(تنویر احمد تہامی)
آزادئ اظہار انسانی معاشروں کی بنیادی ضرورت ہے۔ جب یہ ضرورت پوری نہ ہو تو پورے معاشرے میں گھٹن کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ جب سوال کی اجازت نہ ہو اور اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہے تو معاشرتی ترقی بھی ساکن ہو جاتی ہے۔ انسانی تہذیب آج جس مقام پر کھڑی ہے یہاں پہنچنے کیلئے صدیوں کا سفر طے ہوا ہے۔ ان گنت تجربات و مشاہدات کے دیپ جلے ہیں۔ پتھر کے دور سے ڈیجیٹل دور کا راستہ کئی داستانیں سنتے سناتے طے ہوا ہے۔ انہی تجربات، مشاہدات اور داستانوں کے نتائج کو سامنے رکھ کر ہر دور میں انسانی ترقی اور معاشروں کی بقا کیلئے قوانین وضع ہوتے آئے ہیں۔ ان قوانین میں کچھ اصولی حیثیت رکھتے ہیں جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں جبکہ دیگر دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر وضع ہوتے ہیں جو تغیروتبدل کے زیرِاثر رہتے ہیں۔
سلمان حیدر کی گمشدگی کے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفانِ بے ہنگم امڈ آیا ہے۔ ایک ٹولا ان کی گمشدگی پر سراپا احتجاج ہے تو دوسرا گروہ بغلیں بجا رہا ہے۔ ایسے میں جہاں ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھتا ہے وہیں عوام الناس کی اخلاقی اور شعوری اقدار بھی سوال کی زد میں آتی ہیں۔
سلمان حیدر پر الزام لگ رہا ہے کہ موصوف سوشل میڈیا پر بھینسا نامی پیج چلا رہے تھے. اس پیج پر کچھ بات کر لینا مناسب معلوم پڑتا ہے. ہماری بات چلی تھی آزادئ اظہار سے۔ بھینسا کا بھی یہی مؤقف تھا کہ مجھے آزادئ اظہار کا حق حاصل ہے اور اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے اس نے جو دل میں آیا وہ لکھا. سوالات اٹھائے، الزامات بھی لگائے اور مزہب کے خلاف خوب بھڑاس نکالی۔ ان سوالات کے جواب میں اہلیانِ اسلام کا عمومی رویہ بھی کسی وضاحت کا محتاج نہیں ہے۔ یہاں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں، پہلا یہ کہ کیا آزادئ اظہار کے نام پہ کچھ بھی کہہ دینا اور دوسرے انسانوں کے جذبات کو روند ڈالنا درست ہے؟ خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں جہاں کے لوگ اپنے مذہب کے مرکز سے بھی زیادہ مذہبی ہیں، وہاں ان کے مذہب کا تمسخر اڑانا اور مذہبی شخصیات پر براہِ راست جملے کسنا درست ہے؟
بات یہ ہے کہ آزادئ اظہار کی بھی کچھ حدود متعین ہونی چاہیئں۔ بغیر حد کے آزادی انسانی معاشروں میں نہیں جنگل میں پائی جاتی ہے. انہی حدود کو قوانین کہا جاتا ہے جو صدیوں کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں طے پاتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذہب اتنی مقدس شے ہے جو کسی دلیل کا محتاج نہیں؟ جس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا؟ اور اگر کوئی عقلی سوال اٹھائے تو بجائے اس کا جواب دینے کے جو رویہ اہلیانِ اسلام عموماً اختیار کرتے ہیں کیا وہ قابلِ اعتراض نہیں؟
جہاں دلیل ختم ہوتی ہے وہاں گالی جنم لیتی ہے یہی انسانی فطرت ہے۔ جس طرح مذہب کو گالی دینا غلط ہے ویسے ہی مذہب پر سوال اٹھانے کی پابندی لگانا بھی قابلِ مذمت ہے۔ مذہب نمائندوں کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ اکیسویں صدی میں دلیل کے بغیر کام نہیں چلنے کا۔
اب آتے ہیں سلمان حیدر پہ۔ موصوف کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی گمشدگی کے پیچھے ریاستی اداروں کا ہاتھ ہے۔ یہ کوئی پختہ خبر نہیں صرف گمان ہے۔ یہ بھی ممکن ہے اس کے پیچھے کسی اور گروہ کا ہاتھ ہو۔ اس صورت میں بھی ریاست پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے شہری کی حفاظت کیلئے اقدامات کرے۔ مگر ریاستی اداروں کا ماضی میں چال چلن دیکھتے ہوئے اس گمان پر یقین کرنے کو دل چاہتا ہے کہ ہو نہ ہو یہ انہی اداروں کی کاروائی ہو سکتی ہے (یہ میری ذاتی رائے ہے)۔ اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو یقیناً یہ انتہائی قابلِ مذمت فعل ہے۔ اولاً تو یہ بھی ثابت نہیں کہ سلمان حیدر ہی بھینسا کے کرتا دھرتا تھے، اور اگر ثابت ہو بھی جائے تب بھی ماورائے عدالت ان کی گمشدگی ایک مجرمانہ عمل ہے۔ اگر انہوں نے ریاستی قانون کی کسی طور خلاف ورزی کی ہے تو بازپرس بھی قانونی طریقے سے ہی ہونی چاہیے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ریاست ہو یا عوام الناس، قانون کی پابندی سب پر لازم ہے۔ اور شدت پسندی چاہے مذہب کے نام پر ہو یا سیکولرازم کے نام پر، انسانی معاشرے کیلئے حد درجہ نقصان دہ ہے۔ اعتدال کا راستہ ہی نجات کا راستہ ہے۔
انتہا پسندانہ روئیے ہمارے مذاجوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگر ایک طرف دائیں بازو کی قوتیں اپنے عقائد کو دوسروں پر مسلط کر کے اپنے فرقے کا تعویذ بانٹ رہی ہیں تو دوسری طرف بائیں بازو کی قوتیں مذہب پسندی کو دقیانوسی، رجعت پسندی قرار دیتی ہیں اور مذہب مخالفت میں حدیں پھلانگتی دکھائی دیتی ہیں۔ انتہا پسندی قوموں کی اجتماعی زندگی کو اجیرن بنا دیتی ہے یہ انتہا پسندی دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی۔۔۔۔