حقیقی آزادی درحقیقت اپنی ”اوقات“ پہچاننے کا نام ہے
از، نصرت جاوید
ملکی سیاست پر سچی بات ہے لکھنے کو ہرگز دل نہیں چاہتا۔ اپنی صحافتی عمر کا سب سے متحرک عرصہ میں نے پاکستان کے بھارت، افغانستان اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اُتار چڑھاﺅ کے بارے میں رپورٹنگ کرنے میں صرف کیا ہے۔ ماضی کے تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان تمام ممالک کے ساتھ ان دنوں کھڑے ہوئے سوالات پر غور کرتا ہوں تو دل کانپ جاتا ہے۔ خوف یا غم سے زیادہ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ ہمارے میڈیا کا تمام تر فوکس مقامی سیاست پر مرکوز ہوچکا ہے۔ اس فوکس میں بھی زیادہ گہرائی نہیں۔ سطحی معاملات ہیں۔ مثال کے طورپر راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کی پارلیمان پر برملا لعنت اور اس کے بعد استعفیٰ نہ دینے کا فیصلہ۔
”مجھے کیوں نکالا“ والی دہائی کا منطقی نتیجہ توہینِ عدالت کے نام پر لیے اقدامات کی صورت ہی نکلنا تھا۔ نہال ہاشمی کو اس ضمن میں سنائی سزا کا ایک ٹھوس پسِ منظر ہے۔ موصوف نے جوشِ خطابت میں جو کلمات ادا کیے وہ پانامہ دستاویزات سے جڑے معاملات کی تفتیش کو دھمکی آمیز انداز میں روکنے کی کوشش ہی شمار ہونا تھے۔ معافی کی گنجائش نکالنا شاید ممکن ہی نہیں تھا۔ طلال چودھری اور دانیال عزیز کو اس سلسلے میں جاری ہوئے نوٹسز شاید خالصتاََ قانونی اور علمی اعتبار سے کسی اور خانے میں بھی رکھ کر دیکھے جاسکتے ہیں۔ امید اب یہ کرنا ہوگی کہ ان کا معاملہ either/or والی تنگ نظری سے بالاتر ہوکر طے کیا جائے۔ چند حدود و اصول قطعیت کے ساتھ طے کردیے جائیں۔
ہر عمل کا مگر ایک ردعمل بھی ہوتا ہے اور حقائق خلاءمیں گردش نہیں کرتے۔ نہال ہاشمی کو واجب نظر آتی سزا کے تناظر میں یہ سوال اٹھنا بھی ضروری تھا کہ عدالت کی توہین زیادہ سنگین جرم ہے یا پورے عدالتی عمل کا طاقت کے زور پر تعطل یا خاتمہ۔
نومبر 2007 میں ججوں کو معطل اور ان کے گھروں میں نظر بند کرکے جنرل مشرف نے سپریم کورٹ کی محض توہین ہی نہیں کی تھی۔ اس ادارے کو بحیثیتِ مجموعی اپنی ضد اور ذاتی خواہشات کا نشانہ بنایا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب افتخار چودھری بحال ہوئے تو اپنا منصب سنبھالتے ہی اس اقدام کی باز پرس کا بندوبست کرتے۔ یہ ہوجاتا تو ہمارے ملک میں عدلیہ کے گرد ہمیشہ کے لیے ایک حفاظتی ریڈ لائن کھڑی ہوجاتی۔ چودھری صاحب نے مگر درگزر سے کام لیا اور اپنی عوامی مقبولیت کو ”چور لٹیرے“ سیاست دانوں کے ”احتساب“ کے لیے خرچ کرنا شروع ہوگئے۔
ان کی جانب سے مسلط کردہ عدالتی فعالیت نے بجلی کے بحران کو حل کرنے میں کوئی مدد فراہم نہ کی۔ ریکوڈیک کا فیصلہ بھی ہمارے لیے طویل المدتی بحران پیدا کرگیا۔ انفرادی مثالوں سے کہیں زیادہ اہم حقیقت مگر یہ رہی کہ عدالتی نظام اپنی سرشت میں جوں کا توں رہا۔ پاکستان کے عام شہری کے لیے ایسا ماحول ہرگز پیدا نہ ہوپایا جو اس کے لیے نچلی عدالتوں سے سستے اور فوری انصاف کو یقینی بناسکے۔
اپنی تمام تر فعالیت کے باوجود افتخار چودھری بھی جب بالآخر ”ارسلان کے ابو“ ہی نظر آئے تو مجھ ایسے سادہ لوح مزید مایوس ہوگئے۔ ”ہیروز“ پر اعتبار اُٹھ گیا۔ ”دیدہ وروں“ اور ”مسیحاﺅں“ کے انتظار کی عادت سے وحشت ہونے لگی۔
افتخار چودھری کی بحالی سے قبل میری آصف علی زرداری سے تنہائی میں کم از کم تین ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں بہت شدت کے ساتھ میں چودھری صاحب کی بحالی کے حق میں دلائل دیتا رہا۔ یہ سب ملاقاتیں ہم دونوں کے مابین تلخی کا باعث ہوئیں۔
اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد آصف علی زرداری جاتی امراء بھی گئے تھے۔ نواز شریف کے ساتھ ان کی وہاں جو آخری ملاقات ہوئی تھی اس کے دوران پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ تواتر کےساتھ ان سے گلہ کرتے رہے کہ جنرل مشرف کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا۔ آصف علی زرداری نے اس روز سرپر سندھی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ بالآخر اس ٹوپی کی طرف اُنگلی اٹھاکر بول اٹھے کہ ہم نے طاقت ور اداروں سے لڑتے ہوئے بہت جانیں گنوائی ہیں۔ اب حوصلہ نہیں رہا۔ عوامی قوت کے بل بوتے پر جب نواز شریف وزیر اعظم کے منصب پر لوٹ آئیں تو مشرف کے خلاف مقدمہ چلا لیں۔ تیسری بار وزیر اعظم کے دفتر میں لوٹ کر نواز شریف نے یقینا مشرف کے خلاف مقدمہ چلانا چاہا اور اس کا انجام ہم سب کو معلوم ہے۔
ایک مفکر کا قول ہے کہ حقیقی آزادی درحقیقت اپنی limitations (جسے میں ”اوقات“ کہوں گا) کو پہچاننے کا نام ہے۔ آصف علی زرداری نے مشرف کے ضمن میں اپنی ”اوقات“ خوب پہچان لی تھی۔ اس کا اعتراف بھی انہوں نے کھلے دل سے کیا۔ نوازشریف ایسا نہ کر پائے اور اب سردیوں کی شاموں میں اداس پھررہے ہیں۔
یہ حقیقت مگر اپنی جگہ موجود رہے گی کہ جب کبھی بھی کسی سیاست دان کو توہینِ عدالت کے الزام میں سزا سنائی جائے گی تو بے تحاشہ لوگوں کو مشرف کے حوالے سے داغ ِدل یاد آنا شروع ہوجائیں گے۔ایسی یاداس ملک میں ریاستی اداروں کی حدود واوقات کی نشان دہی بھی کرتی رہے گی۔
توہینِ عدالت سے متعلق واقعات مگر اب جنرل مشرف کی یاد ہی نہیں دلارہے۔ انٹرنیٹ کے تمام Apps کے ذریعے وہ تقاریر بھی مستقل گردش میں ہیں جو ایک علامہ صاحب نے عدلیہ کے معزز ترین ججوں کے نام لے کر تواتر کے ساتھ کی تھیں۔ ان کی بازپرس کبھی نہیں ہوئی۔ان ہی کی قیادت میں راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر ایک دھرنا بھی ہوا تھا۔ اس دھرنے سے نجات ہماری ریاست نے ایک دستاویزِ شکست پر دستخط کرکے حاصل کی تھی۔ اس کے بعد سے مذکورہ علامہ صاحب اور ان کی جماعت اپنے تئیں ایک طاقتور ترین عامل کی صورت ہمارے سیاسی منظر نامے پر ایک طاقت ور ترین قوت کی صورت نمودار ہوچکی ہے جو انگریزی محاورے کے مطابق کچھ بھی کرکے Get away with it والی سہولت سے مالا مال نظر آرہی ہے۔ ایسا نہ ہوکہ جیل سے رہائی کے بعد نہال ہاشمی اس جماعت میں شمولیت کی کوشش کرتے نظر آئیں۔
بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت