عالمی سطح پر جنونیت کیا گل کھلا رہی ہے
کشور ناہید
جرمنی کے حالیہ انتخابات میں 13 فی صد ووٹ نیونازیوں کو پڑے ہیں۔ یہ بالکل لاہور کے انتخابات کا عکس ہیں۔ خوف یہ ہے کہ یورپ میں نیونازی اور پاکستان میں داعش کے جھنڈے لگنے کا مسئلہ سنگین ہے۔ اُدھر افغانستان میں اور انڈیا میں امریکی نمائندے نے تینوں ملکوں پر بات چیت کرنے پر زور دیا ہے۔ اب تو تینوں ممالک تھوڑا تھوڑا سچ بھی بولنے لگے ہیں۔ انڈیا کے سیاست دان بھی بول اُٹھے ہیں کہ کشمیر کے جھگڑے کے 27 سالوں میں 41 ہزار لوگ مارے گئے ہیں۔ اُدھر پاکستان کے کچھ لوگوں نے بھی یہ تذکرہ شروع کیا ہے کہ آخر سیاچن اور سرکریک کے مسئلے کو انا کا مسئلہ کیوں بنایا گیا ہے۔
اب پھر سردیاں آرہی ہیں۔ پچھلے برس سو سے اوپر فوجی جوان گلیشیئر کے نیچے دب گئے تھے۔ ویسے بھی دونوں ملکوں میں جذباتیت زیادہ ہے اور عقل کی بات کم کی جاتی ہے۔ ہم دونوں ممالک اپنے جوانوں کو بچانے کے لیے اپنی اپنی سرحدوں پر واپس ہوجائیں تو مت سوچیں کہ مسائل حل ہوگئے ہیں۔ دریاؤں پر ڈیم بنانے کے جھگڑوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زلزلوں اور طوفانوں کے مسائل بھی تو ہم دونوں ملکوں کی غربت کو کم ہونے نہیں دے رہے۔
شکر ہے خواجہ آصف نے پہلی مرتبہ جنگی جنونیوں کو ختم کرنے کی بات کی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے نئے الیکشن سے پہلے ہماری سیاسی دونوں طرف کی پارٹیوں کو کشمیر، سرکریک اور سیاچن کے مسائل کو حل کرنے کی آپس میں بیٹھ کر کوشش کرنی چاہیے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب ہماری پارٹیاں اپنے منشور میں اس جنونیت کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔
ستر برس سے جنگی الفاظ کے عوض معصوم اور نہتے کشمیری مارے جارہے ہیں۔ منفی 50 ڈگری کے موسم میں سیاچن پر جوان مررہے ہیں۔ آخرکیوں۔ یہ بات بھی سارے سیاست دان مانتے ہیں کہ لڑائی کے ذریعے، یہ دونوں ملک تو کیا، امریکہ بھی شمالی کوریا پر حملہ نہیں کرسکا ہے۔ ہم ہر روز نئے سے نئے مسائل اٹھانے میں خودکفیل ہیں۔ عتیقہ اوڈھو کا مسئلہ ہو کہ ماہرہ خان کا۔ بھلا ہو فارغ بیٹھے فیس بک والوں کا بے لگام بے نکتہ باتیں کیے جارہے ہیں۔ کسی نے نہیں سوچا کہ ہمارا مالیاتی شعبہ کتنا کمزور ہوگیا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مشعل اوباما نے جو فنڈز مریم نواز کو دیے تھے۔ اس کا حاصل کیا ہے۔ سوائے ان صفحہ بھر اشتہاروں کے جو معلوم نہیں، اخباروں کو پیسہ دینے کے، کسی اور کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔
سیاچن ہی کو لیں۔ یہ دنیا کا تیسرا بڑا گلیشیئر ہے جوانوں کو آکسیجن بھی صرف 30 فی صد ملتی ہے۔ یقین کریں دونوں ملکوں کے لوگ اس فضول جنگ سے تنگ آگئے ہیں۔ یہ ذہنی بیماری اُدھر ہندو ذہنوں کو پراگندہ کررہی ہے، دوسری طرف داعش کو بڑی قوتیں ہی بڑھاوا دے رہی ہیں۔ بدنصیب کشمیری، کردش لوگوں کی طرح سیاست کا شکار ہیں۔ یہی حال یمن اور شام کا بھی ہے۔
کاش یہ میڈیا، دونوں ملکوں میں نہ ہوتا تو لوگ جنونی گفتگو سننے سے محفوظ رہتے۔ اس وقت بھی نا، نا کہتے ہوئے بھی دونوں ملکوں کے درمیان انڈرہینڈ تجارت ڈھائی ارب روپے کی ہورہی ہے۔
عورتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہندوستانی ساڑھیاں خرید رہی ہیں۔ اُدھر ہندوستان میں پاکستانی سوٹوں کی فرمائش آتی ہے۔ البتہ غیرت اجازت نہیں دیتی کہ انڈیا کے ٹماٹر یا پھر کوئٹہ کے ٹماٹر منگوا کر اس مصنوعی مہنگائی کو ختم کردیں۔ ہم ہندوستانی فلمیں دیکھیں گے مگر ہندوستانی ٹماٹر نہیں کھائیں گے۔ ہندو گائے کا گوشت نہیں کھائیں گے جبکہ میں نے بچپن میں ابا کے ہندو دوستوں کو فرمائش کرکے کوفتے، کباب کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہندوستان میں ہر شہر میں بغیر کسی تخصیص کے ہم سب دوست مل کر کھاتے ہیں۔
یہ نیا شوشہ مودی صاحب نے ایسا چھوڑا ہے کہ پھر ہندو پانی، مسلمان پانی ہونے لگا اور بڑھتا جارہا ہے۔ اور تو اور انڈیا کہہ رہا ہے کہ مغلوں کی تاریخ ہماری نہیں۔ اُسے نصاب سے نکال دیا جائے۔ ہم تو پہلے ہی طے کرچکے ہیں کہ محمد بن قاسم کے آنے سے اسلام پھیلا۔ یہ بالکل نہیں بتایا جاتا کہ آخر اس نے کیا کہا تھا کہ اس کو بکرے کی کھال میں سی کر واپس بھیجا گیا تھا۔ آخر ہمیں معلوم تاریخ اور آثار قدیمہ کو یوں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
ہمارے ملک میں ایک فتنہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا سر اٹھا لیتا ہے۔ کراچی میں برقعہ پوش اور بے پردہ، دونوں طرح کی عورتوں پر چاقو سے وار کیے جارہے ہیں کہ یوں عورتیں گھروں سے نکلنا اور کام پر جانا چھوڑ دیں۔
سعودی عرب میں بڑی بات کی گئی ہے کہ جون 2018 سے عورتیں گاڑی چلاسکیں گی۔ شکرہے کچھ تو سنبھلے مگر دبئی والوں کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ مریخ کی نقل کا علاقہ بناسکیں تو ذرا ٹھہر جائیں کچھ فنڈز پاکستان کے تعلیم و صحت کے شعبوں کو دے دیں۔ یہ تو سچ ہے کہ ہم کھا جاتے ہیں۔ جعلی گردہ آپریشن کرکے افغانیوں سے لاکھوں روپے لیتے ہیں۔ اس وقت تو یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ پانچویں جماعت تک پڑھنے والے بچوں کو کتاب یا املا پڑھنا ہی نہیں آتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بچوں کو اپنی علاقائی زبان میں نہیں اردو میں تعلیم دی جاتی ہے۔ بچے نصاب رٹ لیتے ہیں، پڑھ نہیں سکتے۔
ویسے تو کہنا نہیں چاہیے۔ مگر زبان پرآئی بات رکتی بھی نہیں اسمبلی میں زندگی میں شاید پہلی دفعہ مولانا فضل الرحمان نے شعر پڑھا جواباً مشاہداللہ خان نے بھی شعر پڑھا۔ بھیا کیا دونوں شعروں میں زلف اور ابرو کا تیکھا پن بیان کیا گیا تھا۔ مجھے اجمل خٹک اور قاضی صاحب یاد آگئے ان دونوں کو آج کے شعرا، خاص کر فراز کا کلام بھی یاد ہوتا تھا۔ پیپلزپارٹی میں تو اچھے شعر پڑھنے والے اور سمجھنے والے کئی ایک ہیں۔ میں شیری رحمان کو کہوں گی کہ بلاول کو بھی شعر سمجھنا سکھادیں۔ یوں پاکستان کے مسائل کو اور بھی اچھی طرح سمجھ کر، زبانی تقریر کیا کریں گے۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ