عرب تہذیب میں فن تحریر کی روایت
از، قاسم یعقوب
تحریر کی ابتدا تصویروں سے ہوئی۔ انسان نے جب تصویر بنانا شروع کی تو اسے آواز اور خیالات کو رسم الخط میں قید کرنے کا خیال آیا۔تحریر کے آغاز کے بارے میں یقینی طور پر تاریخ خاموش ہے ۔ بابلی، مصری ، چینی اور ہندوستانیوں کے ہاں فنِ تحریر دیوتاؤں سے منسوب تھی، ان تہذیبوں میں دیوتاؤں کی بڑی اہمیت تھی۔ تلازماتی رشتوں کو ذہن کے اندرکوئی تصویر یا کوئی نقش جس طرح بازیافت کے عمل سے گزارتا ، آواز اس کا متبادل نہیں ہو سکتی تھی۔تحریر کے اولین نقوش بھی چھوٹی چھوٹی تصویروں کی شکل میں ملتے ہیں۔یہ تصویریں مختلف جملوں یا مختلف خیالات و جذبات کا مجموعہ تھیں۔رفتہ رفتہ ان تصویروں نے مزید مختصر ہو کے کثرت اختیار کرنا شروع کی۔ ان سب میں ایک بات مشترک تھی جس نے انسان میں رسم الخط کی ترقی یافتہ شکل اختیار کرلی، وہ اقوال یا رسمات کی بازآفرینی تھی۔انسان کو ان اشکال کی ضرورت ہی اس لیے پیش آتی کہ وہ کچھ یاد کرنایا رکھنا چاہتا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ جب اقوام یا قبائل ترقی یافتہ ہوئے تو زبانیں بھی وسیع ہوتی گئیں۔ زبان کی زبانی روایت (Oral Tradition) پہلے مرکزی حیثیت رکھتی تھی، بعد میں تحریری رسم (Praxis) نے جگہ بنانا شروع کی۔یہ بات بھی طے ہے کہ آغاز (Primitive Age)میں زبانی اور تحریری روایات ایک ساتھ کبھی پروان نہیں چڑھیں۔ ایک روایت کو عروج ملا تو دوسری روایت نے جنم لیاعربی زبان جب پورے عرب کی زبانی روایت کا حصہ بن گئی تو تحریری شکلوں میں ڈھلنے لگی۔
لیوی اسٹراس نے قدیم قبائلی تہذیبوں کے مطالعات میں زبانی روایت کا تجزیہ کیا ہے مگر لیوی اسٹراس کے ہاں عربوں کی زبانی روایت والا تصور نہیں۔ عربوں کے ہاں تو تحریر موجود ہے مگر زبانی روایت کے آگے کمزور یا ایک اضافی صفت کے موجود ہے۔ اسٹراس نے زبانی روایت کے مطالعات میں قدیم تہذیبوں میں تحریر کی غیر موجودگی میں زبانیت (Orality)کو تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔عربوں کی تہذیب بھی اُس وقت کی دیگر تہذیبوں کی طرح یہ روایت رکھتی تھی کہ تحریر موجود ہے، تحریر سے آگاہی بھی موجود ہے مگر اُس میں مہارت حاصل کرنا کسی فرد کا ایک اضافی عمل ہے۔ مجموعی طور پر معاشرے کو اس مہارت کی ایسی ضرورت نہیں جس طرح ایک زبان کے بغیر معاشرہ نامکمل تصور کیا جاتا۔عرب تہذہب میں تحریر کی روایت زیادہ جاندار اُس وقت ہونا شروع ہوئی جب دینی تعلیم نے ایک ناگزیر صورت اختیار کر لی۔تعلیم خواہ کیسی بھی ہو تحریر اُس کا لازمی امر بن جاتی ہے۔ہم یونان کی تہذیب کا مطالعہ کریں جو عہدِ نبوی سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے، تو وہاں بھی تعلیم کی وجہ سے تحریر کی پختہ روایت کا سراغ ملتا ہے۔اسلام کے آنے کے بعد دین نے ایک منظم تربیت کی شکل اختیار کر لی تو لکھنے کی مہارت بھی ساتھ پنپنے لگی۔ اسلامی تحریر نے بعد میں ایک الگ اسکول قائم کیا جو خطاطی (Calligraphy)میں دنیا بھر میں الگ پہچان بنا۔زبانی روایت محض مذہبی فرض بن کے رہ گئی جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں زندہ ہے۔
عہد نبوی ﷺمیں تحریری روایت کتنی مضبوط تھی؟کیا تحریرکا رواج صرف چندافراد تک محدود تھا؟عہدی نبوی کے تہذیبی مطالعے میں یہ سوال بہت اہمیت رکھتا ہے۔عہدِ نبوی میں تحریر کے متعلق چند روایات کے علاوہ تاریخ کے صفحات گنگ ہیں ۔انھی روایات کی مدد سے ہم عہدِ نبوی میں موجود تحریر کی روایت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس درجہ موجود تھی۔ عام طور پر ایک تحقیق یہ بتاتی ہے کہ عہدِ نبوی میں تحریر کی روایت چند افراد تک محدودتھی۔جیسے قدامہ بن جعفر کے مطابق ان افراد کی تعداد کوئی سترہ کے قریب تھی جو لکھنے پڑھنے کی مہارت رکھتے تھے۔مگر عہدِ نبوی میں تحریر کی روایت کو کھوجنے کے لیے اُن واقعات اور روایات کا تجزیاتی مطالعہ زیادہ معلومات افزا رہتا ہے جو اپنی تعداد کے اعتبار سے بہت کم ہیں مگر اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت اہم۔
عربی زبان کی مکہ اور اُس کے مضافات میں تحریری روایت زبانی روایت کے مقابلے میں بہت کمزور تھی۔ ڈاکٹر حمیداللہ خاں نے اپنے خطبات (خطباتِ بہاول پور)میں تحریر کا ذکرکرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس روایت کا باقاعدہ آغاز حرب بن اُمیہ کے عہد میں ہُوا۔ حرب مکے کا سردار تھا جس کا تعلق خاندانِ بنو اُمیہ سے تھا۔بتایا گیا ہے کہ تحریری روایت کے جتنے بھی شواہد ملتے ہیں وہ حرب ہی کے زمانے کے ہیں۔عہد نبوی میں تحریر کا استعمال بڑھتا گیا جو بعد کے ادوار میں ایک ناگزیر ضرورت بن گیا۔
مکے کے افراد نے حضورﷺ سے سماجی بائیکاٹ کا معاہدہ لکھ کے کعبے کی دیوار سے لٹکا دیا تھا۔اس معاہدے کی رُو سے مکے والوں نے خاندانِ ہاشم سے بات چیت تک بھی ممنوع قرار دے دی تھی۔ہر طرح کا سماجی رشتہ منسوخ کر دیاگیا تھا۔اس معاہدے بلکہ پورے واقعے کا سماجی تجزیہ کریں تو پتا چلتاکہ وہ تحریر جو لکھی ہوئی تھی اُس کی سماجی حیثیت کتنی زیادہ تھی اگر مکے کے چند افراد ہی پڑھے لکھے تھے اور باقی پورا مکہ اُس تحریر کو پڑھ بھی نہیں سکتا تو اُس کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی تھی۔حتیٰ کہ دیمک کے کھا جانے سے یہ معاہدہ جب ضائع ہو گیا تو سماجی بائیکاٹ بھی ختم ہو گیا۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تحریر ہی سب کچھ تھی وہ ختم ہوئی تو سب کچھ ختم ہو گیا۔ قبائلی قوانین اور اخلاقیات تک ختم ہو گئی جسے ختم کرنا یا منسوخ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔یہ تحریر کی قوت تھی جو اُن قبائل کے درمیان ایک معاہدے کے طور پر موجود تھی۔اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہاں تحریر کی اہمیت بہت زیادہ اور نہایت مضبوط روایت کے ساتھ موجود ہے۔یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کعبہ کی دیوار سے لٹکانے سے مُراد ہر خاص و عام تک تحریر کو پہنچانا تھا ۔ اگر مکے میں چند (یا صرف سترہ) لوگ ہی پڑھنے کی مہارت رکھتے تھے تو معاہدے کی تحریری اہمیت پر اتنا زور کیوں دیا جارہا تھا۔
ایک واقعہ ہجرتِ مدینہ کے وقت پیش آیا۔آپ کفارِ مکہ سے خود کو چھپانے کی غرض سےﷺ ثور کے غار میں کچھ دنوں کے لیے بند رہے اور مناسب وقت ملتے ہی وہاں سے نکل آئے۔ جب آپ وہاں سے نکلے تو ایک گھڑسوار سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ کو گھیر لیا اور کفارِ مکہ کے اعلان کردہ انعام کے حصول کے لیے آپ کو قتل کرنا چاہا۔مگر فال کے اُلٹ آنے پر اپنا ارادہ ترک کر لیا اور آپ سے عرض کی کہ مجھے امن کا پروانہ لکھ دیجیے۔ حضورﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے غلام عامر بن فہیرہؓ کوفرمایاکہ تم امن کا پروانہ لکھ دو۔یہاں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ عامرؓ کے پاس اُس وقت بھی قلم، دوات اور کاغذ کا سامان موجود تھا جبھی تو انھوں نے پروانہ لکھا۔ ہم تحریر کی روایت کا مطالعہ کر رہے ہیں یہاں ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ ابوبکر صدیقؓ کے غلام تک کو لکھنے میں مہارت حاصل تھی تو اُس وقت لکھنے کی روایت کتنی عام ہو گی!اگر ایک غلام تحریر پر مہارت رکھتا ہے تو مکے کے عام افراد میں بھی یہ روایت کثرت کے ساتھ موجود ہو سکتی ہے۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب مکے کے مخالفین نے آپ سے معاہدہ کیا تو مسلمانوں کی طرف سے معاہدے میں حضورﷺ کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھا گیا جس پر انھوں نے اعتراض کیا اور مٹانے کا کہا۔حضور نے اُن کی بات مان لی اور حضرت علی ؑ کو مٹانے کا کہا۔ یہاں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے ہاں تحریر کی پیچیدہ صورتوں کا پورا ادراک ہے۔نہ صرف وہ تحریر پر متفق ہیں بلکہ تحریر کو ہی حرفِ آخر سمجھ رہے ہیں اور پورا معاہدہ اسی ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کر بیٹھتے ہیں۔معاہدے میں ایک دو نہیں کافی افراد شامل ہوسکتے ہیں جو تحریر کی مہارت سے بھی آگاہ ہوں گے جبھی وہ معاہدہ لکھوا رہے تھے۔
بدر کی جنگ میں مکے کے بہت سے افراد قیدی بنا لیے گئے تھے جن میں آپ کے چچا عباسؓ بھی شامل تھے۔ حضور نے اُن قیدیوں کے لیے سزا معاف کرنے کا حکم دیا ۔جو لکھنے میں مہارت رکھتے تھے اور اُن کی سزا مسلمان بچوں کو پڑھاناقرار دی گئی۔ حکم دیا گیا کہ ہر قیدی دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے گا۔تاریخ کے صفحات مذکورہ روایت کی عاقبت سے خالی ہیں کہ آیا انھوں نے بچوں کو پڑھایا بھی یا نہیں۔ اگر اُن قیدیوں نے لکھنے پڑھنے کی مہارت بچوں میں پوری طرح منتقل کر دی تھی تو ان پڑھے لکھے بچوں کی تعداد سینکڑوں میں بنتی ہے۔قیدیوں کی تعداد یقیناً بارہ پندرہ سے زیادہ ہو گی جو دس دس بچوں کو پڑھائیں تو کل بچے سو سے زیادہ بنتے ہیں جو اس مہارت سے فیض یاب ہوئے۔اس روایت میں سب سے اہم بات لکھنے پڑھنے کی روایت کا ادراک کرنا اور اُن سے بروقت کام لیناہے۔
ایک بڑی اہم بات یہ ہے کہ بیعتِ عقبہ اول میں جو انصاری مسلمان ہو گئے تھے حضور ﷺ نے انھیں قران مجید تحریری صورت میں پیش کیا تھا تا کہ وہ اس نسخے کومدینے لے جائیں اوروہاں لوگوں کو آیات پڑھ کے سنائیں ۔ ظاہری بات ہے کہ ایک دم اُن کوقران مجید زبانی یاد کروانا تو ممکن نہیں تھا۔ قران مجید اُس وقت نامکمل تھا مگرمکی آیات کا تحریری عکس بن چکا تھا۔مدینے کے افرادکو قران مجید اس خیال سے دیا گیا کہ وہ پڑھ سکتے ہوں گے اور اُن کے ہاں تحریر کو پڑھنے لکھنے کی روایت موجود ہوگی۔مدنی انصاریوں نے قران مجیدکو پڑھنے کا آغاز حضورﷺ کے مدینے آنے سے پہلے ہی کر لیا تھا۔ قران مجیدکا یہ نسخہ مدینے کی مساجد میں باآوازِ بلند زبانی پڑھا جاتا۔ قران کو بلند پڑھنے کی روایت بھی یہیں سے آغاز کرتی ہے۔ اس سے پہلے اس کا ذکر نہیں تھا۔یہاں یہ امر بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ قران مجید کا مدینہ میں تحریری صورت میں، حضور سے بھی پہلے پہنچنا وہاں تحریر کی ایک مضبوط روایت کا پتادیتاہے۔
مدینے کے یہودی بھی حضور سے اکثر اوقات اپنے معاملات کے حل کے لیے اپنی توریت اٹھا لاتے تھے۔ یہاں اس بات کی غمازی ہو رہی ہے کہ اُن کے ہاں صحیفوں کے تحریری نسخے کی روایت موجود تھی۔قران مجید کو عرب روایت کی پہلی تحریری کتاب کہا جاتا ہے مگرمدنی یہودیوں کے ہاں توریت کا ثبوت ملتا ہے جو تحریری صورت میں پہلے موجود تھی۔ایک دفعہ یہودی مدینے میں حضورﷺ کے پاس ایک بدکاری کا جھگڑا لے کے آئے۔وہ خود کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہتے تھے اور جو حضور سے کروانا چاہ رہے تھے وہ بھی اپنی مرضی کا تھا۔ حضورنے پوچھا تمھاری کتاب میں اس بارے میں کیا لکھا ہے؟انھوں نے کہا ایسے لوگوں کے لیے منہ کالا کرنے کے بعد گدھے پہ بٹھانے کا حکم ہے۔حضور نے انھیں توریت لانے کا کہا۔ چناں چہ وہ توریت بھی لے آئے مگر آیات چھوڑ چھوڑ کے پڑھنے لگے ۔ بعد میں حضور نے اپنے کاتبِ خاص زید بن ثابتؓ کو حکم دیا کہ تم عبرانی سیکھو ۔ اس موقع پر حضور کے الفاظ تحریر کی بحث کے حوالے سے بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ حضور نے ارشاد فرمایا:’’اگر ایسی تحریریں میں یہودیوں سے پڑھواؤں تو مجھے ان پر اعتبار نہیں‘‘۔یہاں یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ جس کتاب کو پڑھوانے کا کہا جا رہا ہے ظاہری بات کہ وہ تحریری صورت میں موجود ہے اور اُس کے پڑھنے اور سنانے والوں کی بھی کثرت ہو گی۔
تحریر اور زبانی روایت کا موازنہ کیا جائے تو زبانی روایت زیادہ طاقت ور معلوم ہوتی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عرب میں زبانی روایت کا ہی غلبہ تھا۔ زبان کا بنیادی وظیفہ اظہار ہوتا ہے،وہاں زبانی روایت سے ہی ابلاغ کی ضرورت پوری ہو جاتی تھی۔حرب بن امیہ کے عہد میں عرب میں تحریر کا ورود کچھ مبالغہ معلوم ہوتا ہے۔ قرینِ قیاس سے اور چند مذکورروایات کے تجزیات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر کا تجربہ کسی حد تک عام تھا اور اتنا عام بھی نہیں تھا کہ عرب کا ہر فرد اس میں مہارت رکھتا تھا۔تحریر کے متعلق جو قیاسات اور روایات ملتی ہیں کہ چند افراد کے علاوہ کوئی پڑھا لکھا نہیں تھا کسی حد تک غلط معلوم ہوتی ہیں۔
So here Qasim Yaqoob take us to a journey on linguistic evolution of Arabs.This article speaks of his leaning. We are fortunate indeed to have such scholarly personalities among us..