علامہ سیماب اکبر آبادی اور بہادر شاہ ظفر: ’’دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
از، فرہاد احمد فگار
گزشتہ دو سال سے ہر صبح ایک شعر بذریعہ میسج اپنے موبائل فون پر موجود پانچ سو کے لگ بھگ دوستوں کو بھیجنے کی میری عادت بنی ہوئی ہے ۔یہ سلسلہ 2014ء میں شروع کیا اور دوستوں کے بے پناہ حوصلے کی وجہ سے اب تک جاری ہے ۔اس میسج میں اکثر اشعارَ اساتذہ کے ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھار کسی نوجوان دوست کا شعر بھی بھیج دیتا ہوں ۔شعر بھیجتے ہوئے میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ شعر مصدقہ ہو اور ایسا ہو جو کسی کی اصلاح کا باعث بھی بنے ۔اکثر میرے کسی شعر پر کچھ لوگ اعتراض بھی اٹھاتے ہیں اور حیران بھی ہوتے ہیں کہ یہ شعر تو یوں سنا تھا لیکن آج تو اس کا خالق بھی شعر کی ترکیب کے ساتھ بدل دیا گیا ۔میں ہمیشہ اس کوشش میں رہا کہ اعتراض اٹھانے والوں کی تشفی کروں اور الحمد اللہ اپنی اس سعی میں آج تک کامیاب بھی ٹھہرا۔
13جنوی 2016ء کو جب مجھے دنیا اخبار کا ایک کالم میرے بھائی ڈاکٹر حسنین نقوی نے بھیجا تو میں خوشی اور حیرانی کی ملی جلی کیفیت سے دو چار ہوا کیوں کہ ’’کچھ لوہارا ترکھانا‘‘ کے نام سے کالم میرے ہی ارسال کردہ بے خودؔ بد ایوانی کے ایک شعر کے حوالے سے لکھا گیا تھا اور لکھنے والے دور حاضر کے معروف غزل گو جناب ظفرؔ اقبال تھے ۔کالم کی ابتدا یوں کی گئی تھی۔
’’کسی صاحب نے ایک گم نام شاعر بے خودؔ بد ایوانی (1857-1912)کا یہ شعر میسج کیا ۔
دے کے مٹی میں مجھے غیروں سے کہا خوش ہو کر
خاک میں ملتے ہیں یوں خاک اڑانے والے
یوں اس کالم نے میرے حوصلے کو مزید تقویت دی اور میں اپنے کام میں مزید تاک ہو گیا ۔الغرض یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور آج مجھے یہ سب لکھنے پر مجبور کر رہا ہے ۔کیوں کہ آج میں نے جب اسی سلسلے کا ایک شعر بھیجا جو کہ یوں تھا
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
تو اعتراضات کا ایک سیلِ رواں میرے سامنے آگیا ۔کئی اعلیٰ ادبی شخصیات نے بھی اعتراض کیا کہ یہ شعر تو آخری مغل بادشاہ ،تاجدارِ ہندوستان بہادر شاہ ظفرؔ کا ہے ۔اکثر لوگوں نے ثبوت کے طور پر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ جماعت نہم کی اُردو کی کتاب کا حوالہ دیا کہ یہ پوری غزل وہاں موجود ہے ۔اعتراض اٹھانے والوں میں سے دو لوگوں نے باقاعدہ شرط لگائی کہ یہ تو سو فیصد بہادر شاہ ظفرؔ کا ہے لیکن میں نے ان کو ثبوت مہیا کیے جس کے بعد کچھ لوگ مطمئن نظر آئے لیکن بعض لوگوں نے ہٹ دھرمی اور جھوٹی انا کو تھامے رکھا اور نہ مانے ۔اس شعر کے حوالے سے مختصر اً عرض کر دوں کہ یہ شعر علامہ سیمابؔ اکبر آبادی ہے اور غلط طور پر بہار شاہ ظفرؔ سے منسوب کر دیا گیا ہے ۔بالکل ایسے ہی جس طرح ضرب المثل شعر
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عُقاب
یہ تو چلتی ہے مجھے اونچا اڑانے کے لیے
کو علامہ محمد اقبالؔ سے منسوب کیا جاتا ہے حالاں کہ یہ شعر علامہ اقبالؔ کا ہر گز نہیں اور محض ’’عُقاب‘‘ کی وجہ سے اقبالؔ سے جوڑ دیا گیا ہے ۔یہ شعر سید صادقؔ حسین کاظمی ایڈووکیٹ کا ہے جو کہ کشمیر سے تعلق رکھتے تھے اور ہجرت کر کے سیالکوٹ کی سابق تحصیل شکر گڑھ میں آباد ہو گئے تھے ۔صادقؔ حسین ایڈووکیٹ کی1977ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’برگِ سبز‘‘میں یہ پوری غزل موجود ہے ۔ ’’برگِ سبز‘‘ کا انتساب بھی شاعر نے ایسے ہی لوگوں کے نام کیا جنھوں نے اس شعر کو اقبال ؔ کے اسمِ گرامی سے منسوب کیا۔ یہ شعر اقبالؔ کا نہ ہونے کی ایک دوسری اہم وجہ وہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اقبالؔ کا شاہین ایک جوش و جذبے کی علامت ہے ۔اس کے ہاں خوف اور گھبراہٹ کُجا۔لیکن اس شعر میں واضح طور پر عُقاب تیز ہوا کے تھپیڑوں سے گھبرایا ہے ۔
بات ہو رہی تھی سیماب ؔ اکبر آبادی کے شعر کی تو اس کے لیے اتنا کہوں گا کہ سیمابؔ اکبر آبادی چوں کہ بہادر شاہ ظفرؔ کے بعد کے شاعر ہیں ۔1880ء میں اکبر آباد آگرہ میں تولد ہوئے ۔آپ نے بہادر شاہ ظفر کی زمین میں غزل کہی لیکن کسی شخص یا اشاعتی اِدارے نے قصداً ،سہواً یا شرارتاً اس شعر کو بہادر شاہ ظفرؔ کی غزل میں شامل کر دیا۔بہادر شاہ ظفرؔ کا کوئی بھی مستند کلیات اٹھا کر دیکھیں تو یہ شعر نہیں ملے گا ۔ہاں دیگر مندرجہ ذیل چھے اشعار ضرور موجود ہوں گے۔
لگتا نہیں ہے جی میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
بلبل کو پاسباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید تھی لکھی فصل بہار میں
کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغ دار میں
اک شاخِ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادماں
کانٹے بچھا دیے ہیں دلِ لالہ زار میں
دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پانوں سوئیں گے کنج مزار میں
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
(بہادر شاہ ظفر ؔ اور جنگ آزادی کے اولین مجاہد ص495،ڈاکٹر ودیا ساگر آنند)
1951ء میں کراچی شہر میں انتقال کرنے والے سیماب ؔ کی غزل جو بہادر شاہ ظفرؔ کی زمین میں ہے اس کے مجموعہ کلام ’’کلیم عجم ‘‘میں ہے جو دارالاشاعت قصر ادب ،آگرہ سے1936 ء میں طبع ہوئی ۔اس غزل کے باقی اشعار ملاحظہ ہوں ۔
شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں
میں پھول بن کے آؤں گا اب کی بہار میں
خلوت خیال یار سے ہے انتظار میں
آئیں فرشتے لے کے اجازت مزار میں
ہم کو تو جاگنا ہے ترے انتظار میں
آئی ہو جس کو نیند وہ سوئے مزار میں
اے درد ،دل کو چھیڑ کے پھر بار بار چھیڑ
ہے چھیڑ کا مزہ خلشِ بار بار میں
سو ڈرتا ہوں یہ تڑپ کے لحد کو الٹ نہ دے
ہاتھوں سے دل دبائے ہوئے ہوں مزار میں
تم نے تو ہاتھ جو روستم سے اٹھا لیا
اب کیا مزا ،رہا ستمِ روزگار میں
اے پردہ دار اب تو نکل آ حشر ہے
دنیا کھڑی ہوئی ہے ترے انتظار میں
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
سیمابؔ پھولی اگیں لحدِعندلیب سے
اتنی تو تازگی ہو ہوا ئے بہار میں
اس کے علاوہ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ بہادر شاہ ظفرؔ کے ساتھ منسوب شعر میں
’’عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن ‘‘ ہے
جب کہ سیماب ؔ کے اصلی شعر میں
’’عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن‘‘ ہے
اب رہا سوال اُردو کی نصابی کتب میں یہ شعر شامل ہے تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو اس کے مرتبین ہیں یاجو مجلس مشاورت میں شامل ہیں لیکن افسوس کے آج تک کسی کو اس بات کی زحمت تک گوارانہ ہوئی کہ دیکھ تو لے حقیقت کیا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ہاں تحقیق پر توجہ دی جائے ۔تحقیق ہی واحد ذریعہ ہے جو سچ اور جھوٹ میں فرق کرتا ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی ایسے لوگوں کو بٹھایا گیا جو تحقیق سے عاری ہیں اور بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اس اعتراف کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ میں بھی غلطی کر سکتا ہوں لیکن اپنی غلطی مان لینا بڑی بات ہوتی ہے ۔یہ الفاظ میرے پاس امانت تھے ۔پروفیسر حبیب گوہرؔ اور حسنؔ ظہیر راجا کا شکریہ کہ ان دو احباب نے مجھے تحریک دی اور حوصلہ بخشا کہ کچھ لکھنے کی سعی کر پایا ۔قارئین کی آرا کا منتظر رہوں گا۔
کچھ دن قبل پاکستان کے مشہور شاعر انور مسعود نے ایک شو میں اس شعر کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقبال کا نہیں ہو سکتا کیونکہ اقبال کا شاہین گھبراتا نہیں