چلائے رکھیے اپنا ہٹ فارمولا
از، نصرت شمشاد
وہ 19 سال قبل، قتل کے کیس میں گرفتار ہوا، معاشی بدحالی، جھوٹے گواہوں کی مہربانیوں اور سست نظام انصاف کی سولی پر لٹکے اس نے سترہ سال کال کوٹھری میں ایڑیاں رگڑتے گزارے۔ پھر انصاف کی آس لئے اپنے اصل کو لوٹ گیا۔ اپنی موت کے دو سال بعد سپریم کورٹ میں وہ بے گناہ قرار پایا ہے اور باعزت بری ہوگیا ہے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتا تو شاید اپنی پارسائی کا یہ سرٹیفکٹ لے کر کسی پاگل خانے میں مقیم ہوجاتا۔ (وہ عورت نہیں تھا مرد تھا، مگر نچلے، دبے ہوئے، پسے ہوئے طبقہ کا کمزور مرد۔)
اس پر قاتلانہ حملہ ہوا، شدید زخمی حالت میں اس کےکچھ ہم جنس اسے اسپتال لے کر پہنچے۔ اسپتال کے عملے کو اس کے علاج سے زیادہ اس کی جنس سے دلچسپی تھی۔ غیر ضروری باتوں میں الجھ کر ایک انسان سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا گیا۔ (وہ نہ مرد تھا نہ عورت …. یعنی اس کا تعلق معاشرے کی سب سے بےضرر جنس سے تھا۔ مگر ساتھ ہی نچلے طبقے سے اس کی وابستگی بھی اس کی ایک شناخت تھی۔)
وسیع و عریض جائیداد، دو بھائی اور ایک وہ خود تھی یعنی زینب…. اپنی زندگی کی اولین بہاروں میں قدم رکھتے ہی وہ بھائیوں کو کھٹکنے لگی۔ وجہ اس کی شادی کے بعد ہاتھوں سے جانے والی دولت تھی۔ چنانچہ اس کے غیرت مند بھائیوں نے اسے اپنے ایک ہاری نوجوان نیاز کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے دیکھ کر اسے کاری اور نیاز کو کارو کردیا۔ یہ الگ بات کہ کاری اور کارو نے کبھی ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں تھا۔ (زینب عورت تھی مگر نیاز مرد تھا,جدی پشتی غلام مرد۔)
اس نے آٹھویں جماعت میں پورے اسکول میں ٹاپ کیا۔ تیرہ برس کی عمر میں ایسا قد کاٹھ نکالا کہ اٹھارہ سے کم کا نہ لگتا۔ ماں باپ کی نگاہیں اس کی نظر اتارتے نہ تھکتیں۔ ان کی امیدوں کا واحد مرکز، ان کی واحد اولاد تھا وہ۔ تنگدستی کے باوجود اس کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی اور اس نے بھی ماں باپ کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں کیا تھا۔ اسے ایک روز کامیابی کے آسمان پر چاند بن کر چمکنا تھا۔ مگر دو وحشی درندوں کی ہوس اس کے روشن مستقبل اور خوابوں کو نگل گئی۔ اس واقعہ کے بعد اس سے جیا نہ گیا اس نے شرم کے مارے خودکشی کر لی۔ (وہ صنف قوی میں سے تھا، مستقبل کا مرد تھا مگر حال کے ایک غریب، سبزی فروش مرد کا بیٹا۔)
اس نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے اہل خانہ سمیت پورے علاقے کو چودھری کی جدی پشتی غلامی میں دیکھا۔ وہ سب چوہدری کےقرض دار تھے اور قرض چکانے تک ان کے لئے کوئی راہ فرار نہ تھی اورقرض تھا کہ سالہاسال سے اترنے کے بجائے بڑھتا ہی جارہا تھا۔ اسے اپنے ماں باپ کی طرح اس خاندانی غلامی میں نہیں جانا تھا۔ اسی لئے وہ پڑھنا چاہتاتھا، جانتا تھا کہ تعلیم ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس سے چوہدری کی چوہدراہٹ کو شکست دی جاسکتی ہے۔
اس نے تعلیم کے لئے شہر جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ علاقے کے دونوں اسکول تو چوہدری کی کرم فرمائیوں کے طفیل گھوسٹ سکولز میں تبدیل ہوکر مویشی باڑے بن چکے تھے۔ مگر اس خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے سے قبل ہی کسی گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی۔ ایک غلام نےاپنی زندگی کا فیصلہ خود کرلیا تھا یہ چوہدری کے عہدہ کی توہین تھی، چوہدری کی عدالت نے فوری سزا سنائی ۔ نوجوان اور اس کے خاندان پر چوری کا الزام لگا کر ان کےقرض کو دو گنا کردیا گیا اور نوجوان کو عبرت کا نشان بنا نے کا فیصلہ صادر ہوا۔
پھرنوجوان کو بے لباس کرکے اس پرکتے چھوڑ دیئے گئے۔ اب وہ معذور، اپاہج، زندہ لاش، بوسیدہ گھر کی ایک جھلنگا چارپائی پر پڑی بے آ واز بین کرتی ہے۔ (یہ بھی ایک مرد تھامگر کمزور، اختیارات سے عاری مرد۔)
مرد طاقتور ہے اور عورت کم زور!
مرد ظالم یے اور عورت مظلوم!
ہوش سنبھالتے ہی درج بالا سماجی فلسفہ پڑھا بھی، اور خوب سنا بھی اور شعور کی سیڑھیاں چڑھنے سےپہلے تک واقعی یہی لگتا تھا کہ ہمارے سماج کا سب سے بڑا روگ جنس کی بنیاد پر عورت کا استحصال ہے۔ مگر جب مشاہدہ نے پلکیں جھپکیں تو عیاں ہوا حقیقت فلسفے سےافضل ہوتی ہے۔
درج بالا جو واقعات موجود ہیں، ایسے واقعات ہماری سماجی زندگی کا روزانہ کا معمول ہیں، مگر ان میں سے بیشتر سپاٹ لائٹ میں آئے بغیر ہی اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔ کیونکہ استحصال کا ہر وہ واقعہ جو ہمارے سماجی ہٹ فارمولے کی نفی کرتا ہو، ہمارےمیڈیا (الیکٹرانک، پرنٹ، سوشل) کے کسی کام کا نہیں ہوتا، اور ہمارے میڈیا کے مطابق ہمارا موجودہ سماجی ہٹ فارمولا عورت ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے بیوپاری ہوں یا پرنٹ اور سوشل میڈیا کے خود ساختہ اور حقیقی فلاسفرز، عورت ان کا سب سےکھرا، منافع بخش بکاؤ مال ہے۔ چنانچہ عورت بک رہی ہے اور بہت خوب بک رہی ہے۔ کہیں اس کی ادائیں ریٹنگ کی صورت فروخت ہورہی ہیں کہیں اس کی رسوائی، مجبوری اور مظلومیت کا تماشا لگا کر داد و تحسین سمیٹی جارہی ہے۔
لیکن بھیڑ چال کا شکار ہوئے بغیر اپنی آنکھوں سے اپنے سماج کا نظارہ کرنے والا ہر فرد بخوبی دیکھ سکتا ہے کہ اس سماج میں اگرعورت غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہے تو بخشا مرد کو بھی نہیں جاتا۔ عورت کو ریپ کیا جاتا ہے تو لڑکے بالے بھی سماجی درندوں کی ہوس کا شکاربنتے ہیں۔ اگر بچیوں کی بڑی عمر کے مردوں سے جبری شادیاں ہوتی ہیں تو کچھ علاقوں میں لڑکوں کو بھی ریت رواج اوربرادری ازم کی بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سماج کا اصل مسئلہ جنس کی بنیاد پر ہونے والا عورت کا استحصال نہیں ہے بلکہ طبقوں کی بنیاد پر ہونے والا انسانیت کا استحصال ہے۔
نہ مرد ظالم ہے نا عورت مظلوم؛ نہ مرد طاقتور ہے نہ عورت کمزور۔ یہاں جو با اختیار ہے، بارسوخ ہے؛ وسائل میں عہدہ میں اختیارات میں تعلقات میں وہ اعلٰی ہے، اونچا ہے، عزت والا ہے؛ اور جو محروم ہے سماجی عزت کے ان سارے درج بالا سطحی پیمانوں سے وہ کمتر ہے، نیچ ہے۔
ہم اس سماج کا حصہ ہیں، جس میں انسانیت سے لے کر انصاف تک کو خریدنا پڑتا ہے۔ یہ وہ سماج ہے جہاں اپنے کو انسانوں والی ٹریٹمنٹ دلانے کے لئے برینڈڈ کپڑوں اور جوتوں کاسہارا لینا پڑتا ہے۔ نچلے طبقہ کی صرف عورت حقیر نہیں ہے۔ مرد بھی اتنا ہی حقیر، اتنا ہی کمتر ہے جتنی اس طبقے کی عورت۔
طاقتور اور کمزور واقعی مد مقابل ہیں، مگر مقابلہ جنسوں کے بیچ نہیں طبقوں کے بیچ ہے، اونچ اور نیچ کے بیچ ہے۔ عورت اگر واقعی مظلوم اور کمزور ہوتی تو پوش طبقے کی عورتیں بھی اتنی بے بس اور لاچار ہوتیں جتنی پسماندہ طبقے کی عورت ہے۔ اس طبقے کی کسی عورت کی کبھی اتنی جرات نہ ہوتی کہ وہ اپنے مرد ملازموں (ڈرائیور، مالی، باورچی وغیرہ) کو اپنی انگلی کے اشاروں پر نچا پاتیں؛ اور مرد اگر واقعی طاقتور ہوتا تو پسماندہ طبقہ کا کوئی مرد کبھی کسی استحصال کا شکار نہ ہوتا۔
کھلی ہوئی حقیقت کو کچھ بیوپاریوں نے اپنی دکانیں چمکانے کے لئے پس منظر میں پھینک رکھاہے۔ طبقاتی جنگ کا مسئلہ چونکہ جنسوں کے مابین جنگ کی طرح چٹ پٹا ہے نا ریٹنگ مٹیریل، بلکہ خاصا پیچیدہ اور سنجیدہ ہے، جو نہ تو الیکٹرانک میڈیا کو ریٹنگ دے سکتا ہے نہ سوشل میڈیا کے فلاسفرز کی والز کو لائکس اور کمنٹس سے ہرا بھرا کرسکتا ہے، پھر وہ کیوں پس منظر کو منظر میں لا کر اپنی جمی جمائی دکانوں اور پتھاروں کا بھٹہ بٹھائیں گے۔
مگر حقیقت چھپانے سے چھپتی نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مرد ظالم ہے نا عورت مظلوم …. بس جس کی لاٹھی ہے اسی کی بھینس ہے۔ …کیا کہا؟ … نہیں!! چلیں خفا نہ ہوں، ہمارے مشاہدے پر خاک ڈالیں، آپ کو آپ کا ہٹ فارمولا مبارک۔
مرد ظالم ہے اور عورت مظلوم!
بہت خوب میں مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں… بس آپ کی قلم سے موضوع کے ایک دو پہلو چھوٹ گئے لیکن یہ زاویہ نظر بھی اہم ہے.
نصرت شمشاد آپ نے انتہائی اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ موجودہ نیولبرل سرمایہ دارانہ سیاست اور زرایع ابلاغ کا طریقہ واردات یہی ہے کہ واقعات کو ان کے حقیقی سیاق و سباق اور اسباب سے کاٹ کر محدود دائرے میں پییش کیا جائے اور انسانیت کو حقوق کے نام پر مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے ان کی طاقت کا کمزور کردیا جائے تاکہ وہ نہ اصل مسائل کو سمجھ سکیں اور نہ ہی کسی اجتماعی سوچ پر اکٹھے ہو سکیں۔