پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی امریکی صلاحیت محدود
اطہر کاظمی بی بی سی اردو، لندن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں طالبان اور دیگر شدت پسندوں کو شکست دینے کے لیے جس نئی پالیسی کا اعلان کیا گیا اس کی اہم تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔
امریکی صدر کے بقول افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجے جائیں گے تاہم انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کتنی تعداد میں فوجی افغانستان جائیں گے اور ان کی تعیناتی کی میعاد کیا ہوگی۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اعلیٰ امریکی حکام نے بتایا ہے کہ تقریباً 3900 مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجے جا رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی خصوصاً پاکستان پر لگائے جانے والے سنگین الزامات اور تنقید امریکی ذرائع ابلاغ میں زیرِ بحث ہیں۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کے منفی نتائج برآمد ہو ں گے۔
ایسے الزامات پاکستان کی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسوں کو دوبارہ ان جنگجو گروہوں کے قریب لانے کا باعث بنیں گے جن کی پاکستان ماضی میں حمایت کرتا رہا ہے۔
ماہرین کے بقول ٹرمپ کی تنقید پاکستان اور چین کے تعلقات مزید مستحکم کرنے کا باعث بھی بنے گی کیونکہ دونوں ممالک انڈیا کو خطے میں اپنا مخالف سمجھتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق ایک بین الاقوامی پالیسی ساز ادارے سے وابستہ افغان ماہر سیتھ جونز کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں انڈیا اور پاکستان کے مابین پراکسی جنگ جاری ہے اور ایک کی کامیابی دوسرے کے لیے بڑا نقصان تصور کیا جاتا ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے انڈیا کو افغانستان میں مزید کردار ادا کرنے کی دعوت بھی دی ہے جس پر حکومتِ پاکستان یقیناً ناخوش ہوگی۔ پاکستان کا درینہ موقف رہا ہے کہ انڈیا کی انٹیلیجنس ایجنسی را افغانستان کی سرزمین کو بلو چستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کروانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے انڈیا کو افغانستان میں مزید کردار ادا کرنے کی دعوت پر پاکستان کو شدید تحفظات ہو ں گے۔ اخبار کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ’ہاوس انٹیلیجنس کمیٹی‘ کے ممبر ’ایڈم بی شیف‘ کا کہنا ہے کہ ’ انڈیا کو افغانستان میں اپنا کردار بڑھانے کی دعوت کے باعث پاکستان سے تعاون کی امید مزید کم ہو جائے گی۔‘
اگرچہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کو بہت سخت الفاظ میں دھمکی دی گئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اسے حوالے سے ایک مخصوص حد تک ہی پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران پاکستان کو ناراض کرنا ایک دانشمندانہ قدم نہیں ہوگا۔
صدر اوباما کی حکومت میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہنے والے نیوریارک یونیورسٹی کے پروفیسر بانٹ روبن کے بقول پیٹاگون کو افغانستان میں موجود امریکی افواج تک رسد پہنچانے کے لیے پاکستان کی ضرورت رہے گی۔
روبن اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کا امریکی امداد خصوصاً فوجی امداد پر انحصار بہت کم ہوا ہے۔ جس کی وجہ چین سے دفاعی شعبے میں بڑھتا ہوا تعاون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی سازوں کے سامنے مزید راستے بھی کھلے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق واشنگٹن میں قائم ’میڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ‘ سے وابستہ ماہر عارف رفیق کا کہنا ہے کہ ’پاکستان امریکی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، چین کی جانب سے ملک میں کی جانے والی بڑی سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوا ہے، اور امریکی افواج کے بڑی پیمانے پر انخلا کے باوجود پاکستان کی افواج کی ملک کے سرحد علاقوں پر گرفت کمزور نہیں ہوئی ہے۔‘
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر الزامات لگانے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی چین کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو بھرپور انداز میں سراہا گیا۔