انا کا کھیل
از، بابر ستار
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ’’تحریک برائے عدل‘‘ کیا ہے جسے شروع کرنے کا دعویٰ نواز شریف کررہے ہیں؟ یہ ایک سیاسی داؤ ہے جس کا مقصد سپریم کورٹ کو ایک جانبدار ادارہ ظاہر کرتے ہوئے تاثر دینا ہے کہ اس نے سابق وزیراعظم کو غلط طور پر منصب سے ہٹایا، تاریخی طور پر آئین پامال کرنے والے آمروں کا راستہ روکنے کی کبھی کوشش نہیں کی، اور موجودہ دور میں یہ ایگزیکٹو اور پارلیمان کے اختیارات کو بتدریج اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے۔ نوازشریف کے مطابق عدالت کا سب سے بڑا مقصد خود کو تمام اداروں سے برتر پوزیشن پر فائز کرنا ہے۔
نواز شریف پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے لیے عوامی حمایت کی لہر ابھارنے کی کوشش میں ہیں تاکہ وہ آئین میں ترمیم کرسکیں۔ اگرچہ اُن کا بنیادی مقصد اپنی نااہلی کو ختم کرانا ہے، لیکن تاثر یہ دے رہے ہیں کہ وہ دراصل آئین اور اس کے لوازمات، جیسا کہ نمائندہ جمہوریت بمقابل کنٹرولڈ جمہوریت، اختیارات کی علیحدگی بمقابل عدلیہ کی دخل اندازی، قانون کی حکمرانی بمقابل ججوں کی حکمرانی، طے شدہ طریق کار بمقابل من مانی سے دی جانے والی سزا۔ اصولوں کی پاسداری کا نعرہ ایک طرف، نواز شریف کا مقصد واضح دکھائی دیتا ہے۔ وہ جو کچھ عدالت میں ہار چکے ہیں، اُسے انتخابی معرکے میں جیتنے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی تاریخ میں ایسا کوئی اثاثہ نہیں جس سے ظاہر ہو کہ اسے نظام عدل کی اصلاح یا آئین کو تقویت دینے میں بہت دل چسپی ہے۔
نواز شریف نے 14ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں آرٹیکل 63 A کو شامل کیا تھا۔ یہ آرٹیکل پارٹی کے سربراہان کو پارٹی کے ارکان اسمبلی کے ووٹ اور ضمیر کا حاکم بنا دیتا ہے۔ اُنھوں نے 21 ویں ترمیم کی قیادت کی۔ اس کے ذریعے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا اور باقاعدہ قانونی طریقِ کار اور اختیارات کی علیحدگی کے اصول پامال کیے گئے۔ جب چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پی پی پی کا گلا دبوچا ہوا تھا تواُس وقت نواز شریف عدلیہ کی فعالیت کی داد دے رہے تھے۔
نوازشریف کو اقتدار سے پی ٹی آئی نے نہیں، سپریم کورٹ نے نکالا۔ جب تک سپریم کورٹ قانون کی ایک غیر جانبدار نگران رہتی ہے، نواز شریف کسی طور یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ لیکن اگر سپریم کورٹ کو سیاسی رقابت کے کھیل میں شریک ایک کھلاڑی (جو وہ یقیناً نہیں ہے) کے طور پر پیش کیا جائے تو پھر یہ اپنی غیر جانبداری اور قانون کی تشریح کرنے والے حتمی ادارے کی ساکھ کھو دی گئی۔ صرف اسی صورت میں نوازشریف کے پاس مظلومیت کو سیاسی حمایت میں ڈھالنے کا جواز نکلتا ہے۔ دوست کالم نگار، مشرف زیدی بالکل درست کہتے ہیں کہ نواز شریف محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرکے سپریم کورٹ کو تاو دلانے میں کامیاب رہے رہیں۔ چاہے غصہ تھا یا اپنے اختیارات پر ناز اور دلیر ی کا التباسی تصور، عدالت اسی میدان میں آگئی ہے جہاں نواز شریف اسے لانا چاہتے تھے۔
سیاست، حتٰی کہ مہذب جمہوری ریاستوں میں بھی، ایک گندہ کھیل ہے جس میں سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی حریفوں کا ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا معمول کی بات سمجھا جاتا ہے۔ لیکن انصاف کا دامن اجلا ہونا چاہیے۔ سیاستدانوں کو تنازعات راس آتے ہیں، ججوں کو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ججوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوام سے دور رہیں گے۔ وہ نہیں، اُن کے فیصلے بولتے ہیں۔ کیا جج حضرات بنچ سے اشتعال انگیز بیان بازی کا جواب دے سکتے ہیں۔ جارج برنارڈ شا نے کیچڑ سے لت پت کسی جانور سے کشتی لڑنے سے گریز کرنے کی نصیحت کی ہے۔ ایک تو آپ گندے ہوجائیں گے، اور دوسرے کیچڑ میں کشتی لڑنا اُس جانور کو مرغوب ہے۔ وہاں آپ اُسے پچھاڑ بھی دیں تو بھی آپ کے کپڑے اجلے نہیں رہیں گے۔
یہاں سیاست کی برائی نہیں، سیاسی اکھاڑے اور قانون کی عدالت کا فرق واضح کرنا مقصود ہے۔ ہوسکتاہے کہ نوازشریف نظام عدل کی اصلاح کے لیے قانون سازی کا کوئی ارادہ نہ رکھتے ہوں۔ وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اکیسویں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ نے خود کو کسی بھی آئینی ترمیم کو ویٹو کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ مشہور امریکی چیف جسٹس، ہیوز کا کہنا ہے ۔۔۔’’یقیناً ہم آئین کے تابع ہیں، لیکن آئین کا تعین بھی جج حضرات ہی کرتے ہیں۔‘‘
جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ایک دوسرے سے متحارب نہیں، ہم آہنگ ہونے والی اقدار ہیں۔ ان کی بنیاد قانون کی بالا دستی پر ہے۔ لیکن جب یہ ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہوں تو جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالا دستی، سب متاثر ہوتے ہیں۔ جب سپریم کورٹ این آر او فیصلے کے بعد پی پی پی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دیتی ہے تاکہ آصف زرداری کے خلاف تحقیقات ہوسکیں تو آج قانون کی حکمرانی کے بلند و بانگ نعرے لگانے والے (چاہے وہ ابھی تک پی پی پی میں ہوں یا پی ٹی آئی کی طرف ہجرت کرچکے ہوں) نے خبردار کرتے ہوئے تھا کہ سپریم کورٹ قانون کی حکمرانی کو جمہوریت کے مقابلے پر کھڑا کررہی ہے۔ اُس وقت نواز شریف ’’قانون کی حکمرانی کے کیمپ‘‘ میں تھے۔
2013 ء میں عمران خان نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس چوہدری پر الزامات کی بوچھاڑ کردی کہ اُنھوں نے مبینہ طور پر انتخابی دھاندلی میں معاونت کی، انتخابات چرائے اور جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ تحقیقات کے لیے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا کمیشن قائم ہوا۔ طویل سماعتوں کے بعد بھی انتخابی دھاندلی کا کوئی ثبوت پیش نہ کا جا سکا۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کے حامی ابھی تک دھاندلی کی تھیوری پر یقین رکھتے ہیں۔ پاناما کیس کے بعد نواز شریف سپریم کورٹ کی مخالف سمت دیکھے جارہے ہیں۔ اب اُن کا بیانیہ ’’جمہوریت بمقابل قانون کی حکمرانی‘‘ ہے۔ اُن کے سیاسی مخالفین ماضی میں سپریم کورٹ کو برا بھلا کہہ رہے تھے، لیکن اب وہ عدالت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سیاسی قلابازیوں پر حیرت کیسی؟
تاہم سپریم کورٹ چاہے کتنی ہی مقبول اورقابل ِ احترام کیوں نہ ہو، میڈیا کو استعمال کرے یا توہین عدالت کے نوٹسز بھجوا ئے، یہ سیاست دانوں کے ساتھ اُن کے میدان میں اتر کر مقابلہ نہیں کرسکتی۔ سوئس حکام کو خط لکھنے کے دور میں پی پی پی نے بہت جارحانہ لب و لہجہ اپنایا تھا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ اپنے احکامات کا نفاذ کرانے میں یکسو تھی۔ اس نے خط لکھنے سے انکار پر وزیر اعظم گیلانی کو نااہل کر دیا۔ اُس وقت بہت سے دھڑے چاہتے تھے کہ سپریم کورٹ صدر زرداری کو بھی منصب سے چلتا کرے۔ لیکن صدر زرداری نے اپنی مدت پوری کی اور خط سے کوئی سیاسی تلاطم پیدا نہ ہوا۔
سپریم کورٹ نے جج حضرات کو سنگین دھمکیاں دینے پر الطاف حسین کوبھی توہین کا نوٹس بھجوایا۔ عمران خان کو بھی ایسا ہی نوٹس بھجوایا گیا کیونکہ وہ دھاندلی میں فاضل جج صاحبان کو ملوث کر رہے تھے۔ ان دونوں واقعات میں عدالت کا مقصد تنبیہ کرنا تھا نہ کہ سزا دینا۔ اور سپریم کورٹ یقیناً معافی مانگنے پر توہین کے نوٹس خارج کرنے کی روایت رکھتی ہے۔
پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے اسلام آباد دھرنے کے دوران شاہراہِ دستور پر قبضہ کرلیا گیا۔ وکلا پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی قائم کردہ ’’سیکیورٹی چیک پوسٹس‘‘ سے گزر کر سپریم کورٹ جاتے۔ محترم جج صاحبان کو بھی عدالت پہنچنے کے لیے ایک طویل چکر کاٹنا پڑتا۔ اس دوران کنٹینرز پر سے مغلظات کا طوفان برپا تھا۔ تاہم سیاسی کیچڑ میں اترنے سے گریز کرنے کے لیے توہین عدالت کا کوئی نوٹس نہ بھیجا گیا۔
امریکہ میں مالیاتی بحران کے دوران صدر روزویلٹ کی ’’نیو ڈیل‘‘ کو روایت پرست سپریم کورٹ نے خارج کرنے کا عمل جاری رکھا۔ 1936ء میں جب روزویلٹ دوبارہ بھاری اکثریت سے جیت گئے تو اُنھوں نے ایک بل کے ذریعے عدالت کی کمپوزیشن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ اس بل کا عنوان ’’کورٹ پیکنگ پلان‘‘ تھا۔ ایک عوامی جلسے میں روز ویلٹ نے اس بل کی ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ ’’آئین کو عدالت سے، اور عدالت کو خود سے، بچانا ضروری ہوچکا ہے ۔‘‘ اگرچہ ابتدائی طور پر عوام نے اس بل کو بہت پذیرائی دی لیکن یہ جلد ہی اپوزیشن کے سیاسی مفاد کی نذر ہوگیا، اور قانون نہ بن سکا۔ ہماری سپریم کورٹ نے نواز شریف کو صادق اور امین نہ پاتے ہوئے نااہل قرار دے دیا۔
اس فیصلے پر جتنی بھی بحث یا تنقید کی جائے، اس کا نفاذ تو بہرحال ہوگیا۔ اب نواز شریف اپنا سیاسی کیریئر زندہ رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کو اپنے حریف اور جانبدارادارے کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ وہ عوام کو بتا رہے ہیں کہ اُنہیں ناروا طور پر عہدے سے ہٹایا گیا۔ وہ اپنے سیاسی مورچے میں ہیں، لیکن سپریم کورٹ کیوں اس تنازع میں الجھ رہی ہے؟ اس نے تنقید کا منھ بند کرنے کے لیے توہین کے قانون کی لبلبی پر انگلی کیوں رکھ دی ہے؟ کیا عدالت میں سرزنش کرنے سے سپریم کورٹ کا وقار بلند ہوتا ہے، یااس سے قانون کی حکمرانی قائم ہوتی ہے؟
پاکستان ایک کمزور جمہوریت رکھتا ہے۔ اس میں قانون کی حکمرانی کی روایت بہت گہری نہیں۔ اس کا آئین جاندار، اور ارتقا کے مراحل میں ہے۔ تاہم شہریوں کی آئینی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمیں ایک ایسی عدالت کی ضرورت ہے جو ساکھ رکھتی ہو اور جس کی غیر جانبداری کسی شک و شبہ سے بالا تر ہو۔ اس کے جج صاحبان ذاتی انا اور عزائم سے بلند ہوں۔ اُن کا ذوق انصاف عوامی مقبولیت کی مٹھاس سے آشنا نا ہو۔ نواز شریف کی سپریم کورٹ پر تنقید قابلِ مذمت ہے، بالکل جس طرح کل عمران خان اور آصف علی زرداری کی تھی۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ سیاسی دلدل میں اترنے سے گریز کرے گی یا حساب کتاب برابر کرنے کے لیے اس اکھاڑے میں جا اترے گی؟