سعودی عرب میں عید الاضحیٰ پر قربانی کا کیسا کلچر

سعودی عرب اور رسمِ ابراہیمی

سعودی عرب میں عید الاضحیٰ پر قربانی کا کیسا کلچر ہے؟

از، منصور ندیم 

سعودی عرب میں یہ میرا پندرہواں سال ہے۔ ان 15 برسوں میں میں نے عید الاضحیٰ کے کئی مواقِع پر سعودی عرب میں ہی قربانی کی ہے۔ پہلی بات تو میں نے جو یہاں پر سمجھی کہ قربانی کا تصور عربوں کے ہاں بالکل بھی ہمارے برِّصغیری سماج کی طرح نہیں ہے۔

سعودی قربانی کو فقط ایک رسمِ ابراہیمی یا سنت سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ جو بھی استطاعت کے حامل ہوتے ہیں وہ اسے ادا کر لیتے ہیں۔ بڑی سے بڑی فیملی میں زیادہ سے زیادہ ایک قربانی ہو گی، کیوں کہ بکرے کی قربانی مخصوص اس دن کے علاوہ بھی ان کے ہاں ایک عام سی بات ہے۔ 

شادی بیاہ میں بکروں کی قربانی لازمی ہوتی ہے۔ اہم تقریبات میں بھی اکثر سعودی بکرے کی قربانی کرتے ہیں۔ بدوی سماج میں تو اگر کسی کے گھر میں کوئی مہمان آیا ہے اور اس نے تازہ بکرا ذبح نہیں کیا تو یہ ایک ناممکن بات کہلائی جا سکتی ہے، یعنی یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ بدوی سماج میں مہمان کی آمد پر تازہ بکرا نہ ذبح کیا جائے۔

رمضان کی آمد سے ایک دن پہلے بکرے کی قربانی عرب کی سماجیات میں بھی کافی حد تک لازمی امر ہے۔ اور پہلے روزے میں لازمی اعِزّاء اقربا اور پڑوسیوں میں اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔ 

لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ عید الاضحیٰ کے دن یہاں بالکل ایک نارمل سا ماحول رہتا ہے۔ شہری زندگی میں یہ نا ممکن بات ہے کہ کوئی بھی شہری کسی بھی قسم کا قربانی کا جان ور شہر کے اندر لے آئے، گلیوں میں پِھرائے یا گھر میں باندھے۔ یہ معاملہ یہاں پر ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

جنھیں بھی قربانی کرنی یے، اس کا ایک طریقۂِ کار ہے؛ یا تو آپ کسی دیہی علاقے، مزرعے یا فارم ہاؤس میں قربانی کا جان ور لے جا کر خود ذبح کر سکتے ہیں، ورنہ مویشی منڈی سے آپ جان ور خرید کر ڈائریکٹ مذبح خانے slaughter house لے جائیں۔ ورنہ سلاٹر ہاؤس میں بھی جان ور مل جاتے ہیں آپ قیمت ادا کریں ٹوکن لے لیں اپ کی قربانی ہو جائے گی۔ 

آپ کو یہ طے کرنا پڑے گا کہ آپ کو گوشت بھی چاہیے، بہ صورتِ دیگر وہ اس کو کسی کو اور کو دے دیں گے۔ دوسرے طریقوں میں یہ ہے کہ ہر بڑے ہائپر مارکیٹ میں با قاعدہ گوشت کا سیکشن ہوتا ہے۔ وہی گوشت کے سیکشن والے بھی آپ کو یہ سروسز دیتے ہیں کہ اگر آپ ان سے قربانی کروائیں تو وہ آپ کو نام پر قربانی کر دیں گے، اور آپ ان سے گوشت لے لیں گے۔ حتیٰ کہ قصاب بھی یہ سروس دیتے ہیں، ان کے ساتھ اپ مخصوص وزن کے جان ور کی قیمت طے کر لیں اور وہ آپ کو ایک وقت دے دیں گے اس وقت جا کر آپ اپنا مطلوبہ گوشت ان سے لے لیں۔ 

ہمارے آفس میں اس وقت 10 سے زائد سعودی سٹاف ہے میں نے خصوصاً سب سے پوچھا تو پتا چلا کہ کسی نے بھی قربانی نہیں کی۔ ان کے مطابق ان کی اس وقت حیثیت نہیں ہے، ما سوائے ایک شخص کے جو بنیادی طور پر جیزان سے تعلق رکھتا ہے، اس کے فیملی سربراہ نے قربانی کی ہے، جو اس کے شادی شدہ بچوں میں سب کی طرف سے ادا ہو گئی ہے۔ 

یہاں کوئی کسی سے نہیں پوچھتا کہ کتنے کا جان ور لا رہے ہو، قربانی کر رہے ہو یا نہیں کر رہے۔ یہاں کسی کو اس طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہے کہ کوئی سے کسی اور کو دیکھ کر اپنے اپ کو تکلیف میں مبتلا پائے یا بچوں کے درمیان میں ایک کش مکش شروع ہو کے ہمارے فلاں رشتے داروں نے تو اتنا اچھا بیل یا گائے خریدی ہے اور ہم کچھ نہیں کر رہے۔ 

مجھے اپنے بچپن یاد ہے ہمارے والد صاحب عمومی طور پر قربانی نہیں کرتے تھے۔ شاید اس وقت میں نے سیون کلاس میں تھا جب مجھے یاد ہے کہ ہم عید کے قریب ایّام میں سارا دن گلیوں میں لوگوں کے گائے اور بکرے دیکھتے تو ہم نے بھی اپنے والد صاحب سے شدید تقاضا رکھا۔ تب ہمارے والد نے ہمت کر کے ایک بکرا ہمیں لا دیا تھا، لیکن انھیں بعد میں کچھ ماہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ خیر وہ پہلی بار نہیں تھا اس کے بعد ابو جی ہمیشہ ہی ہر سال بکرا لے آتے تھے۔

 میں اس سچائی کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ کم از کم پاکستانی سماج میں قربانی ہے بالکل ایک کمرشل ایونٹ ہے۔ سعودی عرب میں نہ ہی اس حوالے سے مسجدوں میں کوئی اعلان کیے جاتے ہیں، نہ ہی اس کے فضائل و مناقب بیان کیے جاتے ہیں نہ ہی جان وروں کی کھالیں جمع کی جاتی ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ 

میں خطۂِ عرب میں قربانی کی اس رسمِ ابراہیمی کے طریقے کو اپنی مقامی سماجیات سے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں، اس کی وجہ انسانی سماجیات میں اس معاملے اور رویوں کے استحصال سے جنم لینے والی تفریق ہے۔ پاکستان میں بھی جن جن لوگوں کو قربانی کرنی ہے اس کا ایک طریقۂِ کار وضع ہونا چاہیے۔ گلی محلوں میں گائے بیل بکرے اونٹ نہیں آنے چاہییں، تا کہ آس پاس سوسائٹی میں لوگوں میں یہ احساس نہ پیدا ہو کہ وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتے اور یہ ایک ایسا مذہبی فریضہ بھی نہیں ہے کہ جس کی فرضیّت یا واجبیّت کی کوئی سخت ترین حیثیت ہے۔ اس لیے مذہب میں جو چیز سنت یا رسم کی حیثیت رکھتی ہے اس کو اتنا ہی رکھنا چاہیے۔

ممکن ہے بہت سارے لوگوں کو میری اس بات سے اختلاف ہوگا۔ یہ میری رائے ہے جسے میں بالکل درست سمجھتا ہوں اور اسے میں کسی بھی طور پر مذہبی اختلاف کی بنیاد پر نہیں لکھ رہا بل کہ سماجی استِحصال کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں۔ میں قربانی کا انکار تو بالکل نہیں کر رہا، اور یہ بھی نہیں کہہ رہا ہے کسی کی بیٹی کا جہیز بنائیں اور نہ ہی واٹر کولر کی ترغیب ہے، بل کہ صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اسے ایک کمرشل ایونٹ بھی نہ بنایا جائے، جو لاکھوں لوگوں کو ایک ابتلاء میں مبتلاء کر دیتا ہے۔ جو لوگ اسے کمرشل ایونٹ نہیں مانتے میری نظر میں تو وہ بے وقوف ہیں، یا وہ حقیقتاً معاشرے کے ان سماجی پہلووں سے نا آشنا ہیں۔