امن کے شہر میں بارود کی بو
از، ثوبیہ عندلیب
کئی سال پہلے وفاقی دارالحکومت میں واقع بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے میرا تعلق بنا۔ یہاں تربیت اور جدید علوم کو اسلامیانے کے عمل کا ماحصل وہ عملی مسلمان تھے جو ہر شعبہ زندگی میں مسلم امت کے لیے ایک سرمایہ تھے۔ ایک نووارد کے لیے یہ بالکل اچھوتا تجربہ تھا۔ اخوت و بھائی چارے کی جو فضا یہاں تھی اس کی نظیر مجھے اس سے پہلے کبھی نہيں دکھی۔ یہاں کے لوگ اسلام کو صرف ظاہری ہیئت تک محدود نہیں کرتے تھے بلکہ فکر و نظر کے ساتھ ساتھ اسلام کو ہر شعبہ حیات میں رہنما سمجھتے تھے۔ عمر کا یہ وہ دور تھا کہ جب انسان کدورتوں سے دور اور اچھے خواب دیکھتا ہے۔ انہی دنوں میں میں ایک خواب دیکھتی ہوں کہ میں یونیورسٹی کی عمارت میں ہوں، اسلامک یونیورسٹی میں فیکلٹی اسلامک سٹڈیز (اس وقت اصول الدین) میں ایک لائبریری ہے۔ کچھ سال پہلے یہاں اس جگہ ہمارے ایک محترم استاد تاج افسر صاحب حفظ قرآن کا امتحان لیتے تھے (یونیورسٹی کے ہر طالب علم کو قران کا کچھ حصہ حفظ کرنا لازمی ہے) میں دیکھتی ہوں کہ عین اس جگہ ہوں اور میرے سامنے اس مقام پر کعبہ ہے۔ اس خواب کی کیفیت اور کعبہ کے جلال و جمال کی ہیبت سے ہر وہ مسلمان آگاہ ہو گا کہ جس نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ کعبہ امن، خیراور ہدایت والا گھر ہے اور اس کو آپ کسی اور جگہ دیکھیں تو مراد یہ ہے کہ وہ جگہ بھی امن و سلامتی والی ہے ۔ حکم خداوندی ہے کہ :
قسم ہے انجیر اور زیتون کی (1) اور طور سینا (2) اور امن وامان والے شہر مکہ کی(3)۔
قبل از اسلام کعبہ کی حرمت کے پیش نظر شہرمکہ کو پورے عرب میں امن والا شہر مانا جاتا تھا۔ اور آج تک مسلمان بیت اللہ کی حدود میں داخل ہوتے ہی کسی جانور تک کو مارنا غلط سمجھتے ہیں۔ اسی طرح فتح مکہ کے روز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس شخص کے لیے امان کا اعلان کیا کہ جو بیت اللہ میں داخل ہو جائے۔ یہ خواب امیدوں کی روشنی بن کر میرے ساتھ ساتھ رہا۔ میں اس پہ نازاں تھی کہ اللہ تعالی نے مجھے ایک ایسی درسگاہ میں بھیجا ہے کہ جو ہر دورِ فتن میں سلامتی اور خیر کا مرقع ہوگی۔
مگر اس ایک شام جب میں سیکٹر ایچ 10 میں داخل ہوئی تو وہاں موت کی سی خاموشی تھی۔ یونیورسٹی کے درودیوار ماتم کر رہے تھے۔ ان معصوموں کا ماتم جو تین دن پہلے ایک عِفریت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ میں نے گاڑی سے باہر جھانک کر ان دو مقتلوں کو دیکھنے کی کوشش کی، وہاں وحشت ناچ رہی تھی۔
تین دن پہلے 20 اکتوبر 2009 کی وہ ایک ہلکی ٹھنڈی دھوپ والی دوپہر تھی۔ جب یکے بعد دیگرے یہاں دو دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں ۔یوں لگا جیسے زمین لرز سی گئی تھی۔
ہاسٹل کے ٹیرس پہ کھڑے اگرچہ میں اپنے سامنے کیفے ٹیریا سے دھول نما دھواں اٹھتا دیکھ رہی تھی مگر میرا ذھن کچھ غلط نہیں سوچنا چاہتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے بھاگنے کی کوشش میں بھگدڑ مچ گئی ہو۔ یا شايد کیفے ٹیریا میں کوئی گیس سلنڈر پھٹا ہو گا۔ اور شاید آگ لگ گئی ہوگی۔ آس پاس سب چہرے مُضطرب تھے۔
ایک بار ہاسٹل کے ایک کمرے میں اچانک آگ بھڑک اٹھی تھی۔ تو میری دو باہمت ساتھیوں زارا اور ثناء نے آگ اور دُھویں سے بھرے اندھیرے کمرے میں گِھری ایک لڑکی کی جان بچائی تھی۔ میرے دل میں ان دونوں کے لیے بے پناہ ستائش اور قدر ہے۔
یونیورسٹی میں موجود محافظین اور دیگر سٹاف کیفے کی بھاگ رہے تھے۔ اور کیفے سے سفید دھواں اٹھ رہا تھا۔ مجھے لگا کہ میں ثناء یا زارا ہوں اور کوئی مجھے مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ میں جائے حادثہ کی طرف بھاگتے ہوئے پہنچی۔ اور کاش کہ میں وہاں نہ گئی ہوتی۔
کیفے کے باہر موجود لوگ ان زخمی اور ادھڑے ہوئے جسموں کو اٹھا کر گاڑیوں میں رکھ رہے تھے اوران جسموں کا درد اور کرب ان کی چیخوں آہوں اور بہتے خون سے عیاں تھا۔ کچھ معصوم تو بالکل بے حس و حرکت تھے۔ پتہ نہیں کہ وہ دوبارہ جی سکے یا نہیں۔ چند اہلکار خون میں لتھڑے ایک کپڑے کی گٹھڑی سی اٹھا کر لا رہے تھے، شاید وہ کسی بچی کا دوپٹہ تھا۔ اس سے آگے جانے کا حوصلہ نہیں تھا مجھ میں۔۔۔
ہاسٹل خالی کروایا جا رہا تھا۔ میں اسلام اباد میں واقع اپنے گھر آگئی۔ جہاں تین دن تک ٹی وی اور اخبار مجھ سے چھپا کر رکھا گیا۔
اس حملے میں میری ایک عزیزہ آمنہ شدید زخمی تھی۔ اس کے دماغ میں کوئی دھاتی ٹکڑا تھا جو نکالنے میں پیچیدگی تھی۔ کئی روز تک وہ ہسپتال میں بے ہوش پڑی رہی۔ امید و یاس کی کیفیت میں اس کے پیارے اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کرتے رہے مگر ایک دن وہ موت سے لڑتے لڑتے تھک کر ہمیشہ کے لیے سو گئی۔ اکلوتی بیٹی کو یوں مرتے دیکھنا، اس کا درد ہم محسوس کر سکتے ہیں مگر کیا حوصلہ تھا ان والدین کا جو آج بھی اس رب کی رضا پہ راضی ہیں۔ ایسے کتنے ہی پھول تھے کہ جو کھلے تھے مگران کو کھل کر مسکرا نے کا وقت نہ ملا۔
علم کی راہ میں ان شہید ہونے والوں کی آٹھویں برسی منائی جا چکی ہے۔ آج بھی کئی سوال ہیں ان کے ذھنوں میں کہ جنہوں نے زندہ رہنے کے لیے موت کے ساتھ ایک جنگ لڑی ہے۔ شریعہ کی تعلیم دینے والی یونیورسٹی پر حملے نے ان کے کردار پر کئی سوالات اٹھا دیے۔ کیا یہ اسلام کے نام پہ قائم اس ادارے کے وجود سے خائف تھے یا ان با حجاب بچیوں سے۔ کیا وہ ایک ایسے ادارے کی ساکھ مسخ کرنا چاہتے تھے کہ جو دُنیائے اسلام کے 57 ممالک کے طالب علموں کو متحد کر سکتا ہے۔ اور اگر یہ لوگ اسلام کے نام پر یہ مذموم قتل و غارت کرتے ہیں تو ان سے بہتر ہے وہ محافظ پرویز مسیح کہ جو مذھب سے بالاتر ہو کر ان بچیوں کے سامنے ڈھال بن کر کھڑا ہوا اور اپنی جان جان آفریں کو دے دی۔
اس واقعہ کے آٹھ سالوں بعد آج اگر ان دو واقعات کو دیکھوں تو ایک اضطراب محسوس ہوتا ہے۔ شاید کوئی اور اس کی بہتر توجیہ کر سکے۔ اگرچہ ایک درسگاہ کا اولین فریضہ تو انسانیت کی بھلائی ہی ہوتا ہے، مگر امید افزاء وہ حوصلہ اور لگن ہے کہ اس افسوس ناک سانحے کے محض ایک سال کے بعد یہ ادارہ پاکستانی جامعات کی عمومی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر آ جاتا ہے۔ 2009 میں جہاں 20000 کے لگ بھگ طلبہ زیر تعلیم تھے کچھ ہی سالوں میں یہ تعداد 30000 تک پہنچ جاتی ہے۔ جن میں 12000 سے زائد خواتین ہیں۔ 57 اسلامی ممالک کے علم کے متلاشی نوجوان آج بھی یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔ وہ سب ایک ایسے ادارے کی ترجمانی کرتے ہیں کہ جو اس نظریے کا علمبردار ہے کہ دہشت گردی اور بد عنوانی کا خاتمہ تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ یہ تمام حقائق اگرچہ ظاہر کرتے ہیں کہ دھشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پائے مگر 2009 سے لے کر اب تک کئی تعلیمی ادارے دھشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ معاشرے میں انتہا پسندی اور عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے۔
ایک متاثرہ ادارے کے سابق طالب علم ہونے کے ناتے میں سمجھتی ہوں کہ ہم سب کو اپنے دینی تشخص اور تعلیمات کا محافظ ہونا چاہیے تا کہ کسی شر پسند عنصر کو اسلام کی غلط توجیہ کرنے کا موقع نہ ملے۔ حق کو چھپانے والے بھی اس قتل انسانیت کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ اپنی ہر حیثیت میں باطل کا مقابلہ اپنے عمل اور کردار سے کرنا ہوگا۔ محض حکوتوں کے سخت فیصلوں اور فوجی آپریشنوں کا انتظار کرتے رہنا اس کا حل نہیں ہے؟ ہمیں معاشرے کے اندر ہر حیثیت میں امن کا پیغام دینا ہو گا۔ اور بتانا ہوگا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔