علامہ اقبال کے کلام میں پنجابی کرداروں کا سوال ، پنجابی مسلمان اور حلقہ 120 کے نتائج
از، تنویر ملک
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
(ضربِ کلیم علامہ محمد اقبال)
ضربِ کلیم میں لکھی گئی اقبال کی اس نظم سے تحریر کا آغازاس لیے کیا کہ میں مقصد تحریر کو ابتدا ہی میں واضح کر سکوں ۔ میری اس تحریر کا مقصد کسی قوم کی دل آزاری نہیں بلکہ علمی اور منطقی انداز سے حضرت علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں مجموعی سیاسی بصیرت کا ایک جائزہ پیش کرنا ہے۔ بات کو مختصر رکھتے ہوئے کچھ پسِ منظر بیان کرنا چاہوں گا۔ اس نظم کی طرف آگے جاکر واپس آئیں گے۔
تقریباً ڈھائی سال قبل میں نے ریڈیو پاکستان سے آ ہنگ اقبال کا آغاز کیا اور اس دوران اقبال کو سرسری علم سے بڑھ کر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ لاتعداد موضوعات، اقبال شناسی پر مشتمل کتب اورتاریخی حوالے، حقائق اور دلائل زیر بحث آئے۔ جہاں مجھ پہ اقبال کی شخصیت کے کئی نئے گوشے وا ہوئے وہیں اقبال کے حوالے سے روایتی مفروضوں سے ہٹ کر کچھ نئی جہتیں آشکار ہوئیں۔
اقبال نسلی اعتبار سے کشمیری برہمن تھے تاہم بعد ازاں پنجاب سیالکوٹ میں بُود و باش اورپھر لاہور میں رہائش و قیام کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان اور دھرتی کو اپنا کے اقبال لاہوری کہلائے۔ ان کا رہن سہن، لباس، زبان پنجابی قرار پائی یہاں تک کہ اقبال کا کشمیری آہستہ آہستہ پنجاب کےسپُوت میں ڈھل گیا۔ اس عظیم فلسفی کے آبا واجداد کا مسکن پنجاب ہی ٹھہرا اور آج اگر مقبول تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال کو سرزمین پنجاب کا فرزند اور فخر ہی سمجھا جاتا ہے۔
آپ سب احباب سوچ رہے ہوں گے کے اقبال کا حلقہ 120 سے کیا تعلق بنتا ہے؟ ایک تو یہ تعلق بھی ہو سکتا ہے کہ اقبال کی رہائش گاہ اندرونِ شہر بازار حکیماں میں کسی دور میں رہی ہے جو اب قومی اسمبلی کے حلقہ 120 میں آتی ہے۔
تاہم میرا نکتہ کچھ مختلف ہے۔ پروگرام کے دوران تحقیق اور علمی جستجو میں کچھ سوالات میرے ذہن میں آئے جنہیں میں گاہے گاہے اپنے معزز مہمانانِ گرامی سے پوچھتا رہا؛ کچھ کے جواب ملے، کچھ کے نہیں نہیں۔ کچھ سوالات سرکاری مجبوری کی وجہ سے میں اٹھا نہ سکا۔
ان میں سےایک سوال یہ تھا کی علامہ اقبال جس دھرتی میں پیدا ہوئے وہاں بلھے شاہ، وارث شاہ ، میاں محمد بخش، سلطان باہو جیسی عظیم ہستیاں پیدا ہوئی ہیں۔ جنہوں نے پنجابی شاعری میں اعلی مقامات دریافت کِیے پنجابی شاعری کا بڑا اثاثہ صوفی کلام ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اقبال نے نے اپنی مادری زبان پنجابی میں شاعری نہیں کی؟
اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں اسباب کی کھوج میں میں نے مزید تحقیق شروع کی تو حیران ہوتا چلا گیا کہ عام بول چال میں دن رات پنجابی میں گُفت و شُنید کرنے والے اقبال نے ایک نظم یا غزل تو کیا ایک شعر بھی پنجابی زبان میں نہیں کہا اور نہ ہی کوئی نثر پنجابی میں لکھی ہے۔
ناقدین اقبال اس کا جواز یہ بیان کرتے ہیں چونکہ اقبال آگاہ تھے کے پنجابی شاعری پہلے ہی اتنے عظیم اور بڑے ناموں سے مزین ہے اس لیے آج کا کوئی بھی شاعر اس مقام کو چھو نہیں سکتا جو صوفی شعراء بنا گئے ہیں۔ ممکن ہے اقبال نے اس سوچ کے تناظر میں پنجابی شاعری نہ کی ہو لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کے اقبال کے بعد بیسویں صدی میں سب سے بڑے شاعر فیض احمد فیض جو پنجابی ہی تھے انہوں نے بھی کم از کم اپنی مادری زبان میں کئی نظمیں لکھیں ایک نظم ”رَبا سَچییا” تو معرکۃ الآراء پنجابی نظم ہے لیکن اقبال نے کیوں نہیں کچھ لکھا۔
ایک قسم کا نظریہ تو فیض بھی رکھتے تھے کچھ عرصہ تو اس دلیل میں وزن نظر آیا کہ اقبال کا پنجابی شاعری نہ کرنا بڑے پنجابی شُعَراء کی موجودگی ہےتاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پروگرام کے موضوعاتی تنوع کے تناظر میں مزید علمی پیش قدمی نے اس دلیل کو بھی کمزور ثابت کردیا۔
اس وقت جب میں نے ایک اور موضوع کی طرف بطور طالب علم قدم بڑھانا شروع کیا اور وہ موضوع تھا اقبال کے ہیروز۔ جیسے جیسے میں اس تحقیق میں کلام اقبال اور فلسفہ اقبال سے رہنمائی لیتا گیا مزید حیرت ہوئی ۔ حیرت کی بنیادی وجہ میرے پچھلے مخمصے کا اگلا پڑاؤ تھا۔ بنیادی طور پر اقبال کا ہیروایک اجتماعی خوبی رکھتا ہے اور وہ ہے خودی۔
اقبال کا پیمانہ خودی ہے جس کی بنیاد پر وہ مختلف مذاہب، اقوام اور جغرافیہ کے عظیم سپہ سالاروں کو ہیرو قرار دیتےہیں۔ اس مثال کے ساتھ اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو پڑھا جا سکتا ہے کہ پنجاب سے کتنے دانشور ، سپہ سالار، باغی سیاستدان اور مفکر اقبال کی فہرست میں جگہ بنا سکے۔
یہ تعداد بہت کم نظر آتی ہے اقبال کا ہیرو افغان محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری تو ہے، بار بار ان کا ذکر بھی کلام اقبال میں ملتا ہے، لیکن پنجابی سرزمین کے ہیروز دُلا بھٹی، نظام لوہار اور بھگت سنگھ کا ذکر نہیں ملتا۔ ہمیں شیکسپیئر کا ذکر ملتا ہے اور مارکس کے نام بھی نظمیں موجود ہیں، لینن کا بھی ذکر ہے جبکہ بلھے شاہ، وارث شاہ، میاں محمد بخش کا ذکر نہیں ملتا۔
پختون سرزمین کے خوشحال خان خٹک کو اقبال اپنا ہیرو مانتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب کی سرزمین سے تعلق رکھنے والا بھی کوئی جنگجو چاہے وہ نظام لوہار ہی ہو ان کی شاعری میں جگہ نہیں بنا پاتا۔
ایسا تو نہیں ہے کہ اقبال جیسا عمدہ مطالعہ کا حامل مفکر پنجاب کی سرزمین تعلق رکھنے والی شخصیات سے لاعلم ہوتو پھر ایسا کیوں ہے کے اقبال اپنے ہم زبانوں کو اس معیار پر پورا اترتا نہیں دیکھتے، اس کا جواب اقبال کی پنجابی مسلمان کے نام نظم سے بخوبی مل جاتا ہے۔ میرا نہیں خیال اس نظم کی اہلِ علم کو تشریح یا وضاحت کی کوئی خاص ضرورت ہے۔
بہرحال اقبال کے کلام میں یہ واحد نظم ہے جس میں اقبال پنجابی مسلمان سے مخاطب ہوئے ہیں اور یہ مخاطب ہونا بلوچ افغان ترک قوم سے مخاطب ہونے سے کافی مختلف ہے۔ اس نظم کے تناظر میں اقبال دیگر اقوام کے مقابلے میں پنجابی قوم کے اجتماعی شعور اور بصیرت کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں اور کچھ علمی معاملات کی طرف اشارہ کرتے ہیں یوں تو اقبال کے کلام میں مغلوں کا تذکرہ بھی بڑا معمولی ملتا ہے لیکن پنجاب کی علمی فکری اور حریت حمیت کے حوالے سے حثیت کو نظرانداز کرنا اتفاقی نہیں ہے۔
اقبال جہاندیدہ مستقبل شناس رہنما تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حکیم الامت کا اپنی قوم کی نبض پر ہاتھ نہ ہو۔ اپنی قوم سے مراد یہاں پنجابی قوم بھی ہےکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اقبال تو پنجاب میں نظر آتے ہیں، لیکن پنجاب اقبال میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اس مایوسی کا اظہار اقبال نے اپنی نظم میں بھی کیا۔
اقبال بطور پنجابی خود اپنی سرزمین سےعلمی و فکری طور پر ایک طرح سے لاتعلق رہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اقبال کی شاعری میں کسی پنجابی کا ذکر نہیں ملتا۔ بابا گورونانک کا ذکر ضرور ملتا ہے لیکن وہ جغرافیائی تناظر میں نہیں ملتا۔ اقبال خوشحال خان خٹک سے بہت متاثر تھے اور خوشحال خان وہ شاعر تھا جس نے پشتون قوم کے نعرے کا علم بلند رکھا اور جدوجہد کی تو پھر اقبال جیسا عظیم مفکر پنجابی قوم کے حوالے سے اپنا کچھ حصہ ہی مختص کر دیتا تاہم ایسا نہیں ہے۔
یہاں تک کہ اقبال نے اپنے آبا و اجداد کے سابقہ خطے کا حق بھی ادا کیا۔ میرا اشارہ کشمیر کی طرف ہے اقبال نے ملا زادہ ضیغم لولابی کے عنوان سے کئی نظمیں اہلیان کشمیر کی نذر کردیں مگر اپنی موجودہ جنم بھومی، زبان اور خطہِ پنجاب کو پیش بھی کی تو ایک تنقیدی نظم۔
ممکن ہے میری اس رائے سے کئی صاحبان علم اختلاف کریں۔ یہ صرف ایک بحث کا آغاز ہے تمام تر حقائق کی روشنی میں ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے اقبال کسی قوم یا قبیلے سے نفرت کرتے ہیں یا کسی کی خوبیوں کے معترف نہیں یا ان کے اندر کوئی تعصب ہے بلکہ اقبال تاریخ کی ان شخصیات میں سے ہیں جن کا فلسفہ صرف اور صرف انسانیت ہے وہ کم از کم روایتی رویوں سے بالاتر ہیں۔
تو سوال وہیں ہے کہ کیا وجہ ہے کے اقبال کے ہاں پنجابیت ہمیں نظر نہیں آ تی؟ شاید ایک علمی اور فکری منطق یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اقبال کے ہاں سیاسی بیداری، علمی بلندی اور حمیت کا معیار یا میرٹ بہت سخت ہے۔ جس پر اقبال کو اہلیانِ پنجاب اس وقت پورا اترتے نظر نہیں آئے۔ پنجابی ہونے کے باوجود اقبال نے اپنا ترازو انصاف کے مطابق رکھا اور مختلف قوموں کو ان کے معیار کے مطابق بیان کیا؟
جب ہم یہ کہتے ہیں کے اقبال کے آئیڈیلز کی فہرست میں بابا گرو نانک کے علاوہ کسی اور پنجابی کو ہیرو کا درجہ نہیں ملتا تو یہ تو یہ کوئی تعصب یا الزام نہیں تاریخی حقیقت ہے۔
بلاشبہ تحریک پاکستان اور تکمیل پاکستان کے لیے پنجاب کی قربانیوں اور جدوجہد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس وقت کے پنجابی مفکروں اور سیاسی رہنماؤں کے قد پہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے لیکن پاکستان بننے کے بعد جس طرح پنجاب کی فکری اور سیاسی بلوغت پر زوال آیا اور جس طرح کا فلسفہِ طاقت پنجاب میں پروان چڑھا اور یہ طاقت اسٹیبلشمنٹ اوربالادستی کی صورت میں سامنے آئی۔ اس تبدیلی نے کئی مسائل پیدا کِیے۔
پنجابی نفسیات تیزی سے اقدار سے اقتدار کے حصول کی طرف منتقل ہوئی۔ یہ صرف پنجابی اشرافیہ ہی کی سوچ نہ رہی بلکہ عام پنجابی حب الوطنی ، مذہب، اور دیگر نعروں کی لپیٹ میں آ کر اپنا سیاسی اور فکری مقام گِروی رکھ بیٹھا۔ یہ بھی نکتہ جواب طلب ہے کے وطن عزیز میں جب بھی جمہوری اداروں پر شب خون مار کر کوئی بھی آمر آیا تو اس کو سب سے زیادہ پنجاب ہی سے تائید ملی اور یہ المیہ تاریخ کا حصہ ہے کہ جب بھی ایک اور ادارے عدلیہ پر چڑھائی کی گئی تو پنجاب سبقت لے گیا۔ ایک قانون دان اور اینٹی برٹش اِمپیئریئلسٹ اقبال کی قوم پنجابی بعد از اقبال، پاکستانی اِمپریئلزم کا حصہ بن کر قانون شکنی کی بھی تحریک کا حصہ بنتی رہی اور بن رہی ہے۔
میری رائے میں اگر اقبال زندہ ہوتے تو ان کی مزاحمتی شاعری کا رخ پنجابی اسٹبلشمنٹ کی طرف ہوتا۔ اقبال کو پنجاب کی حدود میں قید کرنا ایک جذباتی کوشش تو ہو سکتی ہے مگر منطقی نہیں۔ اس مختصر سے جائزے کےبعد یہ معاملہ توطے ہے۔ اب اگر اقبال کے پنجاب کی موجودہ صورتحال دیکھی جائے تو بات سمجھ آ جاتی ہے۔
اقبال کی نظم سے اب تک کچھ فرق یہ آیا ہے کہ تب اس خطے کی رہنمائی کے لیےاس قوم کے پاس جناح صاحب اور علامہ اقبال تھے اور آج تو وہ بھی نہیں ہیں۔ معاشی، عددی، سیاسی اور سیکیورٹی میں برتری کا حامل یہ صوبہ سیاسی زوال کا شکار ہے۔ جس کی سزا بنگلادیش بننے کے بعد دوسرے چھوٹے صوبے بھگت رہے ہیں۔
کسی وابستگی کے بغیر یا کسی خاص لیڈر، پارٹی اور نظریے کی حمایت کیے بغیر موجودہ ضمنی انتخابات جو کہ حلقہ 120 میں ہوئے۔ جس میں مقابلہ دو جماعتوں کا نہیں بصیرت اور شعور کا تھا، یہ دیکھنا مقصود تھا کہ اقبال نے ایک صدی قبل پنجابی مسلمان کے نام جو نظم لکھی تھی اور جو کچھ بیان کیا تھا، آج کا پنجابی مسلمان کچھ آگے بڑھ پایا کہ نہیں؟ تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہیں۔
اقبال نے بطور پنجابی مفکر، پنجابی میں شاعری کیوں نہیں کی اور پنجاب کی شخصیات ان کی فہرست میں زیادہ کیوں نہیں ہیں اس کا جواب تو بہت طویل اور الگ کالم کا متقاضی ہے یہ بحث بھی الگ سے ہو سکتی ہے کہ اقبال کا مردِ مومن، مردِ کوہستانی، مردِ صحرائی، جغرافیائی حدود و قیود سے آزاد اور مبرا ہے۔
بہرحال دھرتی سے محبت اور تعلق کسی بھی آفاقی مفکر کا فطری حق ہوتاجو وہ ادا کرتا ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو اقبال محض مسلم اُمہ کے ہی رہنما نہیں بلکہ پنجابی سر زمین کے سپوت بھی ہیں، لیکن جب ہم بطور پنجابی مفکر اقبال کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ذہن کو وسعت دینی پڑتی ہیں۔
راقم محض اقبالیات کا طالب علم ہے اور ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میری رائے تنقید سے بالاتر ہے، تاہم کچھ حقائق ہیں جن سے پہلو تہی منطقی طور پر ممکن نہیں۔ اس لیے میں کچھ سوالات اہل علم و رائے کی خدمت میں رکھ رہا ہوں۔
اقبال نے پنجابی زبان میں شاعری کیوں نہیں کی نہیں کی؟
اس خطہ کے نابغےکیوں اقبال کے قلم کے مستحق نہیں ٹھہرے؟
ان سوالات کے کئی جوابات ہو سکتے ہیں مگر جیسا کہ عرض کیا کہ ریڈیو پروگرام ”آہنگِ اقبال” کی ضرورت تحقیق تھی جو مجھ نالائق کو بار بار اکساتی رہی اور پھر اس ضمنی سوال نے جنم لیا۔ اقبال کے ہیروز کی ایک طویل فہرست جس میں تُرک بھی تھے عرب بھی تھے افغان بھی تھے اور اہل فارس بھی تھے کیونکہ مجھے حلقہ 120 کی طرف ابھی آنا ہے اس لیے تفصیلاً ذکر طویل ہو جائے گا لہٰذا اختصار سے آگے بڑھتے ہوئے محمود غزنوی، شہاب الدین غوری روہیلا، مارکس، شیکسپیئر، نطشے، مسولینی، حافظ، فردوسی اور مزید ایسے نام جن کا خطہِ پنجاب سے کوئی تعلق نہیں، نظر آتے ہیں۔ مقامی شخصیات کم ہیں لیکن خیر آگے بڑھتے ہیں۔
موجودہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے ہمیں مدد ملتی ہے کہ اقبال کا معیار بڑا سخت رہا۔ ان کے ہاں پشتون خوشحال خان توجگہ بنا سکا، لیکن پنجابی بھگت سنگھ نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بھگت سنگھ، نظام لوہار، عبداللہ بھٹی کسی زاویے سے کم حیثیت رکھتے ہیں یا ان کی قربانی یا جد وجہد کسی طرح بھی تاریخ فراموش کرسکتی ہے۔ بلاشبہ اقبال کے علاوہ سینکڑوں پنجابی وغیر پنجابی دانشور ان کو ہیرو قرار دیتے ہیں۔ راقم صرف اقبال کی مجموعی فکر کی روشنی میں پنجابی ہونے کے باوجود ان کے پنجاب سے صرفِ نظر یا شعوری عدم دلچسپی کی طرف شارہ کرنا چاہ رہا ہے۔
کیا وجوہات وہی تو نہیں جو اقبال اپنی نظم میں بیان کر چکے؟ بہتر جواب اہل علم ودانش ہی تلاش کر سکتے ہیں، مگر مجھے میرے سوالات کے جوابات موجودہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے ملے۔ اب تک پنجابی دانشور بلوچ پشتون،اور اہلِ سندھ کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ اقوام ظالم کرپٹ سرداروں نوابوں وڈیروں کو بار بار ووٹ دیتی ہیں اور ان کی غلامی کا شکار ہیں اور یہ بھی کہا جاتا رہا کہ دیگر صوبوں میں پسماندگی کی ایک بڑی وجہ قوم پرستی کا ووٹ ہے۔
اب یہی سوال اہلیانِ پنجاب سے متعلق صاحبان علم و دانش سے پوچھا جا سکتا ہے کہ زیادہ خواندگی عقل و شعور اور بہتر معیار زندگی رکھنے والا پنجابی ووٹر، کیا اور صوبوں کی عوام سے مختلف ہے؟ کیا قوم پرستی یہاں نظر نہیں آئی؟ میرے نزدیک اہلیانِ پنجاب کو پھر سے اقبال کی یہ نظم بغور پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ پڑھنا نہیں چاہتے تو بوڑھے بلوچ کی نصیحت کو پڑھ لیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ نظم بلوچ جفاکشی، غیرت اور حمیت کے حوالے سے ہے تاہم اچھی بات کہیں سے بھی سیکھی جا سکتی ہے۔
ان انتخابات میں سوال یہ نہیں تھا کہ کون کس پارٹی سے ہے؟ سوال یہ تھا قانون کی بالادستی ہونی چاہیے کہ نہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کا جواب اقبال کی نظم کے عین مطابق آیا۔ اب اس کے بعد محققین، اقبال شناسوں اور طالب علموں کے لیے اس سوال کے جواب کی کھوج لگانا مشکل نہیں کہ اقبال کے ہاں پنجا بیت اتنی کم کیوں ملتی ہے؟
پنجاب گذشتہ 70 سالوں سے قومی سیاست کا مرکز رہا ہے اور یہیں سےمسند اقتدار پر لوگ جاتے رہے ہیں۔ دیگر اقوام کے مقدر کا فیصلہ بھی یہیں سے ہوتا رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے اکثریت کے بجائے اہلیت پرفیصلہ کیا جائے کم از کم دیگر چھوٹی قوموں اور صوبوں کو پنجاب کے ووٹر کی ستم ظریفی پر مزید نہ چھوڑا جائے۔
متناسب نمائندگی ہی مسئلے کا حل ہے ورنہ 140 نشستیں دیگر تین صوبوں کی 10 کروڑ عوام کا استحصال کرتی رہیں گی۔ جس سے پنجاب کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوگا ملک کو نقصان ہوگا۔ ووٹ شعور سے مشروط ہوگا تو اس کا تقدس بلند رہے گا۔ جن معاشروں میں مجرم کو کندھوں پر بٹھانے کا رواج پڑ جائے وہ معاشرے کبھی پاؤں پر کھڑے نہیں ہوتے۔
اقبال کے پنجابی مسلمان کو اب سوچنا ہی ہوگا کہ ارتقاء کی اس کیفیت کو کب اصولی راستے کی طرف موڑ کر اور روایتی نعروں سے نکل کے خود کو پاکستان میں بسنے والی دیگر اقوام کا مجرم جیسے القابات سے اوپر آنا ہوگا یہی اقبال کی فکر کا تقاضا ہے۔