا ہے۔”