اپوکریفہ (Apocrypha)
افسانہ از، جواد حسنین بشر (ابنِ مسافر)
سکندر کی حالت غیر ہو چلی تھی۔ گھوڑے کی پیٹھ پر ٹکا اس کا بدن نڈھال ہو کر آگے کو جھک گیا تھا۔ باگوں پر اس کی انگلیاں لرزنے لگی تھیں اور پسینے کی نمی میں گُندھے اس کے گرد آلود لمبے اور بے ترتیب بال ادھر ادھر جھول رہے تھے۔ گھوڑے کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ خشک ترین پہاڑوں کے بیچ حد درجہ پتھریلے راستے پر مَریل چال چلتا سکندر کا گھوڑا کسی وقت بھی زمین بوس ہونے کو تھا۔ اگلے ہی لمحے سکندر کا بے جان جسم بائیں طرف ڈھلک گیا اور گھوڑے کے پاس کھڑے خضر نے اسے سہارا دے کر چھوٹے بڑے تپتے پتھروں کے بستر پر لٹا دیا۔ خضر کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ لیکن آبِ حیات کی بچھی کچھی طاقت نے اسے سہارا دے رکھا تھا۔ وہ ایک بار پھر سکندر کو کسی نا معلوم مقام کی طرف لیے جا رہا تھا۔ یہ سکندر وہ آبِ حیات والا سکندر نہیں تھا۔ لیکن تھا سکندر ہی اور تھا بھی بادشاہ۔ جب وہ چلے تھے توخوب شان و شوکت کا منظر تھا۔ ان کے ساتھ سینکڑوں دراز قد اور مضبوط گھڑ سوار اور رنگا رنگ بڑھکیلی وردیوں میں ملبوس چاک و چوبند پیادوں کے منظم دستے تھے۔
ناقابلِ عبور صحراؤں، ویران میدانوں، خوف ناک گھاٹیوں، آندھی طوفانوں اور بد بودار دلدلی علاقوں نے سکندر کی شان و شوکت کے تمام مظاہر کو دھیرے دھیرے نگل لیا تھا۔ اس کے سینکڑوں ہمراہی اسے اور خضر کو اپنی جانوں کی قربانی دے کر زندہ رکھنے کی کوشش میں کامیاب رہے تھے۔ لیکن اب سکندر، خضر اور اپنے گھوڑے کے ہمراہ تنہا اور بدحال تھا۔ اس کی ساری ہمتیں جواب دے چکی تھیں۔ سخت پتھریلی چٹانیں گویا سورج بنی ہوئیں تھیں اور پینے یا کھانے کو کچھ بھی نہیں بچا تھا۔
نئے والے سکندر کو آبِ حیات کی بجائے ایک کتاب کی تلاش تھی۔ جس میں ہمیشہ کی خوش حالی اور آسودگی کے راز لکھے تھے۔ اس کی بادشاہت خطرے میں تھی۔ اس کی سلطنت سے نعمتوں نے منہ موڑ لیے تھے۔ سیلابوں نے سر سبز میدانوں اور کھیتوں کو روند ڈالا تھا۔ ایک مستقل قحط کی سی صورت حال تھی۔ اُس کی ساری تدبیریں ناکام ہو چکی تھیں۔ ایسے میں ایک واقعہ رونما ہوا جس کے بعد یہ نیا والا سکندر آبِ حیات والے سکندر کی طرح یہ کٹھن سفر کرنے پر مجبور ہو گیا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک شخص کہیں سے سکندر کی سلطنت کی حدود میں داخل ہوا تھا۔ وہ کچھ ایسی باتیں کر رہا تھا جنھیں سن کر مقامی لوگوں نے اس کی تِکہ بوٹی اڑا دی تھی۔ وہ کسی کتاب کا نام بھی لیتا رہا تھا۔
سکندر کے خاص الخاص اہلِ علم مصاحبوں نے اس اجنبی کی باتوں سے اندازہ لگا کر یہ انکشاف کیا کہ اس رُوئے ارض پر ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہمیشہ کی خوش حالی، آسودگی اور صاحبِ طاقت رہنے کے راز درج ہیں اور وہ خوف اور غم کو فنا کر دینے والے منتروں سے بھری ہوئی ہے۔ سکندر تک جب اس بات کی خبر پہنچی تو وہ بہت بے چین اور غضب ناک ہوا۔ اُس نے اُن سب لوگوں کو سُولی چڑھا دیا جنھوں نے اُس اجنبی کا یہ حال کیا تھا۔ خاصُ الخاص مصاحبوں کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے سکندر نے خضر کو اپنی راہنمائی کے لیے ڈھونڈ نکالا اور کتاب کی تلاش کا سفر شروع ہوا۔
خضر نے اپنی لمبی زندگی کے تجربے کی بدولت کسی نہ کسی طرح صحیح سمت کا تعین کر لیا اور انسانوں، درختوں، چرند پرند اور دیگر مخلوقات کی مدد لیتا کسی نہ کسی طرح اس جگہ کے بارے میں جان لینے میں کامیاب ہو گیا جہاں وہ کتاب چھپی تھی۔ لیکن اس جگہ تک پہنچتے پہنچتے انھیں جن صعوبتوں اور مصیبتوں سے گزرنا پڑا انھوں نے سکندر کو موت کی دہلیز پر لا کھڑا کیا تھا۔ حالت خضر کی بھی کچھ کم بری نہیں تھی لیکن اس نے آبِ حیات پی رکھا تھا۔
اُس وقت جب یہ نیا سکندر خضر کی بانہوں میں آخری سانسیں لے رہا تھا تو وہ پہاڑ یہاں سے کچھ ہی دور تھا جس کے پیٹ میں وہ کتاب تلاش کیے جانے کی منتظر تھی۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سکندر نے آخری ہچکی لی اور ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ خضر تذبذب کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ وہ کافی دیر سوچتا رہا۔ ہمیشہ کی خوش حالی، آسودگی اور صاحبِ طاقت رہنے کے راز ۔۔۔ ہمیشہ کی زندگی ۔۔۔ کوئی رُوپوشی نہیں ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور پھر وہ لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
۔۔۔
گھور اندھیرے میں دائیں بائیں غار کی کُھردری اور ناہموار دیواروں کو ٹٹولتا خضر آگے ہی آگے بڑھ رہا تھا۔ اسے چلتے ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی لیکن غار تھی کہ لمبی ہی لمبی ہوتی چلی جا رہی تھی۔ جلد ہی اسے دور سے ایک جگنو سا نقطہ دکھائی دیا اور اس کے قدموں کی رفتار تیز ہو گئی۔ نقطہ قریب آتا گیا اور بڑا ہوتا گیا۔ بالآخر لمبا، تاریک تر اور نہایت تنگ راستہ ایک نسبتاً کشادہ اور روشن لیکن جہنم جیسی گرمی کی حامل جگہ میں جا کر کھلا۔ عین درمیان میں قدرتی پتھریلے فرش پر بڑے بڑے سائز کی کتابوں کا ڈھیر سا لگا تھا۔ کتابوں پر کتابیں دھری تھیں۔ خضر نے غور سے دیکھا تو اسے اس ڈھیر کی جُڑت میں تھوڑی بہت ترتیب دکھائی دی۔ خوب صورت سے ریشمی غلاف میں لپٹی ایک کتاب سب سے نیچے رکھی تھی۔ وہ کتاب اگرچہ ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن خضر کو غور سے دیکھنے پر اندازہ ہوا تھا کہ غلاف میں لپٹی کوئی کتاب ہے۔ اس کتاب کے اوپر چھ یا سات کانٹے دار لوہے کی جلدوں میں محفوظ بڑی بڑی موٹی تازی اور بھدی کتابوں کا بوجھ لدا ہوا تھا۔ کانٹے دار لوہے کی جلدیں گویا آگ میں دہکائی گئی تھیں۔ جن سے بھاپ اور حرارت خارج ہو ہو کر اُس جگہ کو جہنم بنائے ہوئی تھی۔ موٹی تازی اور بھدی کتابوں کے اوپر کئی کئی جلدوں پر مشتمل پہاڑوں جیسا بوجھ لیے مزید ایسی ہی کئی کتابیں عجیب اور خوف ناک نظارہ پیش کر رہی تھیں۔
خضر کے تجربہ کار ذہن نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ وہ جس کتاب کی تلاش میں آیا ہے وہ سب سے نیچے خوف ناک بوجھ تلے دبی خوب صورت سے ریشمی غلاف میں لپٹی کتاب ہے۔ اس نے بھدی اور موٹی تازی کانٹے دار دہکتی لوہے کی جلدوں میں ملبوس کتابوں کو ہٹانے کی کوشش شروع کر دی۔ لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور کوشش جاری رکھی۔ زخموں سے چور اور تکلیف سے بے جان کر دینے والی تگ و دو کے بعد خضر آخرِ کار تمام کے تمام اضافی بوجھ کو ہٹانے میں کامیاب ہوگیا۔
۔۔۔
خوب صورت ریشمی غلاف میں لپٹی کتاب کو بازوؤں میں سمیٹے، سینے سے لگائے، بدحال اور زخموں سے چور خضر نے غار کے دہانے سے باہر کھلی فضا میں قدم رکھا اور گرتا پڑتا ایک چٹان کے سائے میں جا بیٹھا۔ ہانپتا، کانپتا اور اکھڑے سانس بحال کرنے کی کوشش کرتا خضر اندر ہی اندر اپنی کامیابی پر نازاں بھی تھا۔ دِھیرے دِھیرے اُس کے بدن کی ساری تھکن اُس کے پپوٹوں پر جمع ہونے لگی اور جلد ہی وہ نیند کی پُرسکون وادیوں میں اترتا چلا گیا۔
۔۔۔
خضر کی آنکھ کھلی تو موسلا دھار بارش برس رہی تھی۔ وہ جس چٹان کے نیچے بیٹھا تھا وہ آگے کی جانب اس طرح جھکی ہوئی تھی کہ خضر بارش میں بھیگنے سے محفوظ رہا تھا۔ اس قدر میٹھے پانی کو دیکھ کر وہ بے اختیار چٹان کے نیچے سے نکل کر بارش میں جا کھڑا ہوا اور چُلّو بھر بھر کر بارش کا پانی پینے لگا۔ اور پیتے پیتے اس کی نظر چٹان کے نیچے رکھی خوب صورت ریشمی غلاف میں لپٹی کتاب پر پڑی جسے اس نے اتنی مصیبتوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ وہ تیزی سے اس کی طرف لپکا اور جلدی جلدی غلاف کھولنے لگا۔ اُس نے کتاب نکالی اور لمحہ بھر کا بھی توقف کیے بغیر بے تابی سے اُسے پڑھنے لگا۔
۔۔۔
کتاب حاصل کر لینے کے بعد چٹان کے نیچے خضر کا بحیثیت خضر وہ آخری دن تھا۔ اُس روز کتاب پڑھنے کے بعد وہ لوگوں کے لیے خضر نہ رہا۔ وہ کتاب پڑھ کے جیسے اُس نے اپنی موت کو دعوت دے لی تھی۔ اُس کی باتیں سُن کرسکندر کے لوگ اُس کی تکہ بوٹی کرنے کے لیے دوڑ پڑے۔ دنیا کے باقی لوگوں نے بھی جو کل تک خضر کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے، خضر کو پاگل، خبطی اور گمراہ کہنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ اَن پڑھ جاہل گنوار اور اجڈ لوگ بھی بڑے وثوق سے اُسے کہتے کہ وہ خضر ہوہی نہیں سکتا۔۔۔
ابنِ مسافر کی کتاب حال ہی میں پڑھی۔۔ جدت اور تنوع کے حامل فن پارے نئے پن کی داغ بیل ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔۔ اپنی تفصیلی رائے میں سفر ناتمام پر احباب کے ساتھ پہلے شئیر کر چکی ہوں۔۔ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ اپو کریفہ کمال ﺧﻮﺵ ﺑﯿﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻼ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﻧﯽ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ، ﺍﻧﺪﺍﺯِ ﺑﯿﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﻈﺮ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺻﺎﻑ ﺳﺘﮭﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺭﺥ ﮐﮭﻮﻟﺘﯽ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﺧﻀﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﮐﯽ ﮨﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﻣﻄﻤﺢِ ﻧﻈﺮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺤﺎﻟﯽ، ﺁﺳﻮﺩﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺣﺐِ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﺭﺍﺯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻑ ﺍﻭﺭ ﻏﻢ ﮐﻮ ﻓﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﻨﺘﺮﻭﮞ ﺗﮏ ﺭﺳﺎﺋﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮭﯽ … ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻮﺍ ﮐﭩﮭﻦ ﺳﻔﺮ ﻧﮯ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﮐﻮ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺩﮬﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﻻ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﯿﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺧﻀﺮ ﺩﻭﺯﺥ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﮐﮯ ﮈﮬﯿﺮ ﺳﮯ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺗﺮﯾﻦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻻﺋﺤﮧ ﻋﻤﻞ ﺑﺮ ﺁﻣﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺩﻡ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺗﺢ ﭨﮭﮩﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ليكن بعد ازاﮞ ﻣﻨﺠﻤﺪ ﺍﺫﮨﺎﻥ ﮐﯽ ﮐﻮﮐﮫ ﺳﮯ ﺟﻨﻢ ﻟﯿﺘﮯ ﻣﻨﺠﻤﺪ ﺍﻭﺭ ﺿﺪﯼ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺍﺏ ﺧﻀﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﺳﭽﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﻘﯿﻦ ﻧﮧ ﮐﺮ ﭘﺎ ﮐﮯ، ﺍﺳﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﺭﭘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺑﮩﺖ ﺧﻮب…! ﻧﮩﺎﯾﺖ ﻋﻤﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺍﺑﻦِ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻧﮯ ﺟﮩﺎﻟﺖ ﭘﺮ ﮐﺎﺭﯼ ﺿﺮﺏ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺘﻨﯽ مہارت ﺍﻭﺭ پرکاری سے ﺍﯾﮏ ﺍﮨﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﮐﻮ ﺍﺛﺮ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺟﺎﻣﮧ ﭘﮩﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﻟﭽﺴﭗ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ، ﯾﻮﮞ ﺍﻇﮩﺎﺭِ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯽ ﺷﻔﺎﻓﯿﺖ، ﺯﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﻧﺪﺭﺕ حیرت انگیز ہے، ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﻔﺴﯿﺎﺕ، ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻓﻀﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺎﻇﺮ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺏ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﺸﯽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻨﺎﻇﺮ ﻣﺘﺤﺮﮎ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﮬﻢ ﭘﻦ ﺍﻭﺭ ﭨﮭﮩﺮﺍﺅ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﺎ ﭼﻨﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺘﺼﺎﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺁﭖ ﮨﮯ، ﺍﯾﮏ ﻣﻨﻔﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﻗﺎﺭﺋﯿﻦ ﮐﯽ ﻧﺬﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﮩﺖ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺑﺎﺩ ﻗﺒﻮﻝ ﮨﻮ …!