اپنا گھر درست کریں
نجم سیٹھی
گزشتہ دنوں وزیرِخارجہ خواجہ آصف اور اُن کا یہ بیان ہیڈ لائنز پر چھایا رہا ۔۔۔’’عالمی سطح پر شرمندگی سے بچنے کے لیے ہمیں اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ اُنھوں نے تسلیم کیا کہ 1980 کی دھائی میں پاکستان کا سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ میں پراکسی کا کردار ادا کرنا ایک ’’غلطی‘‘ تھا۔ اُن کامزید کہنا تھا،’’ہمارے شانوں پر ماضی کا بوجھ موجود ہے۔ ہمیں اسے تسلیم کرنا، اور خود کو درست کرنا ہوگا۔‘‘
اس کا مطلب ہے کہ خواجہ آصف نئی خارجہ پالیسی چاہتے ہیں تاکہ پاکستان اُس علاقائی صورتِ حال کا مقابلہ کرسکے جس میں اسے تنہائی اورتنقید کا سامنا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر کھلی انداز کی تنقید کرتے ہوئے اسے افغانستان کے ’’مسئلے کا حصہ‘‘ قرار دیا۔ اس کے بعد، ابھی حال ہی میں، برکس کانفرنس نے پہلی بار پاکستان میں موجودہ غیر ریاستی عناصر ، جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جیش محمد وغیرہ کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شمار کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ خطے کے اہم ترین اسٹیک ہولڈرز، چین، روس، امریکہ، انڈیا اور افغانستان نے مشترکہ طور پر پاکستان کو نوٹس بھیجا ہے۔ اس سے پہلے تو چین پاکستان کو عالمی فورمز پر بچانے کی پوری کوشش کرتا رہا تھا لیکن اب حالات کے تیور بدلتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان دونوں مواقع پر پاکستان کا روایتی رد عمل دہری نوعیت کا تھا۔ پہلا، سول ملٹری قیادت نے مل کر ان الزامات کو مسترد کردیا کہ پاکستان اُن دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے جو ہمسایہ ممالک، بھارت اور افغانستان کو زک پہنچاتے ہیں۔ اپنے اس موقف کے دفاع میں پاکستان وہی پرانا بیانیہ دہرا رہا ہے کہ اس نے مشرقی اور مغربی سرحدوں کی طرف ملک میں داخل کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہریوں اور فوجیوں کی جانوں کی بہت بھاری قربانی دی ہے۔ دوسرا، اس نے فوری طور پر سفارت کاروں کی کانفرنس بلا کر خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر اپنا رد عمل ظاہر کرنے کے لیے مناسب پالیسی وضع کرنے کی کوشش کی۔ خواجہ آصف کا بیان فارن پالیسی اسٹیبلشمنٹ کے اہم عناصر کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
اس ماحول میں خواجہ آصف کی طرف سے نہایت ٹھنڈے دل سے اپنی غلطیوں کے عوامی سطح پر اعتراف اور نئی خارجہ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت پر زور حیران کن پیش رفت ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب نیشنل سیکورٹی کونسل کی میٹنگ میں چند ایک سویلینز نے ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا تھا تو اسٹیبلشمنٹ کو تاؤ آگیا۔ اس پر’’ڈان لیکس‘‘ کے ذریعے نوازشریف انتظامیہ کو ہلاکر رکھ دیا گیا۔ اب وہی اسٹیبلشمنٹ سویلین قیادت کی تجویز سے اتفاق کررہی ہے کہ ہمیں نیشنل سیکورٹی ڈاکٹرائن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ عالمی برادری کے خدشات دور کیے جاسکیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو ایک لحاظ سے تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن ایک اور حوالے سے علاقائی اسٹیک ہولڈرز اسے مسترد کرتے ہیں، اور مسترد کرنے والوں میں چین بھی شامل ہے۔ دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پاکستانی فوج نے تحریک طالبان پاکستان، داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں، چاہے اُن کی جڑیں ملک میں ہیں یا ملک سے باہر، کے خلاف موثر جنگ لڑی ہے۔ یہ دہشت گرد پاکستانی عوام اور سیکورٹی فورسز کو نقصان پہنچا رہے تھے۔
لیکن دنیا پاکستان کے کردار کو اس حوالے سے مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس کے ہاں موجود حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور جیش محمد، جو پاکستان کو تو نہیں لیکن انڈیا اور افغانستان کو نقصان پہنچاتے ہیں، کو اس کی مبینہ اعلانیہ یا خفیہ حمایت حاصل ہے۔
چنانچہ جب خواجہ آصف خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی میں تبدیلی کامطالبہ کرتے ہیں تو یہ بات ظاہر ہے کہ وہ انہی گروہوں کی بابت پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کا کہہ رہے ہیں۔ عالمی برداری کو انہی گروہوں کے حوالے سے تشویش ہے نہ کہ تحریک طالبان پاکستان اور داعش سے۔ جب عالمی برادری ’’ڈومو‘‘ کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا اشارہ پہلے گروپ کی طرف ہوتا ہے نہ کہ دوسرے۔ اہم پیش رفت البتہ یہ ہے کہ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس بات کو تسلیم کرنا شروع کردیا ہے۔
ایک مسئلہ اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ’’ڈومور‘‘ کس طرح کیا جائے؟
حقانی نیٹ ورک اور دیگر افغان طالبان کو بنیادی طور پر محفوظ ٹھکانے اسی لیے فراہم کیے گئے تھے کہ اُن کے ذریعے افغان خانہ جنگی میں پاکستان کے مفاد کا تحفظ کیا جائے گا۔ اب تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مفاد کا تحفظ تو کجا، وہ گروہ پاکستان پر بوجھ بن چکے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر اُن گروہوں کو زبردستی پاکستان سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان کے اندر داعش کے بازو مضبوط کریں گے اور ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں شدت آجائے گی۔
یہی مسئلہ لشکرِ طیبہ اور جیش محمد کے حوالے سے بھی ہے۔ ان دونوں کو کشمیر میں بھارتی قبضے کو زک پہنچانے کے لیے پروان چڑھایا گیا تھا، لیکن آج کے معروضی حالات میں خود کشمیری بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جہادیوں کی مدد قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ان کی وجہ سے ان کی انڈیا اور پاکستان، دونوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ ان گروہوں کے تنظیمی ڈھانچے کو ختم کرنا چاہے تو وہ تحریکِ طالبان پاکستان کی صفوں میں شامل ہو جائیں گے۔ جب 2005ء میں مشرف نے جہادی کیمپ بند کیے تو یہی کچھ ہوا تھا۔
پاکستان کا لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور حقانی نیٹ ورک کو غیر فعال کرنے کا عزم اُس وقت تقویت پاسکتا ہے جب افغانستان بھی اپنی سرزمین پر موجود تحریکِ طالبان پاکستان کا خاتمہ کرے اور بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والے بھارتی پراکسی عناصر کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دے۔ اسی طرح اگر انڈیا مسئلہ کشمیر کے حل پر مخلصانہ آمادگی ظاہر کردے جس پر کشمیری مطمئن ہوں تو پاکستان کو جہادیوں کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
لیکن نہ تو انڈیا اور نہ ہی افغانستان ان اقدامات کے لیے تیار ہیں۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جس کا تمام فریقوں کو فائدہ ہو۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کا معمول پر آنا بے حد ضروری ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کو بھی ایک دوسرے کے دہشت گردوں کو پالنے کی پالیسی ختم کرنی پڑے گی۔ امریکہ، روس اور چین کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان پر چڑھ دوڑنے کی بجائے ان مسائل کے حل میں اس کی مدد کریں۔