امن دنیا کی ضرورت ہے

زاہدہ حنا

امن دنیا کی ضرورت ہے

از، زاہدہ حنا

دل نے ہمیشہ یہی چاہا کہ دنیا امن کے ہنڈولے میں جھولتی ہو لیکن ایک ایسی صدی میں پیدا ہونا مقدر ہوا جس میں 2 عظیم جنگیں لڑی گئیں اور کیا مشرق، مغرب، شمال اور جنوب ہر طرف تعصب اور تشدد کا بول بالاہوا۔کروڑوں انسان قتل ہوئے اور کروڑوں دربہ در ہوئے دورکیوں جائیں، افغانستان عراق اور شام پر ایک نگاہ ڈالیے، ہرطرف بمباری سے برباد شدہ گھر ہیں، ہرطرف پناہ کی تلاش میں نکلے ہوئے لوگ ہیں جن میں سے ہزاروں راستے میں ہی لقمہ اجل ہوئے ، ساحل پر پہنچ کر پانی میں سو جانے والے بچے ہیں۔ ایک وقت کی روٹی کے لیے ہاتھ پھیلائے ہوئے لڑکے، لڑکیاں، عورتیں اور بوڑھے ہیں۔ ایسے المناک منظر جنھیں دیکھ کر اپنے گھر نرم بستر اور گرم کھانوں پر شرم آئے۔

50 کی دہائی تھی جب تقسیم کو برصغیر کے لیے نسخہء شفا بتایا جاتا تھا ۔کہا جاتا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو تناؤ اور تعصب تھا اسے ختم کرنے کے لیے برصغیر کو تقسیم کیا گیا تا کہ سب آرام سے رہ سکیں۔ اس زمانے میں بھی یہ سوال پوچھا کہ پھر1947 اور 1948 میں دونوں فرقوں کے لوگوں  نے ایک دوسرے کو کیوں ذبح کیا اور کیوں بستیوں کو آگ لگائی؟ تو سب کے پاس اس سوال کا جواب بس یہی تھا کہ یہ مشکل معاملات ہیں، ابھی سمجھ میں نہیں آئیں گے۔

65ء اور 71ء ہماری تاریخ کے ایسے سانحے ہیں جو اگر رونما نہ ہوتے تو یہ دونوں ملک اور سارا خطہ کتنی بہت سی مشکلوں سے نہ گزرتا، اس کے کروڑوں انسان خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوتے۔ تعلیم ہمارے کروڑوں بچوںکی طرف سے منہ پھیرکرنہ گزرتی اور مدقوق بچوں کی فوج ہماری بستیوں میں نہ دکھائی دیتی۔ وہ بچے جن کی زرد آنکھیں، پچکے ہوئے گال اور پیٹھہ سے لگی ہوئی پسلیاں پکار پکار کر نہ کہتیں کہ ہماری حکمران اشرافیہ کو ہم پر ترس کیوں نہیں آتا؟ اربوں ڈالر اسلحے کی خریداری پر خرچ کردیے جاتے ہیں، اس کے کمیشن سے پر تعیش زندگی گزاری جاتی ہے لیکن ہمارے حصے میں ایک ڈسپرین بھی نہیں آتی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تقسیم  در تقسیم کا سلسلہ نہ چلتا۔

امن برصغیر کی ضرورت ہے ۔ روزانہ لائن آف کنٹرول پر ہلاک ہونے والی عورتوں، مردوں اور بعض اوقات ڈھورڈنگروں کے مارے جانے کی بھی خبریں آجاتی ہیں۔ یہ سب کچھ تقسیم کا باقی رہ جانے والا ایجنڈا ہے۔ لاہور میں فیض امن میلہ ختم ہوا ہے۔ فیض نے کبھی کوئی جنگی ترانہ نہیں لکھا اور کبھی جنگ کی تعریف و توصیف نہیں کی، وہ آخر تک یہی کہتے رہے کہ، ذہنی طور سے مجنون اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سب ہی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیز ہے،۔ فیض نے امن کو بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ اور دلہن کے آنچل سے تشبیہ دی۔ جنگ میں مارے جانے والے سپاہی کا مرثیہ لکھا تو اس میں سے کہیں آتش انتقام کی آنچ نہیں آتی تھی۔ لکھا تو کچھ یوں کہ

اٹھو اب ماٹی سے اٹھو

جاگو میرے لال

اب جاگو میرے لال

گھرگھر بکھرا بھور کا کندن

جانے کب سے راہ تکے ہیں

بالی دلہنیا ، بانکے ویرن

سونا تمرا راج پڑا ہے

دیکھو کتناکاج پڑا ہے

بیری براجے راج سنگھاسن

تم ما ٹی میں لال

اٹھو اب ماٹی سے اٹھو، جاگو میرے لال

یہ مرثیہ جو کسی مذہبی، نسلی اور لسانی تفریق کے بغیر کسی بھی سرحدپر گولی کا نشانہ بننے والے ہرسپاہی کا مرثیہ ہے۔ وہ اپنے دھیمے لہجے میں اس سے بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ ، بیری براجے راج سنگھاسن، اور پھر بنتی کرتے ہیں کہ ، اٹھواب ماٹی سے اٹھو، جاگو میرے لال،۔ گزشتہ 70 برس میں پاکستانی اور ہندوستانی عوام کی جو لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں سو ہوئیں، دونوںطرف  کے ان گنت سپاہی بھی خاک وخون میں نہا گئے، یوںمحسوس ہوتا ہے جیسے یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا اور دونوں طرف ہڈیوں کے پہاڑ کھڑے ہوتے رہیں گے۔

نفرت کا دیو اپنے دانت نکوستا ہوا دونوں طرف  کے لوگوں کو افرادی قوت سے اوران کے وسائل سے محروم کرتا رہے گا۔ دونوں طرف کے جنگجوؤں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی سرحدیں بدل لیں، اپنے ملکوں کو ایشیا سے افریقا میں اٹھا لے جائیں، یہی وجہ ہے کہ امن پسند عناصرخواہ کتنے ہی ناپسندیدہ ہوں لیکن آخری مرحلے پر وہی یاد کیے جاتے ہیں۔

ایسے میں ایک فرد منی شنکرآئیرہیں۔ 70 کی دھائی میں ان کی تعیناتی کراچی میں ہندوستان کے قونصل جنرل کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ ایک فرد صورت حال پر کس قدر اثرانداز ہوتا ہے، اسے دیکھنا ہو تو ان برسوں پر نگاہ ڈالیے جب منی شنکر کراچی میں تھے اور انھوں نے اپنے دوستانہ رویے سے دونوں ملکوں کی سرحدوں کو نرم کردیا تھا۔ ویزے یوں جاری ہوتے تھے کہ لوگوں کویقین نہیں آتا تھا۔ ان کے زمانے میں انڈیا ہاؤس کی ادبی محفلیں یادگار تھیں۔

وہ ایک سفارت کار تھے، اب سیاست دان ہیں۔ ان کی سفارت کاری بے مثال تھی اور اب ریٹائر ہونے کے بعد سے وہ  سیاست میں ہر وقت سرگرم ہیں۔ انھیں جب بھی موقع ملے وہ پاکستان اور ہندوستان کے بیچ دوستی اور قریبی تعلق کی بات کرنے سے نہیں چوکتے، ہندوستان میں ایک حلقہ ایسا ہے جو انھیں پاکستان دوستی کے طعنے دیتا ہے، وہ لوگ بھی موجود ہیں جو انھیں’’غدار‘‘ کہتے ہیں لیکن منی شنکر نے کبھی ان باتوں پر کان نہیں دھرا اور وہی کچھ کہا جسے وہ درست سمجھتے ہیں اور جوان کے خیال میں دونوں ملکوں کے لیے بہتر ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جب وہ ایک ادبی میلے میں شرکت کے لیے کراچی آئے تو میں ملک سے باہر تھی اور ان سے ملاقات نہ ہو سکی لیکن ان کی تقریر، ان کے انٹرویو مجھ تک پہنچتے رہے۔

وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ملکوں کے بیچ مسائل کا حل صرف اس  بات میں مضمر ہے کہ دونوں کے درمیان کسی رکاوٹ اورکسی الجھن کے بغیر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے۔ انھوں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ کہا کہ پاکستان اس بات سے متفق ہے لیکن یہ ہندوستان ہے جو اس پالیسی پر عمل پیرا نہیں۔ اس بارے  میں اپنے کردار کو انھوں نے یونانی دیوتا Sisyphus سے تشبیہ دی۔ جس کے مقدرمیں  لکھ دیا گیا تھا کہ وہ ایک بہت بھاری چٹان کودھکیلتا ہوا ایک پہاڑ کی چوٹی تک لے جائے۔ انھوں نے لفظوں کو چبائے بغیر یہ کہا کہ میں پاکستان سے اس لیے محبت کرتا ہوں کہ مجھے ہندوستان سے محبت ہے ۔

انھوں نے بجا طور پر یہ کہا کہ کشمیر اور اس سے جڑی ہوئی دہشت گردی وہ دو معاملات ہیں جوامن کی راہ  میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان اگر اس فریم ورک پر چلے جائیںجن کا تعین جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا تھا۔ یہ فریم ورک تین برس میں تیار ہوا تھا، اگراس کی طرف رخ کیا جائے اور دونوں ملک از سر نو مکالمہ کا آغاز کریں تو بہت سے مسئلے چٹکی بجاتے حل ہو سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کواس بات کی شکایت ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس میں فتح مند دونوںطرف کے دہشت گرد ہیں اور نقصان دونوں ملکوں اوران کے عام آدمی کا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حصہ دوم

ہندوستان میں یوں توبہت سے ادیب، شاعر اور دانشور ہیں جوبرے زمانوں میں بھی امن کی بات کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جنھیں ہندوستانی انتہا پسند “غدار” کہتے ہیں اور جو پاکستانی ایجنٹ، کہلاتے ہیں۔ اچاریہ دنابھاوے، نرملادیش پانڈے، منی شنکر آئیر ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔

اچاریہ ونابھاوے اور نرملادیش پانڈے اپناکام کرکے دنیا سے گزرچکے لیکن منی شنکر آئیر اب بھی یہ کہے جاتے ہیں کہ ان دونوں ملکوں کے بیچ جتنے گمبھیر مسئلے ہیں، جتنی غربت اور پسماندگی ہے، اس کا علاج صرف یہی ہے کہ دونوںکے درمیان ہر مسئلے پرمکالمہ ہو۔ ہم اپنے بچوں کو اسی طرح ایک بہتر مستقبل دے سکتے ہیں۔

منی شنکر آئیر جو باتیں کرتے ہیں وہ ہندوستان کے حکمران طبقے میں پسند نہیں کی جاتیں۔ وہ کانگریس پارٹی سے وابستہ ہیں اور گاندھی وادی ہیں۔ امن کے حصول کے لیے کانگریس کے رہنماؤں سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں اس کے باوجود ان کے دور حکومت میں امن قائم ہونے کا امکان رہتا تھا۔ سخت جملوں کے ساتھ ہی پس پر دہ امن مذاکرات ہوتے رہتے تھے اور اس ٹریک 2  ڈپلومیسی کاکچھ نہ کچھ نتیجہ بھی نکلتا تھا لیکن مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔

یہ تو ہوئی ہندوستان کی بات، اب ہمیں اپنے رویوں کے بارے میں بھی غور کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جن کا ایجنڈا عسکریت پسندی ہے اور جوہر وقت امن دشمنی پر کمربستہ رہتے ہی،، ان کی نازبرداری ہم بہت کرچکے اور اس کا خمیازہ بھی بھگت چکے۔ عوامی جمہوریہ چین جس کی ہر بات پر ہم آمناوصدقنا کہتے ہیں، اس کے اس رویے پرہم کیوں نظر نہیں رکھتے کہ ہانگ کانگ سے تعلقات کی شدید خرابی کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تجارت زور وشور سے جاری ہے اور اس تجارت کا چین کو بے پناہ فائدہ ہے۔ ہم نے شاید ابھی تک یہ اندازہ نہیں لگایا ہے کہ ہندوستان سے دوطرفہ تجارت کی بندش اور سفری پابندیوں نے ہمیں معاشی طور پر کتنا نقصان پہنچایا ہے۔

میرئیڈ کوریگن میگوائرنے درست طور پر لکھا ہے کہ پرامن دینا ہر بچے کا پیدائشی حق ہے۔ 1976ء کا نوبیل امن انعام شمالی آئرلینڈ کی 2خواتین کو دیا گیا تھا۔ ان دونوں  میں سے بیٹی ولیمز نے نوبیل انعام کی تقریب میں تقریر کی تھی لیکن یہ کوریگن تھی جو اس موقعہ پر خاموش رہی تھی ۔بعد میں اس نے لکھا کہ ایک شیرخوار بچے کی مسکراہٹ سے بڑھ کرکوئی ایسی چیز نہیں جو ہمارے دل کو سرشار کردے۔ بہت سی مائیں کہتی ہیں کہ جبب بچہ پہلی دفعہ مسکراتا ہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ اسے فرشتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بات صحیح ہو یا نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ بچے کی طلسمی مسکراہٹ ہم سب کے دل کو مسرت اور سکون سے بھردیتی ہے۔ ایک نوزائیدہ اور شیرخوار بچہ جب ہماری طرف ہمکتا ہے تو وہ ہم سے محبت کا طلب گار ہوتا ہے۔ وہ ہماری انگلی تھام کر چلنا سیکھتا ہے۔ پھولوں پر منڈلاتی ہوئی تتلیوں کا تعاقب کرتا ہے اور ایک ایسے ماحول میں بڑھنا، بولنا اور پڑھنا چاہتا ہے جہاں بارود کی بو اور خوفناک دھماکے نہ ہوں۔

بعض بچے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ پیدائش کے لمحے سے انھیں یہ سکون مہیا ہوتا ہے لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ دنیا کے لاتعداد بلکہ بیشتر بچوں کو تنہائی، تکلیف اور تشدد کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔ انھیں چند برسوں میں ہی اس تلخ حقیقت کا پتہ چل جاتا ہے کہ جو دنیا انھوں نے ورثے میں پائی ہے، وہ پُر امن دنیا نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس کی بنیاد میں ظلم، غربت، تشدد، نسل کشی اور جنگ ہے ۔ ناانصافی، دکھ اور تنہائی کی اس دنیا میں امن کی تلاش بہت مشکل ہے۔ ایک ایسی تیسری دنیا جو قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے یہاں بچوں پر خرچ نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں بچے بھوک کے ہاتھوں خاموشی سے مرجاتے ہیں۔

آج ہی یونیسیف نے5 برس کی عمر تک کے بچوں کی شرح اموات کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن میں پاکستان کی صورت حال اندوہ ناک ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا میں ہو رہا ہے جہاں SIPRI کے مطابق حکومتیں فوج پر 1686 کھرب ڈالر سالانہ خرچ کررہی ہیں جب کہ ان کے اپنے کروڑوں شہریوں کی غربت اور ناداری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

فرانز اسٹافن گاڈے کا کہنا ہے کہ پاکستانی مسلح افواج کی ترجیح میں نئے لڑاکا طیارے، آبدوزیں، جنگی بحری جہاز اور مختلف میزائیل پروگرام شامل ہیں۔ اسلام آباد کے بعض تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ اسلام آبادنے زیادہ بہترایٹمی ہتھیاروںکے لیے ایک ارب ڈالرمختص کیے ہیں۔

امن صرف ہمارا نہیں دنیا کے بیشتر ملکوں میں رہنے والوں کا خواب ہے۔ ان ملکوں میں متعدد ایسی تنظیمیں اور افراد موجود ہیں جو امن کے متلاشی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نفرت اور تشدد کا شکار ہوئے، جنھوں نے امن سے نفرت کرنے والے دیوانوں کے ہاتھوں اپنے پیارے کھودیے۔ ان میں سے کچھ نے جانے والوں کا غم تنہائی میں منایا اور کچھ ایسے بھی تھے جو عسکریت پسندوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ انھوں نے نفرت کرنے والوں کا مقابلہ نفرت سے نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم زمین میں ببول بو کر پھو ل نہیں اگا سکتے۔

پاکستان اور ہندوستان جس انتہاپسندی اور متشدد بیانیے کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، اس سے نکلنے اور نکالنے کے لیے لازم ہے کہ ہم عقلی سطح پر لوگوں کو بتائیں کہ ہماری تمام اذیتوں اور عذابوں کا سبب انتہا پسندی، عدم برداشت اور انسان دشمنی ہے۔ دونوں ملکوں میں ایسی متعدد تنظیمیں اور افراد ہیں جو اپنی بساط کے مطابق متاثرہ لوگوں کے زخموںپر مرہم رکھتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ نفرت مزید نفرت کو جنم دیتی ہے اور امن شمنی ہماری نسلوں کو کچھ اور پسماندہ، کچھ اور غریب کردیتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں یہ خیال پروان چڑھایا گیا ہے کہ ہمارے پاس جس قدر خوفناک ہتھیاروں کے ذخائر ہوں گے، ہم اتنے ہی طاقت ور ہوں گے۔ یہ بات ذرا کم ہی لوگ سوچتے ہیں کہ مفلس، ناخواندہ اور بھوکے لوگوں کی کروڑوں پر مشتمل آبادی بھلا کس طرح کسی ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔

امن کے حوالے سے شمالی آئرلینڈ کی میرئیڈ کوریگن میگوار نے اپنی ایک تحریر میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر ہم جائزہ لیں کہ تشدد کی سیاست اور ٹیکنالوجی نے ہمیں آج دیا کیا ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم آج ایک احمق زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا یہ حماقت نہیں ہے کہ ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں پر اربوں ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔ ان کا استعمال اگر ساری زمین کو نہیں تو کروڑوں لوگوں کو ملیامیٹ کر سکتا ہے۔

یہ اخراجات اس وقت ہورہے ہیں جب دنیا میں ہر سال لاکھوں بچے بیماریوں اور فاقوں سے مرجاتے ہیں ۔اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر سال 56 لاکھ بچے ناکافی غذا کی وجہ سے مرجاتے ہیں حالانکہ دنیا کی اکثر حکومتوں کے پاس اس فاقہ زدگی اور مصائب کے خاتمے کے لیے وسائل اور صلاحیت موجود ہے۔ کیا یہ بے عقلی نہیں ہے کہ بعض ملکوں کی حکومتوں کو سز ا دینے کے لیے ان  پر پابندیاں عائد کردی جائیں جب کہ ان پابندیوں کا نتیجہ صرف بے سہارا لوگوں، غریبوں، بچوں اور بوڑھوں کو بھگتنا پڑتا  ہے۔ کیا یہ حماقت نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی عراق پر پابندیوں کے نتیجے میں عراق کے اندر ایک مہینے میں 4500 بچے مرجاتے تھے۔کیا یہ دیوانگی نہیں کہ تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو غذا، دوائیں اور زندگی کی دیگر ضروریات مہیا کرنے کی بجائے انھیںتباہ کن ہتھیار مہیاکیے جاتے ہیں۔ کیایہ حماقت نہیں ہے کہ امریکا اور یورپی برادری جس میں برطانیہ بھی شامل ہے، غریب ملکوں کو اسلحے کا 70 فیصد مہیا کررہے ہیں۔

ان غریب ملکوں میں سے کچھ اسلحہ خریدنے کی دوڑ میں اپنے آپ کو دیوالیہ کرلیتے ہیں اور پھر یہ اسلحہ فوجی حکومتیں اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ کیا یہ حماقت نہیں ہے کہ ہندوستان کی حکومت فوجی ضرورتوں پر بے تحاشہ سرمایہ خرچ کررہی ہے جب کہ اس کے کتنے ہی لوگ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ کیا اسے خودکشی نہیں کہا جائے گاکہ ہوا میں آلودگی بڑھائی جارہی ہے، سمندرکو زہریلا کیا جارہا ہے، تابکاری مادوںکا ذخیرہ کیا جارہا ہے اور اوزون کے غلاف کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے اپناکھانا چنتے ہوئے بچے کسی انسانی شرف اور امید سے محروم ہیں۔ ایک ایسی دنیا جس میں برساتی جنگلات اور پانی کے ذخیروں جیسے قدرتی وسائل کو ہم بے تحاشا استعمال اور تباہ کرتے ہیں اور ایک ایسی دنیا جو ہوسکتا ہے مستقبل میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے قطعاً ناقابل رہائش ہوجائے۔ ایک ایسی دنیا جو غیر منصفانہ اور متشدد ڈھانچے پر تعمیر کی گئی ہے اور جہاں انسانی حقوق نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں لاتعداد بچے تشدد سے پیدا شدہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں وہاں پر امن بستیوں کا خواب بھلا کس طرح دیکھا جا سکتا ہے۔

چند دنوں پہلے ہم نے ایک امریکی اسکول میں ہونے والے قتل و غارت کے مناظر دیکھے ہیں۔ وہ نوجوان جوکسی قصور کے بغیر مارے گئے ان کی لاش دیکھ کر دل ٹکڑے ہوتا ہے، اسی طرح وہ نوجوان جس نے اندھا دھند گولیاں چلا کراپنے ہی ساتھیوں کوموت کے گھاٹ اتارا، اس کا چہرہ بھی امریکی سماج سے اور تمام دنیا کے جنگ پسندوں سے سوال کرتا ہے کہ تم لوگوں کی سفاکی اور تشدد پر اکسانے کے رویے نے جیتے جی مجھے کس جہنم میں دھکیل دیا؟ دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی ہویا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی جنگ کی آگ نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور محبت کرنے کی صلاحیتوں سے محروم کردیا ہے۔

ہم پیدا ہوئے ہیں پرامن بستیوں اور بازاروں میں ہم اس دنیا کی تعمیر چاہتے ہیں جہاں انصاف امن اور جمہوریت ہو، جہاں ہم اور ہمارے بچے سکون  سے رہ سکیں، جہاں ہمارے بچوں کی انگلیاں رائفل کی لبلبی نہ دبائیں، وہ موت کا پروانہ بانٹنے کی بجائے ان انگلیوں سے مصوری کریں۔ کہانیاں لکھیں اور دنیا جو ہزاروں برس سے ہمارا گھر رہی ہے ہم اسے ایک خوبصورت جگہ بنانے کے سفر پر نکلیں۔ وہ سفر جو ہمیں ایک پُرامن اورپُرسکون دنیا کا راستہ دکھاتا ہے۔

“غدار” کہتے ہیں لیکن منی شنکر نے کبھی ان باتوں پر کان نہیں دھرا اور وہی کچھ کہا جسے وہ درست سمجھتے ہیں اور جوان کے خیال میں دونوں ملکوں کے لیے بہتر ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جب وہ ایک ادبی میلے میں شرکت کے لیے کراچی آئے تو میں ملک سے باہر تھی اور ان سے ملاقات نہ ہو سکی لیکن ان کی تقریر، ان کے انٹرویو مجھ تک پہنچتے رہے۔

وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ملکوں کے بیچ مسائل کا حل صرف اس  بات میں مضمر ہے کہ دونوں کے درمیان کسی رکاوٹ اورکسی الجھن کے بغیر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے۔ انھوں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ کہا کہ پاکستان اس بات سے متفق ہے لیکن یہ ہندوستان ہے جو اس پالیسی پر عمل پیرا نہیں۔ اس بارے  میں اپنے کردار کو انھوں نے یونانی دیوتا Sisyphus سے تشبیہ دی۔ جس کے مقدرمیں لکھ دیا گیا تھا کہ وہ ایک بہت بھاری چٹان کودھکیلتا ہوا ایک پہاڑ کی چوٹی تک لے جائے۔ انھوں نے لفظوں کو چبائے بغیر یہ کہا کہ میں پاکستان سے اس لیے محبت کرتا ہوں کہ مجھے ہندوستان سے محبت ہے۔

انھوں نے بجا طور پر یہ کہا کہ کشمیر اور اس سے جڑی ہوئی دہشت گردی وہ دو معاملات ہیں جوامن کی راہ  میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان اگر اس فریم ورک پر چلے جائیںجن کا تعین جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا تھا۔ یہ فریم ورک تین برس میں تیار ہوا تھا، اگراس کی طرف رخ کیا جائے اور دونوں ملک از سر نو مکالمہ کا آغاز کریں تو بہت سے مسئلے چٹکی بجاتے حل ہو سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کواس بات کی شکایت ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس میں فتح مند دونوں طرف کے دہشت گرد ہیں اور نقصان دونوں ملکوں اوران کے عام آدمی کا ہے۔


بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس