اینکر صاحب مرزا غالب کا انٹرویو لیتے ہیں
از، نصیر احمد
‘میں درد زہ والی کی طرح چلاؤں گا’ عہد نامہ قدیم۔
لوگوں کی عقل، دلیل، ثبوت اور شہادتوں پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر بے یقینی دنیا میں بڑھ گئی ہے۔ موسموں پر تبدیلی پر لوگ توجہ نہیں دیتے، اس کے حوالے سے بہت سارے ثبوت مہیا کیے جا چکے، لوگ پھر بھی بات نہیں سنتے۔ کیا کیا جائے؟ راڑ کرو، شور مچاؤ، دُہائیاں دو، بین کرو، گریہ کرو۔
کوئی بھی معاملہ اٹھا کے دیکھ لیں، اچھا، برا یا خطرناک، اس کے ارد گرد وہ شور برپا ہے کہ معاملے کی نوعیت کیا ہے، یہ سوال تو پوچھا ہی نہیں جاتا۔ گلی محلوں کی لڑائیوں کا سا عالم ہے کہ جو بھی آتا ہے، وہ کچھ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ لڑائی کیوں ہو رہی ہے، وہ بس آ کر لڑائی میں اپنی شمولیت کو سب سے اہم سمجھتا ہے۔
میڈیا کے کسی آدمی کو کوئی بات نہیں بھائی، اس نے واویلا شروع کر دیا، شور و غل کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، اس معاملے کے ارد گرد قوانین بننے لگے،کوئی یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کرتا کہ کیا اس معاملے پر پہلے قوانین موجود ہیں کہ نہیں؟ وہ سب غیر متعلق ہے، چنچل بالک کو کھلونا چاہیے، کھلونا نہیں دو گے، تو وہ توڑ پھوڑ کرے گا۔
نیتا جی کچھ دنوں سے خبروں میں نہیں ہیں، وہ دُکھیا سے ہو گئے ہیں، ان کی اس کم زوری کا لوگوں کو پتا ہے، وہ لوگ اس کم زوری کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، نیتا جی کی دل میں غریبوں کی ہم دردی ہے، وہ جلوس لے آتے ہیں، اتنا شور مچاتے ہیں کہ کان بہرے ہو نے لگتے ہیں، ان کے چیلے چانٹے بھی شور مچاتے ہیں، ان کی دیکھا دیکھی راہ گیر بھی گلا پھاڑ کر چیختے ہیں، چیخ پکار کے بعد توڑ پھوڑ بھی ہوتی ہے، آخر میں سب لوگ حیران سے ہوتے ہیں کہ اتنا شور کیوں ہے؟
جب شور کی وجہ نہیں سمجھ آتی تو اس بات پر شور ہو جاتا ہے کہ اتنے شور کی وجہ کیوں نہیں سمجھ آرہی، حکومت کیا کر رہی ہے؟ عوام کیا کر رہے ہیں، دنیا کے منصف کیا کر رہے ہیں؟ کوئی کچھ بھی نہیں کر رہا؟
روحانی پیشوا نے کوئی سپنا دیکھا؟ ان کو سپنا دیکھنے کا حق کیا ہے؟ ایسے سپنوں سے ہم باز آئے۔ سپنے میں لڑکی دیکھی یا لڑکا؟ سپنے میں جو بھی تھا، اس کی شکل کس ادا کار سے ملتی ہے؟ وہ روحانی پیشوا ہیں انھوں نے جو بھی دیکھا، اس میں حکمتیں پوشیدہ ہیں، تم پوچھنے والے کون ہوتے ہو؟
لو جی دھینگا مشتی شروع اور سپنا کیا تھا، اس کاذکر ہی موقوف، بس قبریں اکھاڑی جا رہی ہیں۔
دنیا میں ہر طرف ہر معاملے کے لیے تیر بہ ہدف نسخوں جیسے نظریات کی کامیابی کا راز ہی یہی جذباتی سطحیت اور اس کے نتیجے میں برپا شور و غل کی وجہ سے ہے۔ اس شور و غُل میں بات کو اس طرح گھماتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کریں۔ ایک دوست جن کی غالب سے ملاقات رہتی ہے وہ بتا رہے تھے غالب نے بھی ایک دن ان صحافیوں کے سامنے یہ شعر پڑھا اور پھر گفتگو نے وہ رخ اختیار کیا کہ غالب نے عالمِ بالا ہی جا کے دم لیا۔
سخن کیا کہہ نہیں سکتے کہ جویا ہوں جواہر کے
جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھودیں جا کے معدن کو
میرزا نوشہ کی شاعرانہ تعلی کو پاکستان کی ریاست نے سرکاری پالیسی بنا لیا ہے کہ ہر معاملے میں سخن ہی کافی ہے مگر سخن بھی کیسا کہ میر و مرزا سنیں تو مبتذل مبتذل کرتے غش کھا جائیں۔ دیکھیے ایک ممتاز ٹی وی اینکر میرزا کا انٹرویو لے رہے ہیں۔
ٹی وی اینکر: میرزا تم نے مزدوروں کے کارخانے میں آگ کیوں لگائی۔ تمھیں یہ جرم کرتے ہوئے ان مزدوروں کے بیوی بچوں کا خیال کیوں نہیں آیا۔ تمھارا یہ جرم کرتے ہوئے کلیجہ کیوں نہیں پھٹا۔ تم کس قدر گھناؤنے آدمی ہو۔ غیرت اور شرم نام کی چیز تو تمھارے پاس سے نہیں گزری۔ پوری پاکستانی قوم کو بتاؤ تم نے یہ جرم کیوں کیا؟
غالب: اے میاں، یہ کیا واہی تباہی بکتے جا رہے ہو، کون سا کارخانہ؟ کون سے مزدور؟ مجھ نا کارہ بوڑھے سے چلم تو بھری نہیں جاتی۔ مجھ میں اتنی ہمت کہاں کہ آگ لگاتا پھروں اور پھر یہ لگائی بجھائی کا کام ذوق کرتے ہیں اور اشرفیوں کے توشے اور آموں کے ٹوکرے گھر لاتے ہیں، مگر بے چارے مزدوروں کو تو وہ بھی نہیں تنگ کرتے۔ سنا ہے کہاروں کو خوب نوازتے ہیں۔
ٹی وی اینکر: میرزا نوشہ، تم ہمیں چکر نہیں دے سکتے۔ تمھارے بیانات چھپے ہیں، تم نے بڑے ثبوت چھوڑے ہیں، اب تم بچ کے نہیں جا سکتے۔ تم نے سنا نہیں خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔
غالب: کس رسالے میں ہمارے بیانات چھپے ہیں۔ ہمارا تو تذکرہ ہی ممنوع ہے۔ نہ منشی باقر سے صاحب سلامت ہے اور نہ راجا صاحب مجھے پوچھتے ہیں۔ تم ہمیں کوئی ضعف دماغ کے مریض لگتے ہو۔
ٹی وی اینکر: تم نے اقبالی بیان بھی دیا ہے کہ مُوئے آتش دیدہ ہے حلقہ میری زنجیر کا۔ صاف صاف ظاہر ہے کہ تم نے آگ لگائی اور وہ موئے اور وہ موئے اس لیے کی تم نے آگ لگانے سے پہلے انھیں زنجیروں میں باندھ دیا تھا۔
اب اس جیسی تفسیروں اور تعبیروں کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے؟