اے آر داد کی نظمیں
بلوچی سے ترجمہ، رضوان فاخر
اے آر داد (یکم جنوری 1972) بلوچی زبان کے ایک نام ور شاعر، افسانہ نگار، نقاد، مترجم اور محقق ہیں۔ ان کی کم و بیش 26 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں تحقیقی اور تنقیدی کتابوں کے ساتھ ساتھ دو شعری اور دو افسانوی مجموعے بھی شامل ہیں۔ وہ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂِ بلوچی میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
نظم
یہ پریوں کا شہر ہے
سبز پھول ہیں بند دکانوں میں
ہواؤں میں تھکی ماندی دو پہریں ہیں
شکستہ سمندر ہیں بستیوں کے کناروں پر
یہ پریوں کا شہر ہے
دروازہ کھول دو
کہ سبز پھولوں کے بند دکان کھلیں
شکستہ ساحل بستیوں میں اتر آئیں
وہ دروازہ کھول دو جو ابھی بنا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
نظم
میں تمہارے باغ میں کیا
کس پھل کا ذائقہ چکھوں
کون سے موسم میں جاگوں
کس موسم میں سو جاؤں
کس نشیب میں سستانے کو قیام کروں
کون سی بلندیاں چڑھوں
سفر کروں
۔۔۔۔۔۔
نظم
آسمان ایک ٹشو پیپر ہے
میرے آنسوؤں کے لیے
اور میرے آنسو
ملکوں کی کہانیوں سے بھری ہوئی کشتیاں ہیں
کہانیوں کی غمزدہ شام و سَحَر سونا چاہتی ہیں
آسمان ایک گھوڑا ہے
جو ہنہناتے ہوئے اترتا ہے
میری آنکھوں کے سامنے ٹھہر جاتا ہے
میری آنکھیں دریچہ بن جاتی ہیں
مجھے ایک ٹشو پیپر درکار ہوتا ہے
آسمان کیسا ٹشو پیپر ہے
میرے دل میں کوئی رنگ اور نقش نہیں
میں نے پیلے سے آشنا ہوں
نہ لال سے
اور نہ ہرے سے
آسمان ٹشو پیپر بھی نہیں
ایک آدم زاد ہے
جو میرے آنسوؤں کو دیکھنے آتا ہے
۔۔۔۔۔
نظم
میں اک درخت کی طرف گیا
میں آب کی طرف گیا
کسی کی بھی طرف گیا
نہ آہٹوں کے ساز تھے
نہ سرمگیں سے مار
اور میں بے قرار تھا
میں تیرگی میں چل پڑا
کسی دیار کی طرف
غبار پر سوار
اک بہار کی تلاش میں
مگر میں قید تھا
اک درخت
اور آب میں
میں اپنی ہی تلاش میں نکل پڑ
۔۔۔۔۔۔
جیم اور میم کی یکجائی کا خواب
رکو ذرا
جب آسمان ایک راستہ بنے
تو چل پڑیں گے
جب خدایاں ایک سیڑھی بھیج دے
سفر کریں گے
یہاں سے کچھ نہ لو
شراب، پنیر اور نان
وہاں پہ بے حساب ہے
بس ذرا سی کچھ کہاوتیں
ضرب الامثال
اور ایک دو داستانیں ساتھ لو
رکو ذرا
بارش ہونے دو
آسمان صاف ہونے دو
ہم کو پھر سے ایک ہونے دو
زئیس کو نیند آئے تو
چلیں گے ہم
۔۔۔۔۔۔۔