عرب بہار کے تازہ جھونکے
(معصوم رضوی)
ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب پر جو چاہیں اعتراض کریں، مولا جٹ قرار دیں یا جیمز بونڈ حقیقت یہ ہے کہ یہ دورہ امریکی توقعات سے کہیں زیادہ کامیاب رہا۔ سعودی عرب سے 110 ارب ڈالر اسلحہ خریداری کے معاہدے، عرب ممالک پر چوہدرانہ حقوق بلکہ یوں کہیں کہ خلیج تعاون کونسل کی اعزازی سربراہی، ایران کے خلاف محاذ کی اعزازی سرپرستی اور عرب اتحاد کا اندرونی خلفشار، ایک دورے میں اتنے سارے اہداف امریکہ کیلئے کرشماتی کامیابی سے کم نہیں ہونگے۔ چین کے ون بیلٹ منصوبے کے بعد امریکہ اس خطے میں صرف مخصوص اڈوں تک محدود نہیں رہیگا، گرم پانیوں تک رسائی آج بھی ایک سہانا خواب ہے۔
سب کچھ ٹھیک تھا مگر جناب ہوا کچھ یوں کہ ایران کے خلاف محاذ آرائی سے پہلے ہی قطر نشانے پر آ گیا، عرب ممالک کو یکایک احساس ہوا کہ حماس، اخوان المسلمون اور دیگر انتہاپسندوں سے قظر کے دیرینہ تعلقات نہایت خطرناک ہیں، بس پھر کیا تھا عرب ممالک تو کجا مالدیپ، نایجیریا اور نجانے کہاں کہاں کے ملکوں نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعزاز حاصل کرنے کی دوڑ لگ گئی۔ مزیدار بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے یمن کے خلاف طویل جنگ چھیڑ رکی ہے مگر قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرنیوالوں میں یمن بھی شامل ہے۔ خیر اس سے پہلے کہ ننھی قطری ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی اچانک ترکی خم ٹھوک کر کھڑا ہو گیا، کویت بھی مصالحت پر زور دینے لگا تو معاملہ رک گیا، مگر یوں سعودی فوجی اتحاد کا قلعہ بننے سے پہلے ہی ڈھیر ہو گیا۔ ویسے اس کہانی میں سب کچھ اتنا اچانک اور حیرت انگیز ہے کہ رابرٹ فسک نے اسے شیکسپیئر کے ڈراموں بلکہ مزاحیہ ڈراموں جیسا قرار دیا ہے۔ فسک کے مطابق اس فوجی اتحاد کی افادیت اس طرح جانچی جا سکتی ہے کہ مصر کی سیسی حکومت سعودی عرب کی اربوں امداد اور اخوان سے جانی دشمنی کے باوجود یمن جنگ کیلئے ابتک اپنی فوج فراہم کرنے پر آمادہ نہیں۔ رابرٹ فسک کے تجزیے کے مطابق قطر دراصل جنگ زدہ شام کی بحالی میں بڑا کردار ادا کرنے کا خواہشمند ہے تا کہ مستقبل میں تجارتی منڈی کی توسیع کے علاوہ لطاکیہ کی بندرگاہ سے براستہ ترکی تیل یورپ برامد کر سکے۔ یہاں ذھن میں یہ ضرور رکھنا چاہییے کہ قطر دولت کے اعتبار سے سب سے بڑا اور رقبے کے اعتبار سے سب سے چھوٹا خلیجی ملک ہے۔ ظاہر ہے چھوٹے کی یہ گستاخی بھلا چوہدری کیوں برداشت کریگا۔
یہ بھی ملاحظہ کیجیے: قطر اور عرب ممالک میں تنازعے کی چار وجوہات
یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ سارے اللے تللے تیل کی بدولت ہیں، تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک کروڈ آئل کی گرتی قیمتوں کے باعث معاشی بحران کا شکار ہیں۔ تیل کی قیمت جو کبھی 145 ڈالر فی بیرل ہوا کرتی تھی، 30 ڈالر پر آئی اور اب لگ بھگ 50 ڈالر پر چل رہی ہے۔ جس کے باعث سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک کی معشیت جکڑتی جا رہی ہے۔ اسی باعث سعودی عرب نے سرپلس کے بجائے 17 فیصد خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ اگر تیل کی عالمی قیمت کچھ عرصہ اسی طرح 50 ڈالر کے اطراف رہتی ہے تو شاید نوبت یہاں تک پہنچے کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو کرنسی کی قیمت گرانی پڑے۔ اس تناظر میں یمن جنگ کے اخراجات، سعودی فوجی اتحاد اور امریکہ سے اسلحہ خریداری کا جائزہ لیں تو صورتحال کچھ زیادہ اطمینان بخش نظر نہیں آتی۔ صرف اتنا ہی نہیں، اگر یہ کشیدگی اسی طرح بڑھتی رہی تو روس بھی دور نہ رہیگا بلکہ اسلحہ مارکیٹ کے دوسرے بڑے تاجر اسکا بھرپور فائدہ اٹھائینگے۔ اب ذرا سوچیئے اس سے پہلے کے دیگر ممالک اس طرف توجہ دیتے ڈونلڈ ٹرمپ بازی مار چکے، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ شاطرانہ کاروباری صلاحیتوں کے مالک ہیں، اسکا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قطر کے خلاف ٹرمپ کی جانب سے الزامات کے بارش کے صرف دو روز بعد ہی امریکہ نے قطر سے 12 ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ کیا ہے۔ جدید دنیا میں روایتی جبگ تو روایت بن چکی، وسائل اور معاشی جنگ اب سب سے بڑا عالمی خطرہ ہے۔
ایمانداری سے تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے توعرب عجم کشیدگی کا کہیں بھی کسی بھی طرح کوئی تعلق مذھب یا مسلک سے نہیں، ہاں بنایا ضرور جا رہا ہے چونکہ یہی کامیابی کا آزمودہ نسخہ ہے۔ ایران اور عربوں کے درمیان خطے میں اقتدار کی جنگ کو سنی اور شیعہ کے خانوں میں بانٹنا مضحکہ خیز ہے اور وقت اس دعوے کو کھلا جھوٹ ثابت بھی کر رہا ہے۔ پاکستانیوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ پڑوسی کے گھر میں لگی آگ کو اپنے گھر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، خواہ آپ کا تعلق آگ لگانے والوں سے ہو یا تماشا دیکھنے والوں سے، نتیجہ بہرحال بربادی ہوتا ہے۔ افغان جنگ کی آگ بھڑکی، پاکستان بھی لپیٹ میں آیا، یورپ اور امریکہ محفوظ نہ رہے، ترکی اور سعودی عرب میں خودکش حملے ہوئے اور اب تہران بھی دہماکوں کی زد میں آ گیا۔ دہشتگردی کی صورتحال بھی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، القاعدہ کا وقت گزر گیا، اب داعش دہشتگردوں کا منظم ٹولہ ہے، داعش کی تشکیل، فنڈز اور معاونت کے حوالے سے مختلف ممالک کے نام سامنے آتے رہتے ہیں بلکہ روسی صدر کا کہنا ہے کہ یہ کوئی خفیہ نہیں کہ کس کس نے داعش سے تیل کی خریداری کی، جب پوری دنیا ہی منافقانہ مفادات کے دلدل میں دھنسی ہو تو پھر رونا کیسا؟ صدر ٹرمپ کے دورے کے بعد تیزی سے ہونیوالی پیشرفت میں کہیں داعش کا کوئی تذکرہ نہیں، ہدف ایران تھا مگر قطر نے وقتی طور پر اس ہدف کو دھندلا دیا۔ تمام صورتحام میں بین الاقوامی ابہام کا سب سے زیادہ فائدہ کسی اور کو نہیں صرف اور صرف دہشتگردوں کو ہو گا اور سب سے بڑا نقصان مسلم ممالک کو پہنچے گا۔
پاکستان تو دہشتگردی کے خلاف بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے مگر دیگر ممالک معاشی وسائل کے اضافےکیلئے سرگرداں ہیں۔ پاکستان افغان جنگ میں بہت کچھ جھیل چکا، کھیل تماشہ ختم ہونیکے بعد آج نہ یورپ، امریکہ پاکستان کے ساتھ ہے نہ ہی مسلم امہ کو کچھ فکر ہے۔ سعودی عرب اور ایران کشیدگی کا حصہ نہ بننے کا پاکستانی فیصلہ ملکی مفادات کے تحت درست ترین ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان مزید کسی جنگ کا حصہ بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا چاہے سعودی عرب ناراض ہو یا ایران، دوسروں کے دکھ درد بانٹتے بانٹتے ہم خود دہشتگردی کے کینسر میں مبتلا ہو چکے، اب ہر فیصلہ پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر کرنا پڑیگا، جیسا کے مسلم امہ کے دیگر ممالک کرتے ہیں۔ ذرا یاد کریں عرب بہار کے ہنگامہ خیزی، 2011 میں تیونس سے شروع ہونیوالے حکومت مخالف ہنگاموں نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، تیونس میں صدر زین العابدین کی حکومت گئی، مصر میں مرسی حکومت کا خاتمہ اور جنرل سیسی کی فوجی حکومت قائم، لیبیا میں صدر قذافی کی بھیانک موت اور خانہ جنگی، یمن میں صدر علی عبداللہ صالح کی رخصت، حوثی باغیوں کا قبضہ اور جنگ کے شعلے، شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہرے آج بھی جنگ کی صورت میں جاری ہیں۔ عالمی ماہرین کی پیشگوئیوں کے برخلاف یہ معاملہ شام پر رک گیا، باقی عرب ممالک محفوظ رہے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ خطے میں اقتدار کی جنگ چھیڑ کر سعودی عرب اور ایران ایک بار پھر عرب بہار کو مدعو کر رہے ہیں؟