انگریزی کو سرکاری زبان کی کرسی سے نوازا جائے؟
(نسیم سید)
مذہب اور زبان دو ایسے پیڑول ہیں کہ بس تیلی دکھانے کی دیر ہے اور سب کچھ جل کے خاک ہوجاتا ہے۔ آج کل ایک نئی بحث دیکھ رہی ہوں۔ بلکہ ایک نئی چنگاری کو شعلہ بنتے دیکھ رہی ہوں۔ اردو ہی کیوں، پنجابی سرکاری زبان کیوں نہیں؟ چلیں اردو کو گدی سے پکڑ کے سرکاری کی کرسی سے گھسیٹ لیتے ہیں، تو کیا معجزہ ہوجائے گا ؟ یہ زبان توپہلے ہی کرسی نام کا سہرا باندھے سرپر کچرا چن رہی ہے۔
پاکستان کے گھروں میں بچے انگریزی بولتے ہیں؛ اردو سرکاری ہے یا درباری، ان کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ خواتیں انگریزی میں بات کرتی ہیں اور ایسے لہجے میں بات کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس کا تلفظ کسی طرح بھی اردو کا نہ ہو۔ پڑھے لکھے مرد جوبڑی بڑی محفلیں برپا کرتے ہیں ان محفلوں کی صدر نشین انگریزی ہوتی ہے۔
جو یہاں مغربی ممالک میں اختیاری ہجرت کے مزے لوٹ رہے ہیں وہ ہائے اردو، وائے اردو کی بربادی کے غم میں گریبان چاک ہیں۔ وہ ایک جملہ بولیں گے تو سو مثالیں انگریزی کے بڑے بڑے ادیبوں کے نام کے حوالے کے ساتھ بولیں گے تاکہ علمیت کا دبدبہ قائم رہے۔
ہمارے مضامین میں، ہمارے تبصروں میں،ہماری ادبی تھیوریز میں سارا کچھ انگریزی سے مستعارلیا ہوا ہے۔ اچھا ذرا سا رک کے اس جگہ ایک سوال پوچھتی ہوں۔ جو خواتین و حضرات انگریزی میں لکھ رہے ہیں کیا وہ اس لئے لکھ رہے ہیں کہ چلو انگریزی پر احسان کردیا جائے؟ کیا ان کی تخلیقات انگریزی زبان پر کوئی احسان ہیں؟
نہیں یہ وجہ نہیں ہے، بلکہ اس لئے لکھ رہے ہیں کہ ان کا مطالعہ انگریزی کا زیادہ ہے۔ یہ زبان ان کو متاثر کررہی ہے اورسب سے بڑھ کے اس زبان میں ان کو اپنی بات زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچانے میں سہولت ہوگی۔ اورپھر یہ کہ ہر انسان کی زبان، لباس، طرز زندگی کی اپنی ترجیحات ہیں۔
اگرپنجاب کے بڑے ادیبوں نے اردو کا انتخاب کیا، اوراسے اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا تو یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا، نہ کہ اردو کا کوئی ہنٹر برس رہا تھا ان کے قلم پر؛ نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آتی ان کی اگر وہ اردو میں نا لکھتے۔
یہ سارا معاملہ بالکل ایسے ہی جیسے انگریزی میں لکھنے والوں کی اپنی پسند، اپنی سہولت اوراپنا فیصلہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم ابھی تک قبائلی سوچ سے آگے نہیں جا سکے۔ ہماراوجود ’’ میں ’’ اور ’’ میرا’’ کی قید میں محدود سے محدود ترہوتا جا رہا ہے اورہرمحبت کو بے دریغ قربان کرنے کوتیار ہیں: اس تقسیم در تقسیم کی روایت کے سبب۔
رہی بات اردو کی سرکا ری زبان والی تو یہ جو نگوڑی اردو کے گلے میں سرکاری کا پٹہ ڈلا ہوا ہے اس کو اتار کے کیوں نا انگریزی کوسرکاری زبان کی یہ کرسی عطا کی جائے؟ نفرتوں کے اتنے دائروں میں ایک اور دائرے کا اضافہ کرنے، ایک اور مارو پکڑو جلاؤ گھیراؤ سے تو بچ جائیں گے؛ اورایک ایسی زبان جس کو جتانا، لکھنا، اور بولنا ہمارے لئے باعث افتخارہے، کم ازکم اسےتو پوری دیانت داری سے اپنا سکیں گے۔