آمنہ مفتی کا پہلا ناول، جرأتِ رندانہ، اور روایات کی جڑیں
یہ ناول، جرأتِ رندانہ، تب لکھا گیا تھا جب چند بڑے نام اپنی تخلیقی زندگی کی آخری سانسوں پر تھے اور ہر کوئی انھیں سہارا دینا چاہتا تھا، جو اسے وہ توجہ نہ ملنے کا سبب بنا جس کا یہ مستحق تھا۔ اب ضرورت ہے کہ اس ناول کو revisit کیا جائے۔
از، خالد فتح محمد
جرأتِ رندانہ آمنہ مفتی کا پہلا ناول ہے۔ یہ ایک نیم مفلوج (پولیو زدہ) نو جوان کی کہانی ہے جو زندگی اور اس سے منسلک معاشرتی اقدار کو شکست دینے کے لیےسِینہ سَپرَ ہو جاتا ہے۔
ناول کے بیان کی خوبی ناول نگار کی کہانی پر گرفت ہے جو آج کے دور میں ہمیں کم ہی ملتی ہے۔ عام تاثر ہے کہ ناول ایک وسیع تر صنف ہے سو اس میں جو چاہے ٹھونستے جاؤ۔
اس ناول کی خوبی اس کا اپنے مِحوَر کے اندر رہنا ہی ہے اور کہانی میں کہیں جَھول نہیں ملتا جس کے سبب ناول کا توازن آخر تک قائم رہتا ہے جو ہنروری کے علاوہ کچھ نہیں۔
ناول گرد باد کا ایک مختصر جائزہ تبصرۂِ کتاب از، نعیم بیگ
یہ بھاگ بھری ناول ہے کہ آگہی کا نوحہ ہے تبصرۂِ کتاب از، علی اکبر ناطق
Recollections and reflections COVER POINT by Jamsheed Marker
Reviewed by, Naeem Baig
جرأت رندانہ کی کہانی ایک دریا کی طرح بہی چلی جاتی ہے جس میں متعدد ندیاں شامل ہوتی تو ہیں لیکن آمنہ مفتی نے کہیں بھی ان کے پانی کے رنگ کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔
جرأت رندانہ میں تکنیکی تجربات تو نہیں کیے گئے، لیکن اس کے بیان کا سِحَر قاری کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ یہ در اصل ایک دور اور مخصوص طبقے کی محرومی اور خود غرضی کا قصہ ہے جس کے بیان میں آمنہ مفتی نے کہیں بھی کرداروں کو ان کے طے کیے گئے دائروں سے باہر نہیں جانے دیا اور نہ ہی انھیں اپنا دستِ نگر رکھا ہے۔
یہ ناول در اصل ان سماجی اور معاشی تبدیلیوں سے منسلک ہے جسے اس طبقے کی سوچ اور نظریات جکڑے ہوئے ہیں اور جہاں بھی افراد یاسیَّت کو سامنے پاتے ہیں وہیں زندہ رہنے کے لیے وہ نئے اصول وضع کرتے نظر آتے ہیں: گو اس کے مخالف رجحانات موجود تھےجو مروجہ سماجی روایات کی شکست نہیں چاہتے تھے۔
جرأت رندانہ حقیقت نگاری میں گراں قدر اضافہ ہے جس میں روایات کی جڑوں کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اکھیڑنے کی بھر پُور کوشش کی گئی ہے: ایسی جو بھربھری سماجی زمین میں دور تک چلی گئی ہیں۔
یہ ناول تب لکھا گیا تھا جب چند بڑے نام اپنی تخلیقی زندگی کی آخری سانسوں پر تھے اور ہر کوئی انھیں سہارا دینا چاہتا تھا، جو اسے وہ توجہ نہ ملنے کا سبب بنا جس کا یہ مستحق تھا۔ اب ضرورت ہے کہ اس ناول کو revisit کیا جائے۔