دو ناراض پڑوسی
از، امر جلیل
آج ہم آپس میں باتیں کریں گے دو ناراض پڑوسیوں کے بارے میں۔دیکھ رہا ہوں کہ آپ مسکرا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ آپ بات کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں، مگرایسا نہیں ہے۔ دو ناراض پڑوسیوں سے میری مراد وہ دو پڑوسی ممالک نہیں ہیں جو آپ سوچ رہے ہیں۔ میرے چھوٹے سے سر میں چھوٹا سا بھیجا ہے۔
میں بڑی بڑی باتیں نہیں کر سکتا۔ میں چھوٹی چھوٹی باتیں کرتا ہوں۔ ممالک کی باتیں افلاطونی سیاست دان کرتے ہیں۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ ناکوں چنے چبوانے کی باتیں کرتے ہیں ایک دوسرے کے دانت کھٹے کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔
ہم اپنے جیسے عام پڑوسیوں کی باتیں کریں گے۔ عام پڑوسیوں سے میری مراد ہے ایسے پڑوسی جو ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے، ایک دوسرے سے ناراض رہتے ہیں۔ مگر جب بیمار پڑتے ہیں تب علاج کروانے باہر نہیں جاتے۔ میرا مطلب ہے بیرون ملک نہیں جاتے۔ بلکہ اپنے گلی کوچے کے ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہیں۔
ناراض پڑوسیوں سے میری مراد ہے ایسے پڑوسی جن کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ اکثر کھانستے رہتے ہیں۔ پولیو کی وجہ سے اپاہج ہو جاتے ہیں۔ عام ناراض پڑوسیوں سے میری م راد ہے ایسے پڑوسی جو ایک ہی گھاٹ سے غلیظپانی پیتے ہیں۔ ایک قسم کی، ایک ہی نوعیت کی شکایتیں کرتے ہیں۔ حکمرانوں کو جلی کٹی سناتے ہیں۔ مگر ایک دوسرے سے ناراض رہتے ہیں۔ خفا رہتے ہیں، ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔
ناراضی بے وجہ نہیں ہوتی، ایک گھسا پٹا محاورہ آپ نے ضرور سنا ہو گا کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ مگر کچھ ناراضیاں اور نفرتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں تالی ایک ہاتھ سے بجتی ہے۔
ایک ہاتھ کی تالی ہمارے اپنے وجود میں پنپنے والے حسد سے بجتی ہے۔ ایک پھوہڑ اور بے ضبط زندگی گزارنے والا شخص باضابطہ زندگی گزارنے والے پڑوسی کو پسند نہیں کرتا۔
اس کے طرز زندگی کو مصنوعی اور دکھاوے کی زندگی سمجھتا ہے۔ اس کے بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی دیکھ کر وہ کڑھتا ہے۔ پڑوسی کی کفایت شعاری کو کنجوسی سمجھتا ہے اور اس کا مذاق اڑاتا ہے۔
اپنی فضول خرچی پر اتر آتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اپنے پڑوسی کے لیے نفرت کی تالی ان کے وجود میں حسد کی آگ سے بجتی ہے۔ اس نوعیت کی نفرت ایک ہاتھ سے تالی بجانے والے ناراض پڑوسی کو چین کی نیند سونے نہیں دیتی۔ کچھ عرصہ بعد اسے ڈپریشن میں دھکیل دیتی ہے۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ذیا بطیس اسے جکڑ لیتی ہے۔ بے خوابی اسے نیم پاگل بنا دیتی ہے۔ ایک ہاتھ سے تالی بجانے والوں کو بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
دو ناراض پڑوسی ایسے بھی ہوتے ہیں جو دنیا کو اپنے طرز زندگی سے متاثر کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔
اگر ایک پڑوسی نئی گاڑی لے آتا ہے تو دوسرا پڑوسی اس سے بہتر گاڑی خرید کر لے آتا ہے۔ آج کل پاکستانی بینکوں نے ایسے پڑوسیوں کے لیے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ قرض لیں، پڑوسی کے فرنیچر سے اچھا فرنیچر لے آئیں، قرض لیں، دوسری گاڑی بھی لے آئیں۔
اگر پڑوسی کے پاس دوسری گاڑی ہے۔ تو پھر بینک کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ قرض اٹھائیں اور تیسری گاڑی لے آئیں، اگر پڑوسی کے گھر کے ہر بیڈ روم میں پچاس انچ کے ٹیلی ویژن سیٹ لگے ہوئے ہیں تو آپ اپنے گھر کے ہر بیڈ روم میں ساٹھ ستر انچ کے ٹیلی وژن لگوائیں۔ اگر پڑوسی کے گھر کے ہر بیڈ روم، لاؤنج اورڈرائنگ ڈائننگ روم میں ایئر کنڈیشنر لگے ہوئے ہیں اور آپ کے گھر کے ہر بیڈ روم، لاؤنج اور ڈرائنگ ڈائننگ روم میں بھی ایئر کنڈیشنر لگے ہوئے ہیں تو پھر پڑوسی کو نیچا دکھانے کے لیے آپ گھر کے ہر باتھ روم اور کچن میں ایک ایک ایئر کنڈیشنز لگوا دیں۔
پیسے کی پروا مت کریں۔ قرض دینے کے لیے پاکستانی بینک ہیں نا، پھر فکر کیسی! ہماری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے۔ پڑوسی کو نیچا دکھانا، پڑوسی کو جلانا اور ذلیل کرنا۔
کچھ ناراض پڑوسی ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ بال بچوں کی بہتری کی فکر کرنے کے بجائے وہ اپنے تمام وسائل ایک دوسرے کو برباد کرنے کی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔
میں دو ایسے ناراض پڑوسیوں کو جانتا ہوں، پہچانتا ہوں جو ایک دوسرے کے وجود کو برداشت نہیں کرتے۔ ایک پڑوسی میرے جیسا بونگا ہے۔ اور دوسرا پڑوسی چالاک اور کائیاں ہے۔ میرے جیسے بونگے پڑوسی نے اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا ہے۔ قرضوں نے اسے مفلوج کر دیا ہے۔
اس کے گھر میں افراتفری ہے۔ اس کے برعکس چالاک پڑوسی صرف دس فیصد اپنی توانائی دوسرے پڑوسی کو پریشان رکھنے پر صرف کرنا ہے۔ اور اپنی نوے فیصد توانائی اپنے گھر بار کی بہتری اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور تربیت پر خرچ کرتا ہے۔ اب آپ بتائیں۔ آپ کس قسم کے پڑوسی ہیں؟