علامہ اقبال کی تائید و تنقید میں ارتقاء کا پہلو

Tayyab Usmani
طیب عثمانی

علامہ اقبال کی تائید و تنقید میں ارتقاء کا پہلو: کمال مصطفی اتا ترک کے تناظر میں

از، طیب عثمانی

 علامہ اقبالؒ کی فکریات کے تناظر میں جب ہم کسی چیز کو تائید اور تنقید کے عمل سے گزرتا دیکھیں تو ہمیں وہاں عجلت پسندی کی بَہ جائے مفکرِ اسلام کے فکری احوال، مراحل  کے سیاق و سباق، پیش و پسِ منظر جیسے اہم متعلقہ پہلووں کی جانچ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

اس بات کا قوی امکان موجود ہوتا ہے کہ ہم فکریاتِ اقبال کے پیش منظر اور پسِ منظر کو نہ دیکھیں اور ہمارے مطالعے کے نتائج غلط ہو جائیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ علامہ کی فکر اور وقتی بیانیے کا جزوی پہلو جس پر  مفکر کے بیانات با ضابطہ طور پر موجود ہوں لیکن ان بیانات کو ہم بَہ راہِ راست علامہ سے اخذ و تحديث کی بَہ جائے کسی تیسرے ذریعے یعنی راوی یا شارح سے لے لیں، یقیناً قاری کے اس طرزِ عمل سے کیا گیا مطالعہ بھی اکثر اوقات ناقص رہتا ہے۔ علامہ اقبال کی تائید و تنقید میں ارتقائی مرحلے کے بیان کو میں کمال مصطفی اتا ترک کے تناظر میں پیش کرتا ہوں:

علامہ اقبال نے احیائے اسلام اور مسلم امہ کی عظمتِ رفتہ اور دورِ عروج کے دوبارہ حصول کے لیے پسِ خلافت عثمانیہ جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال آتا ترک سے حوصلہ مند امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔

ان توقعات سے والہانہ وابستگی کی علامت یہ ہے کہ انہوں نے ایک خوب صورت نظم طلوعِ اسلام بھی لکھی۔ کمال مصطفیٰ اتا ترک سے توقعاتی وابستگی کی وجہ سے علامہ اقبال کے حوالے سے اس بات کو مستند مانا جاتا ہے کہ جدید دور میں احیائے اسلام اور اصلاح کا نمونہ علامہ کے نزدیک کمال مصطفیٰ اتا ترک کا پیراڈائم ہے اور شاید مفکرِ پاکستان کو مستقبل میں اسلام کے نام پر قائم ہونے ریاست کو بھی اسی pattern میں دیکھتے تھے۔


مزید دیکھیے:

اقبال کی شاعری میں ہندوستان کی غیر مسلم شخصیات کا تذکرہ

علامہ اقبال ، علما اور اجتہاد: پارلیمنٹ سے اجتہاد کا کام لیا جا سکتا ہے؟  از، سھل شعیب ابراہیم


یہ علجت پسندی کا مظہر اور نقصِ مطالعہ سے حاصل ہونے والا نتیجہ ہے، جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ جب اتا ترک کا کردار کھل کر سامنے آیا تو اسی اقبال نے اتا ترک پر شدید نقد بھی کی کہ وہ جس جوہر کو تلاشنے میں سر گرداں ہیں، وہ جوہرِ احیاء مصطفیٰ اتا ترک میں بھی نہیں ہے۔ اپنی نظم مشرق میں فرماتے ہیں:

“مری نوا سے گریبانِ لالہ چاک ہوا

نسیم صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی

کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

مری خودی بھی سزا کی ہے مستحق لیکن

زمانہ دار و رسن کی تلاش میں ہے ابھی”

 ضربِ کلیم میں آپ مصطفیٰ کمال پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں:

لا دینی و لاطینی، کس پیچ میں الجھا تو

دارو ہے ضعیفوں کا  ‘لاغالب الا ھو’

صیاد معانی کو یورپ سے ہے نومیدی

دل کش ہے فضا، لیکن بے نافہ تمام آہو

بے اشک سحر گاہی تقویم خودی مشکل

یہ لالہ پیکانی خوشتر ہے کنارِ جُو

صیاد ہے کافر کا، نخچیر ہے مؤمن کا

یہ دیر کہن یعنی بت خانہ رنگ و بو

اے شیخ، امیروں کو مسجد سے نکلوا دے

ہے ان کی نمازوں سے محراب ترش ابرو

فکرِ اقبال سے عاجزانہ التماس ہے کہ وہ نقد و بیان میں علامہ اقبال کی نقد یا تائید پر جب بھی کچھ لکھیں یا کہیں تو علامہ کے تنقید و تائید میں ارتقائی پہلو کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں تا کہ بار آور نتائج کا حصول ممکن ہو سکے۔