لوہے کی ٹوپیاں اور عقیدے کے شاہ دولے
از، شکیل احمد
شاہ دولے کے چوہے کیا ہیں؟یقیناً ان کے بارے میں آپ نے بہت کچھ سن رکھا ہوگا بلکہ ان کو دیکھا بھی ہوگا۔بھیک مانگنے کا پیشہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں میں بہت عام ہوچکا ہے۔ افلاس اور بے روزگاری نے اس قسم کے پیشوں کو بہت راہ دی ہے۔شہروں اور خصوصاً مارکیٹوں میں بھکاریوں کی ایک کثیر تعداد نظر آتی ہے۔ کبھی کبھار ایسے گداگر بھی نظر آتے ہیں جو چھوٹے سر اور دُبلے بدن کے ساتھ سبز رنگ کا چوغہ پہنے ہوئے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔یہ عجیب الخلقت معلوم ہوتے ہیں مگر ان کے بالکل ساتھ ساتھ چلتا ایک اور شخص بالکل نارمل ہوتا ہے جو اس ابنارمل بھکاری کا ہاتھ پکڑے دکھائی دیتاہے۔یہ شاہ دولے کے چوہے کہلاتے ہیں۔ان کو نگرانی میں بھیک منگوایا جاتا ہے۔اُن کی عجیب الخلقت شخصیت سے جذبات ابھارے جاتے ہیں اور بھیک وصول کی جاتی ہے۔یہ کون ہوتے ہیں اور ایک ہی طرح کے یہ انسان جگہ جگہ بھیک مانگتے کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ یہ بھکاری شاہ دولا کے مزار کے مجاور ہوتے ہیں۔ شاہ دولا ایک پیر ہیں جن کا گجرات کے علاقے میں بڑی دھوم دھام سے عرس منایا جاتا ہے۔اس مزار کے بارے میں روایت مشہور ہے کہ جو خاندان بے اولاد ہوتا ہے وہ یہاں آکے منت مانگنے پر اولاد کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔مگرمنت کے اصول کے مطابق وہ اپنی پہلی اولاد شاہ دولا کے مزار پر چھوڑ جاتے ہیں۔اس چھوڑے ہوئے لڑکا یا لڑکی کے سر پر ایک لوہے کی ٹوپی پہنا دی جاتی ہے جو مستقل سر کے ساتھ جڑی رہتی ہے۔ بچہ چوں کہ بڑا ہوتا رہتا ہے مگر اس طرح اُس کا سر بڑا نہیں ہوپاتا اور وہ ذہنی طور پر ایک نیم پاگل اور مخبوط الحواس شخصیت میں ڈھل جاتا ہے۔کچھ روایتیں یہ بھی ہیں کہ یہاں مَنت کے بعد پہلا بچہ ہی ایسا پیدا ہوتا ہے جو اس قسم کی مخلوق دکھائی دیتا ہے۔مگر اب تحقیق سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ یہ سب لوہے کی ٹوپی کا کیا دھرا ہوتا ہے جو سراسر ایک ظلم اور کھلے عام جرم ہے۔
یہ کون لوگ ہیں اور ان مزاروں پہ اس قسم کے کاموں کی نگرانی کون کرتاہے؟ یہ ایک مافیا ہے جو بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔جو عقیدوں کے نام پر غریب لوگوں کے ساتھ بھیانک کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔کہا جاتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں حکومت نے اس مزار کو سرکاری تحویل میں لے کر اس قسم کے عقیدوں کو روکنے کے لیے سخت قدامات شروع کر دیے تھے۔ مگر آپ کو آج بھی سینکڑوں بچے اس قبیح عقیدے کی بھینٹ چڑھے نظر آئیں گے
قران مجید میں ارشاد ہے:
الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ ﴿٧﴾ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ (سورۃ النفطار)
جس (رب نے) تجھے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھاک کیا، پھر (درست اور) برابر بنایا
ہم اس قسم کے بچوں کو بہت عجیب مخلوق تصور کرتے ہیں اور کبھی غور نہیں کرتے کہ یہ ایسے کیوں ہیں۔ ہم نے جب کسی کو حقیر کہنا ہو توشاہ دولے کے چوہوں کی مثال دیتے ہیں مگر کبھی اُن انسانوں کے بارے میں نہیں سوچا کہ اُن کی زندگی کو برباد کس نے کیا ہے۔
یہ پیری فقیری اور جعلی دربار کلچر کے خلاف ایک روشن فکر تحریک کی ضرورت ہے اور سچے صوفیانہ خیالات کو الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ صوفیانہ تصورات تو محبت اور انسانیت کا پیغام دیتے ہیں ۔ اُن کے ہاں تو انسانیت کے احترام اور آبرو کا درس ملتا ہے مگر ان بد عقیدہ افراد نے ان مزاروں کا سہارا لے کر اپنے گھناؤنے کاروبار کو جاری رکھا ہُوا ہے۔ اس ظلم کے خلاف حکومتی سطح پر باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے اور ایسے افراد کو اس بد عقیدگی سے روکنے کے لیے ہر ممکن عمل کرنا چاہیے جو آج بھی مزاروں پہ منت مانگ کے اولادیں وصول کر رہے ہیں اور اپنے پھول جیسے بچوں کو اس اذیت ناک دلدل میں جھونک دیتے ہیں۔
شاہ دولا پیر کے بارے پتہ چلا اور بچوں کے حوالہ سے منت کا پڑہکر دلی دکھ ھوا۔ لیکن یہ بات درست نہیں ھے کہ لوہے کی ٹوپی پہننے والے ہی ابنارمل ہوتے ہیں۔ میرا تایا زاد بھائی کی ایک بیٹی ایسی ہی ابنارمل پیدا ہوئی ھے جو اس وقت 14 برس کی ھے۔ عام بچوں سے ہٹ کر ھے یہ بچی۔ جسے گھر سے باہر نہیں نکالا جاتا۔ حد سے زیادہ شرارتی اور ناسمجھ ھے۔ اب ایسے بچوں کو دولے شاہ کی چوئی کہنا غلط ھے یہ تو اللہ تعالی کی دین ھے۔ لوگ بھیک مانگنے کے لئے ایسے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔