علامہ طالب جوہری کی پہچان کا سوال
از، حسن افضال
اکیس اور ٢٢ جون کی درمیان شب علم کا پیاسا نہ رہا۔ وہ نہ رہا جس کے دَہن کے الفاظ لوگوں کی خواہشات اور ان کی روح کی پیاس بجھانے کا سبب ہوا کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا میں کون مرنا چاہتا ہے؟
مگر وہ ضرور مر جاتا ہے جس کے قدر دان اور اس کے احساس کو سمجھنے والے عنقا ہو جائیں اور اس کے وجدان کے وہ گوشے تلاش نہ کر پائیں، جن کی تراوٹ سے اس نے جینا سیکھا، دوسروں کو حوصلہ دیا اور علم کے وہ نفسانی اور اجمالی گوشے تلاش کیے جن کو اس کے چاہنے اور ماننے والے نہ سننا چاہتے تھے اور نہ ہی اسے سمجھنا چاہتے تھے۔
پھر وہ کس کے لیے زندہ رہتا، اس کا درست فیصلہ تھا کہ جب قدر اور علم اپنی منزلت بھول جائے تو بہتر ہے کہ ترکِ دنیا کر لیا جائے۔
کہتے ہیں کہ علامہ طالب جوہری کے انتقال سے پُر مغز اور اعلیٰ پایے کی خطابت کا ایک باب، ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ یہ عاجز اور کوئی بھی صاحبِ علم اس دلیل سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ طالب جوہری خود نہیں کھویے، بل کہ انھیں نہ سمجھنے والوں نے علامہ کو ہمیشہ کے لیے کھویا ہے۔ جب کہ راقم کے نزدیک طالب جوہری کی سماجی علم کی دست رس اور زندگی کی جمالیاتی کیفیت کے وہ رنگ جن کا فطری مَیلان ان کی طبیعت میں تھا۔
اب تک ہزار ہا افراد اس سے بے فکری سے بے خبر ہیں، یا وہ فرد کی زندگی کے فطری مَیلان میں اسے دیکھنے کے عادی نہیں۔ یہی عقیدت کا وہ منفی پہلو ہے جس نے ہم سے اب تک انتہائی دانش مند اذہان اور بھر پُور زندگی کے خواب چھین لیے ہیں۔
راقم کے نزدیک نزدیک طالب جوہری علم و فضل اور جمالیات کی وہ مرکب شخصیت ہیں کہ جن کی ذہانت کے صرف ایک گوشے سے واہ واہ کرنے والے واقف ہیں جب کہ ان کی علمی استعداد اور ان کے معاشرتی اور فنون و ادب کے علم سے اب تک زمانہ نا آشنا ہے۔
ہم عمومی طور پر مرنے والے کے دُکھ کو سمجھے بَہ غیر اس کی تدفین کا انتظام کر کے فرض سے سبک دوش ہونے کا جو انداز اپنائے ہوئے ہیں، اسے اب شاید بدلنا پڑے گا۔ وگر نہ ہم سماج میں آنے والی نسل کو علمی روشنی دینے کے بَہ جائے ان کو روایت کی بھٹی کا ایندھن بنا کر ایک ایسا ظلم کر رہے ہوں گے جو ہماری نسل کے جِہل پر منتج، بل کہ یزیدی عمل ہو گا۔
ہمارے روایت پرست سماج کا یہ المیہ ہے کہ ہم فرد کے سرمایہ دارانہ اور معاشرتی جوہر کو نظر میں رکھتے ہیں۔ جس میں اس کی خوش حالی اور طرزِ معاشرت پر نظر ہمارا اہم موضوع ہوتا ہے جب کہ اس کے باطنی احساس کی جُزئیات سے ہم بحث کو در خورِ اعتناء سمجھتے ہیں، یا انتہائی چابک دستی سے اس کی احساساتی کیفیات کو اس کی نجی زندگی سے تعبیر کر کے غیر جانب دار بننے کی کوشش میں خود کو نیکو کاروں کی فہرست میں شامل کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔
جب کہ دوسری جانب خود بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے احساسات کو کوئی سمجھنے، سننے اور اس پر غور کرنے والا ہو۔ کبھی سوچیں کہ یہ رویہ ہم سے نا جانے کتنے اہلِ دانش چھین کو جدا کر گیا ہے۔ جب کہ ہم ان کی زندگی اور علم کے ان زاویوں سے اب تک نا آشنا ہیں جو کہ واقعی موجودہ بے ترتیب سماج کی جمالیاتی اور سماجی ذہنی بیداری کا فریضہ ادا کر سکتے تھے۔
میرا یہ فخر ہے کہ علامہ صاحب کے والد مولانا محمد مصطفیٰ جوھر اور راقم کے والد مولانا افضال رضا، قریبی دوست تھے، اور میں نے گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں سِنہ ١٩٧١ سے سِنہ ١٩٧٤ تک علامہ صاحب کے علمی لیکچرز سے مسلسل استفادہ کرتا رہا۔
لیکچرز کے دوران جب علامہ صاحب اپنے مضمون اسلامیات پر لیکچر دیتے تھے تو اُس میں معاشیات، اخلاقیات، نفیسات، جمالیات، تاریخ، فلسفہ اور بعض دیگر سماجی علوم اس طرح سمو دیتے تھے کہ یہ علوم اسلامیات کا جزوی معلوم ہوتے تھے۔
علامہ صاحب دقیق موضوعات کو نہایت عام فہم انداز میں بیان کرنے میں ملکہ رکھتے تھے۔ ان کے لیکچرز نہایت مدلّل اور زبان و بیان کی تمام تر لطافتیں سمٹے ہوئے ہوتے تھے۔
اسلامیات جیسے سنجیدہ اور قدرے خشک موضوع پر دل چسپ پیرایے میں کلام کرنا اُنھی کا خاصہ تھا۔
ابتدا ہی سے علامہ صاحب کی فکری اور علمی مجالس نے سامعین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ سامعین جوق در جوق اُن کی مجالس میں شرکت کرتے تھے۔ علامہ صاحب بحرِ علم کے وہ شناور اور غوّاص تھے جو علم کے جواہر سمیٹنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
آپ طویل عرصے تک نشتر پارک میں خطابت کے جوہر دکھاتے رہے جنھوں نے شہرت تامہ حاصل کی۔ اُن کی مجالس میں ہر مکتبۂِ فکر کے افراد شرکت کرتے تھے کیوں کہ وہ کبھی کسی اختلافی یا نزاعی مسئلہ کو اپنی مجلس میں زیرِ بحث نہیں لاتے تھے۔
علامہ صاحب، انسان کے مقدس رشتے کو جوڑنے کی فکر تحت ہی اپنی مجالس کا موضوع منتخب کیا کرتے تھے اور یہی وجہ رہی کے ان کے خطاب کی منڈلی ہر مکتبۂِ فکر کے لیے ایک اطمنان کا باعث رہی۔
میں نے علامہ صاحب کی تربیت کا وہ پہلو بھی دیکھا ہے جب وہ مجتہدِ اعظم پاکستان، مولانا سیدمحمد محسن نقوی کے مرتبے کو سمجھتے ہوئے، فقہی مسائل کے ضمن میں اُن سے ضرور مشاورت کرتے تھے۔ اور میں اس گفتگو کا بھی سامع رہا ہوں جو علامہ صاحب اور مولانا محسن صاحب قبلہ کے درمیان ہوا کرتی تھی۔
وہ گفتگو نا صرف نہایت فکر انگیز بل کہ انتہائی دل چسپ بھی ہوتی تھی کیوں کہ حاضر جوابی، بَذلہ سنجی اور تبحّرِ علمی میں دونوں ہی بزرگ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔
علامہ صاحب کم و بیش ٤٧ برس تک میدانِ خطابت کے وہ شَہ سوار رہے جنھوں نے عوام و خواص بل کہ ہر طبقۂِ فکر سے اپنی علمی و استدلالی خطابت کا لوہا منوایا۔
سوال یہ ہے کہ علامہ صاحب اپنی مجالس کے نکات میں قرآنِ مجید کی آیات اور مستند احادیث ہی کو کیوں موضوع بناتے تھے کہ جن کی مدد سے وہ انتہائی دقیق مسائل کو نہایت آسان، عام فہم اور منطقی پیرایے میں بیان کر دیتے تھے۔
اس کی بہت سادہ سی وجہ ہے کہ جو عراق کے عالمی مفکر عالمِ دین اور دانش ور باقر الصدر کی اقتصادنا کے جزئیات کو جانتا ہو، جو نظشے، مارکس، غالب، میر اور ہیمنگوے کے ساتھ عالمی شہرت یافتہ اور رنگوں کے پیراہن کو سمجھنے والے مصور پکاسو کے نیلے اور گلابی رنگ کی گفتگو کے سائنسی اور سماجی فکر کو جانتا ہو، جو گھنٹوں بدھا اور ایلو ویرا کے مندر کی سنگ تراشی پر اس کے تمام محاسن میں گم رہتا ہو، وہی تو قرآن کے سماجی اور جمالیاتی جوہر کی خصوصیتوں کو سمجھ پائے گا وگر نہ وہ پھر سامعین کو کیا منتقل کرے یا دے پائے گا۔
آپ ذرا غور کیجیے ان کے موضوعات پر کہ جس میں چند یہ ہیں:
۱۔ تہذیبِ نفس اور تہذیب حاضر
۲۔ میزانِ ہدایت
۳۔ حیات و کائنات کا الوہی تصور
۴۔ عالمی معاشرہ اور قرآن
۵۔ اساسِ آدمیت اور قرآن
۶۔ میراث عقل اور وحی الٰہی
۷۔ انسانیت کا اُلوہی منشور
۸۔ نظام حیات انسانی
۹۔ علم و عقیدہ
١٠۔ دین و شریعت کی عقلی تعبیر
۱۱۔ انسان معاصر اور قرآن
١٢۔ اساسِ علم اور کتاب الٰہی
اب ان کی ادبی کاوشوں کے منتخب نام دیکھیے، حرف نمو، پس آفاق، اور شاخ صدا۔
اب آپ ان موضوعات اور ادبی انتخاب کے علمی سخن کو تلاش کیجیے، تو آپ کو منبر کا طالب جوہری واہ واہ سننے والا نہیں بل کہ ایک احساس مند فرد نظر آئے گا جو زندگی سے خطاب چاہتا ہے، زندگی کی خوشی اور دکھ کو بانٹنا چاہتا ہے، حسن و عشق کی معراج کو سمجھنا چاہتا ہے، وہ اجماع سے توقع رکھتا ہے کہ وہ زندگی کی تمام لطافتوں کو سمجھیں، ان سے گفتگو کریں، ان کے درد بانٹیں اور ان کے احساس کو چھونے کی کوشش کریں تو ہی ان کی زندگی کا حسن اور خیال باقی رہے گا۔
وگر نہ جمالیات، سماجیات اور سیاسیات کو سمجھے بَغیر زندگی کنویں میں ٹرٹرانے والے مینڈک کی مانند ہو گی، یا پھر آپ زندگی کے حسن، سوچ اور فکر سے عاری نسل کو شاہ دولہ کا چوہا ہی بنا پائیں گے۔ مگر ہرگز طالب جوہری والا جوہر آپ میں نہ آ پائے گا۔
طالب جوہری کے جمالیاتی سمیت سماجی و سیاسی ذات کے باطن کو سمجھنے کے لیے ان کا یہ مصرع کافی ہے:
یہ شوق ہے میرا مری پہچان نہیں ہے