علی اکبر ناطق کے افسانوں پر ایک نظر – خط لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ ہو
از، ابو بکر
پچھلے دنوں گاؤں جانا ہوا تو شاہ محمد کا ٹانگہ ساتھ لیا۔ سالم تانگے کا سفر شرفا کی عادات میں شامل رہا ہے۔ تاہم نہ شاہ محمد رہا نہ وہ شرفا رہے۔ زمانہ جتنی تیزی سے گزرنے لگا سفر اتنے ہی طویل ہوتے گئے۔ تانگے ریس سے نکل گئے۔ تو عرض یہ ہے کہ مجھے بھی بس ہی پکڑنا پڑی۔ شاہ محمد کا ٹانگہ علی اکبر ناطق کے افسانوں کی کتاب ہے۔ شرمیلے قارئین اسے شاہ محمد کا تانگہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ مجموعہ پہلے نظر سے نہ گزرا تھا۔ ناطق صاحب کی کچھ شاعری اور قائم دین سے چند افسانے پڑھ رکھے تھے۔ ارادہ کیا کہ افسانوں کی یہ دو کتابیں قدرے تحمل سے دیکھی جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا۔ باقی رہ گیا نولکھی کوٹھی ناول، تو اس بابت منصوبہ یہ ہے کہ مرفی ذرا قد نکال لے تب پڑھوں گا۔ ان دنوں فرصتِ حقیقی کا کال پڑا ہے۔
بعض کوتاہ مغز میرے متعلق یہ عجیب چرچا کرتے ہیں کہ میں ناطق کا خدانخواستہ کوئی روایتی یا غیر روایتی مخالف ہوں۔ یہ تاثر قطعی غلط ہے اور میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ ناطق ایک مقبول مصنف ہیں اور اس مقبولیت کے ادبی و غیرادبی پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کو مخالفت کا نام دینا مناسب نہیں۔ نیز واقف حال قارئین جانتے ہیں کہ میں اپنے موضوعات سے کہیں پیچیدہ لیکن راست تعلق کا قائل رہا ہوں۔
ناطق بطور افسانہ نگار بلیک ہول جیسی شے ہے جس کی شدت قیامت خیز (کہ قاری کو ایک بار تو نگل لے)لیکن پھیلاؤ ناپید۔ آپ ان کے افسانے پڑھیں تو ربع صدی قبل کے دہقانی پنجاب کے رنگ اپنی چمک دمک کی بہار دکھاتے نظر آئیں گے۔ چونکہ میں خود بھی ‘گرائیں’ ہوں سو ان رنگوں کی لطافت بہتر محسوس کرسکتا ہوں۔ مزید برآں ناطق اپنی اس کوشش میں بھی کامیاب رہا ہے کہ اس نے دیہی ثقافت کو شہری قارئین کے لیے بھی ایک تصویر کی صورت کھینچ دیا ہے جس کے اسٹروک کسی قصہ گو کی مہارت کا نشاں دیتے ہیں۔ شہری قارئین یوں بھی گیلریوں کی جمالیات کے اسیر رہتے ہیں۔ دور دراز دیہاتوں کی ایسی پراسرار پہ جاذب نظر تصویریں انہیں مسحور کردیتی ہیں۔ ناطق کی ان داستانوی تصویروں میں وحدت بھی ہے اور تسلسل بھی۔ بعض اوقات تو یہ وحدت متسلسل محسوس ہوتی ہے۔ ایک کے بعد ایک کہانی مابعد تقسیم کے بارڈر پاس بسے دیہاتوں کے درمیان سفرمعلوم ہوتی ہے۔ ناطق باری باری ان دیہاتوں اور قصبوں میں رکتا اور قاری کو ایک قصہ سناتا جاتا ہے۔ ناسٹیلجیا ناطق کی تمام کہانیوں (دیہی کہانیاں) کا مزاج ہے۔ ماضی قریب کے پنجابی دیہات ، اس کے کردار، اقدار اور ان کے درمیان گزرتے واقعات۔ کہانیوں کی زبان رواں اور سلیس ہے۔ متعدد مقامات پر مقامی الفاظ اور لوک اشعار بھی روانی سے برتے گئے ہیں اور قاری اس دیہی زبان کا زندہ لطف بھی لیتا ہے۔ زبان اور بیان کا ساتھ تمام کہانیوں میں بڑا ہموار ہے۔ بیان قصہ اور کہانی ہے اور زبان سادہ تاکہ قاری محسوس کرسکے کہ داستان گو سامنے بیٹھا یہ کہانیاں سنا رہا ہے۔ واضح رہے کہ بیان جس قدر گہرا ہوگا زبان اتنی ہی پیچدار ہوتی جائے گی اور الفاظ کا کرتب یعنی ورڈ پلے کے تخلیقی امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ اہم بات یہ کہ ان میں سے اکثر کہانیاں گہری نہیں ہیں۔جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ میں خود بھی ایک دیہاتی ہوں اور مجھے چوپال، دارے اور بیٹھکوں پر’ گویڑیوں’ کے قصوں کا بھی تجربہ ہے پس میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ وہی قصے ہیں جو اردو میں خوبصورتی سے لکھ دئیے گئے ہیں۔ اب چونکہ کچھ اچھی کہانیاں بھی خال خال نظر آتی ہیں سو ناطق کی کہانیاں ایسی ہیں کہ منفرد نظر آئیں۔ لیکن یہ کہانیاں اپنی شدت کے باوجود محدود ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔
اولین وجہ تو بیشتر کہانیوں میں بین السطور شدید ناسٹیلجیا ہے جس نے کہانی کی بقیہ جہات پر زمانوں کی گرد چڑھا دی ہے۔ پھر اکثر کہانیوں میں یہ ناسٹیلجیا جامد ہے یعنی ماضی قریب کے پنجابی دیہات کی ایک بند کہانی ہے۔ لیکن یہ گاؤں اب بہت بدل گیا ہے اور اس کے موجودہ کردار خود کو نئی اور اجنبی کیفیات میں گھر ا پاتے ہیں۔ ان کرداروں کو اقدار کے نئے بحرانوں کا سامنا ہے جو ان کے آباء کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ ناطق کی اکثر کہانیاں اس بدلے ہوئے گاؤں اور اس کے باسیوں پر خاموش ہیں۔جہاں جہاں ان کا ذکر بھی ہوا ہے وہاں بدلاؤ کی کوئی توجیہہ کوئی تصویر موجود نہیں۔ نیز ایسی کہانیوں میں قاری کو ایک جھٹکے میں ہی اڑھائی تین دہائیوں سے گزار کر زمانہ حال میں کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ پھر ناسٹیلجیا کے مزاج کے عین مطابق ان کہانیوں میں جدید فرد پر ندامت اور دکھ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ وہی جدید فرد ہے جس کا کوئی وکیل نہیں۔ قصہ گو تو اس فرد سے دانستہ طور دور رہتے ہیں۔ قصہ گوئی میں ماضی پرستی ایک تخلیقی اصول ہے لیکن اصل فن قصے کو امروز میں داخل کرنا ہے۔ ایسا کرنا بعض اوقات قصہ گو کی اپنی قربانی مانگتا ہے۔ ایک کہانی ‘جیرے کی روانگی’ میں یہی صورتحال ہے اور بلاشبہ وہ زبردست کہانی ہے۔ لیکن ناطق خود جیرا نہیں ہے۔ وہ ایسا قصہ گو ہے جو مسلسل کہانی سنانے کی چاہ میں اس قربانی سے گریز کرتا ہے جو دراصل قصہ گو کو عظیم بناتی ہے۔ ناطق کی کہانیاں گزرے ہوئے پنجاب کی روایتیں ہیں اور ان میں سے اکثر آج کے مسائل کو براہ راست موضوع نہیں بناتیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پنجاب کی دیہی ثقافت میں پچھلی دو دہائیوں میں اس قدر شدید اور تیز تبدیلی آئی ہے کہ ابھی پہلی نسل نےصرف یاد رفتہ میں آنسو بہانا یا ہنس کر وقت گزارنا سیکھا ہے۔ ناطق اسی نسل کا کہانی گو ہے جس نے ماضی کے آئینے میں ابھی اتنی گہرائی سے نہیں دیکھا کہ اسے اپنی شبیہ اجنبی محسوس ہو۔ ناطق ماضی کی مانوس صورتوں کی محفل ہے جس کے کسی فرد کو یہ معلوم نہیں کہ برخواستی کے بعد واپس جاتے ہوئے اسے تنہائی میں کن سوالوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ‘قائم دین’ اسی رنگ کی وہ منفرد کہانی ہے جو کسی قدر مختلف ہے یعنی اس میں ناسٹیلجیا سطحی نہیں ہے اگرچہ محدود ہے۔ دیہی احوال کی کہانیوں کی تعداد زیادہ ہے اور ان کہانیوں کا ماحول تقریباً یکساں۔
جدید احوال کی کہانیاں مثلا نسلیں، سیاہ ٹھپا، حاجی ابراہیم میں اگرچہ کیفیات بدلی ہوئی اور عہدحاضر سے ہیں لیکن مصنف انہیں صرف فریم کرنے کی حد تک قابو کرتا ہے۔ یہ رجحان دراصل ہردو قسم کی کہانیوں میں ہے۔ بلکہ قائم دین کے دیباچے میں مصنف اقرار کرتا ہے کہ انہوں نے کسی بھی قسم کے نظریے یا فلسفے سے قطع نظر حقیقی زندگی کی چلتی پھرتی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تصویر کے جامد یا متحرک ہونے کی بات اوپر ہوچکی ہے۔ یہاں دوسری بات یعنی ‘ تصویر کو فریم کی حد تک’ پکڑنے کی کوشش کو دیکھنا ہوگا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب آپ زندگی کو صرف اس سطح تک دیکھیں جس سے کہانی کی صورت بن جائے۔ ہر مصنف مجبور ہے کہ زندگی کو جہاں نظری سطح پر دیکھے وہیں یہ کہ وہ فلسفہ حیات سے واقف ہو تاکہ انفرادی احوال سے وہ رمز پکڑ سکے جو تمام انسانوں کی ہیومن کنڈیشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ ناطق کے ہاں یہ پہلو قریباً مفقود ہے۔ آپ ان کی کہانیاں پڑھ کر نہایت لطف لیں گے اور کسی فلم کی طرح وہ کہانی کچھ دیر آپ کے دماغ میں چلتی تصویروں کی طرح گھومتی رہے گی لیکن اس داستانوی حظ سے قطع نظر یہ کہانیاں آپ کو زندگی کے بنیادی سوالات اور انسانی کیفیات کی پیچیدہ اور متصادم صورتوں تک کم ہی لے جائیں گی۔ میں نے جب یہ تاثر ایک دوست سے بیان کیا تو انہوں نے ایک کمال کا نکتہ بتایا جس سے یہ بات کھل کر واضح ہوجاتی ہے۔ فرمانے لگے آپ ناطق کی دس کہانیوں سے شاید دس اقوال (کوٹیشنز) بھی نشان زد نہ کرسکیں۔ یہ بات نہایت اہم ہے اور زبان و بیان دونوں کے باب میں ایک خاص غربت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ان کہانیوں کی زبان سلیس اور رواں ہے کیونکہ ان کا موضوع پلین اور متسلسل ہے۔ لیکن ان کہانیوں کی زبان پیچدار اور گہری نہیں ہے کیونکہ بیان کی معنوی پرتیں محدود رہ گئی ہیں جو صرف اسی وقت پنپ سکتی ہیں جب مصنف کا مشاہدہ گہرا ہو اور وہ ایک ہی کیفیت کو کئی جہات اور احوال میں دیکھ رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ عظیم کہانی کاروں کی نثر سے جا بجا ایسے اقوال کشید کرسکتے ہیں جو اپنے آپ میں ایک مکمل معنوی اکائی ہوتے ہیں۔ فلسفہ سے عاری کوئی فکشن عظیم نہیں کہلا سکتا۔
ان کہانیوں میں اس کی وجہ صرف وہی ہے کہ مصنف قصہ گو کی طرح ایک مسلسل کہانی سنا رہا ہے جس کا صرف تاثر باقی رہتا ہے۔
قصہ گوئی کی تکنیک ان کہانیوں کی بنیاد ہے۔ تقریباً تمام کہانیاں اسی رنگ میں ہیں۔ اس سے جہاں تاثر کی منتقلی آسان ہوئی ہے وہاں یہ خرابی پیدا ہوگئی کہ قصہ گو اپنے کرداروں پر غالب آتا محسوس ہوتا ہے۔ اکثر کہانیوں میں کرداروں کی وجودی تشکیل تشنہ رہ گئی ہے کیونکہ کہانی سنانے والا ناصرف جلدی میں ہے بلکہ اس کا مدعا اپنا فن دکھانا زیادہ ہے اور کرداروں کا حال کم۔ چنانچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک ایک کر کے کئی کردار اینٹوں کی طرح باری باری لائے جاتے ہیں تاکہ مکمل دیوار کی تعمیر نظر آسکے۔ اس حالت میں اکثر اینٹیں تغافل کا گلہ کرتی نظر آتی ہیں۔
پھر کرداروں کی رینج نہایت محدود ہے اور ان میں ایک کمی تو پہلی نظر میں سامنے آتی ہے۔ ان کہانیوں میں عورت کا مضبوط اور متشکل کردار کہیں نظر نہیں آتا۔ بعض کہانیوں میں اگر چلمن کے پیچھے سے کوئی عورت دکھائی بھی دیتی ہے تو محض اس معرفت کہ یہ فلاں صاحب کی بیوی، بیٹی یا رکھیل ہے۔ عورت کہیں مرکزی کردار نہیں ہے اور یہ بات حیران کن ہے کیونکہ یہ کہانیاں جس پنجاب سے متعلق ہیں اس کی عورت آج کی پنجابی عورت کے مقابلے میں عملی طور کہیں فعال اور اہم تھی؛ اور دیہی علاقوں میں تو یہ بات اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ناطق کی کہانیاں اسی دیہی ماحول کی کہانیاں ہیں لیکن چونکہ یہ کہانیاں چوپال کی منظم روایتیں ہیں پس اس کے موضوعات ازحد مردانہ رہ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ عورت اور مرد کی محبت دکھائی بھی گئی تو دور سے۔ البتہ کئی کہانیوں میں اس کی نسبت ہم جنس پرستی کا بہت بہتر اظہار موجود ہے۔
موضوعات کی یکسانیت، کرداروں کی رینج اور شدت میں کمی ، وضاحتی اور سادہ ناسٹیلجیا جو اپنے جمود میں احوال کو متحرک اور بدلتے ہوئی شکل میں نہیں دیکھتا، ان عناصر کی وجہ یہ کہانیاں ایک حد سے آگے نہیں گزر سکتیں۔اس پر نظری مشاہدہ کی گہرائی و گیرائی سے پہلوتہی اور فلسفہ حیات کے ترک سے ان کہانیوں میں تکنیک کی رنگانگی اور تخیل کی شدت بھی نہیں ہے۔ احساس کے ایک خاص توارد کا شبہ ہوتا ہے۔
انیس ناگی نے انور سجاد کے افسانوی مجموعے ‘ چوراہا’ پر تاثرات لکھتے ہوئے اس وقت کے افسانوں میں یکسانیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بجا طور پر کہا تھا کہ آج کا افسانہ غزل بن گیا ہے۔( اب سننے میں آیا ہے کہ ناطق صاحب کی غزلوں کی کتاب بھی آگئی ہے اور بعض تبصرے جو نظر سے گزرے ان میں یہی مرقوم ہے کہ ان غزلیات میں پنجابی دیہاتی ثقافت کے رنگ ، بولیاں وغیرہ وغیرہ نمایاں ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔)۔
ناگیؔ نے اردو افسانون کے متعلق ایک اور بات یہاں بہت اہم لکھی ہے جس کا تعلق براہ راست اس گفتگو سے ہے؛
” افسانہ نویسوں کے پاس محبت اور جنس کے قصوں کے علاوہ اور کچھ نہیں رہا۔ زندگی کے بطن میں جو تغیرات جنم لے رہے ہیں۔ بین الاقوامی انسان کی شبیہ جو رنگ بدل رہی ہے، ان سے اردو کے افسانہ نگار اور نقاد دونوں بے خبر ہیں یا تشخیص کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ علم سے دونوں کو چڑ ہے اور آگاہی ان کے لیے گالی ہے۔ ان کے نزدیک کہانی کچے جذبات کا اظہار اور یادِ رفتگاں کو قلم بند کرنے کا حسین بہانہ ہے۔ لیکن یہ حسین بہانوں کا دور نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ انسانوں کا مقدر ایک نئے چوراہے پر ہے جہاں وہ ظاہر و باطن کے الجھتے ہوئے گتھم گتھا راستوں اور مختلف نظام ہائے زندگی میں گھرا ہے ”
گفتگو طویل ہوئی جاتی ہے۔ ناطق کی کہانیوں کے اسی دیہی مرکزی پہلو سے موازنے کے لیے میرے ذہن میں تھا کہ اسد فاطمی کی اسی رنگ کی کہانیوں سے ایک تقابلی جائزہ بھی پیش کیا جاتا۔ اسد نے یہ کہانیاں چند سال قبل لالٹین میگزین میں ‘ریگمال’ کے نام سے ایک سلسلے کی شکل میں لکھی تھیں۔ دیہی ماحول کی کہانیوں کا یہ سلسلہ شاید مکمل نہ ہوسکا تاہم چار بہترین کہانیاں ایسی ضرور آ گئیں کہ بے دھڑک موازنہ کے لیے رکھ سکوں۔ تاہم خوف طوالت سے فی الوقت یہ ممکن نہیں۔ اس سلسلے کا لنک دے رہا ہوں۔ جن احباب نے ناطق صاحب کی کہانیاں پڑھ رکھی ہیں وہ ذرا یہ بھی پڑھیں۔