عارفہ شہزاد کا ناول ’’میں تمثال ہوں‘‘ ایک بے ترتیب قاری کی نظر میں
از، حفیظ تبسّم
بات شاعری کی ہو یا فکشن کی، عورت کا تصور وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ کبھی عورت کو مظلوم، کبھی ظالم دکھایا گیا۔ مگر بہت کم ادیب ایسے گزرے جنھوں نے عورت کی روح کے اندر اتر کر کوئی ایسا فن پارہ تخلیق کیا جسے پڑھ کر مرد اور عورت دونوں ہی چیخ اٹھے کہ یہ کیا لَغویات ہے؟
در اصل، پدری سماج عورت کے بدلتے ہوئے روپ کو آسانی سے ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ عارفہ شہزاد کے ناول میں تمثال ہوں کا چھپنا ہی تھا تو جیسے اس نئے پرانے آپریشن ردُّ الفساد کا آغاز ہو گیا۔ کسی نے اس کو سرے سے ناول ماننے سے انکار کر دیا، اور کوئی کہنے لگا کہ ہمارے معاشرے میں ایسا کردار ہو ہی نہیں سکتا؛ کسی نے کہا یہ آب بیتی ہے۔
بَہ طورِ قاری میں پوچھنا چاہوں گا:
● ناول کیا ہوتا ہے؟
● کیا ناول لکھنے کے لیے کوئی واحد تکنیک یا طریقہ ہی وَضع ہے؟
ایسے ناول بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جو ناول کی دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں، مگر تاریخ، فلسفے یا میڈیکل سائنس کی کتاب جیسا تأثّر دیتے ہیں۔
جدید ناول نگاری کے تناظر میں دیکھا جائے تو انجیلِ مقدس بھی ایک ناول ہی معلوم ہوتا ہے؛ ناول تو کسی ڈائری کے چند صفحات بھی ہو سکتے ہیں؛ ایک مقام پر بیٹھے دو کرداروں کا طویل مکالمہ؛ ایک آدمی کی مسلسل بڑبڑاہٹ بھی … چند بے ترتیب خواب بھی … (اِس طرح کے ناولوں کی مثالیں موجود ہیں۔)
عارفہ شہزاد کے اس ناول میں میں تمثال ہوں کے سات عشق ہیں: اُف! توبہ اسلامی اور مشرقی روایات کے امین معاشرے میں سات عشق کیسے ہو سکتے ہیں۔
ارے بھئی سات کیا چار گنا زیادہ عشق بھی ممکن ہیں، بس دل گردہ مضبوط چاہیے۔ اگر عورت اتنے عشق کرتی ہے تو اِس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مرد ہمیشہ عورت کو ایک جسم ہی سمجھتا ہے، حساس دل رکھنے والا وجود نہیں۔
یہ ناول عورت کے عشق، جذباتی و نفسیاتی کش مش، جنسی نا آسودگی کو موضوع بناتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ سماجی اور مذہبی جکڑ بندیاں جتنی بھی سخت ہوں، جنسی جذبات پر کوئی زور نہیں۔ یہ فطری جذبہ بیدار ہو کر ہی رہتا ہے۔
تمثال، جو ایک مذہبی گھرانے کی مذہبی قسم کی لڑکی تھی، خود لذّتی اور ہم جنس پرستی جیسے تجربات سے گزر چکی تھی۔ اِن جذبات سے اسے کس نے متعارف کرایا؟ شاید فطری جذبات کے مُنھ زور طوفان نے! وہ تو حَیض کے پہلے خون کے متعلق بھی نہیں جانتی تھی۔
اِس ناول میں تمثال خود شاعرہ بھی ہے اور اس کے دو شاعروں سے عشق بھی رہے۔ اسی وجہ سے کچھ باریک بِین قارئین ناول کے بَہ جائے آب بیتی قرار دے رہے ہیں۔
ناول میں آب بیتی کا عُنصر ہو سکتا ہے، مگر کوئی آٹھویں درجے کا فکشن نگار بھی خود کو بَہ طورِ کردار پیش کرتے ہوئے بہت حد تک بدل جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ مصنفہ کی اُن تخلیق کاروں پر چوٹ ہو جن کے ادب میں معاشقے چلتے رہتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے بہت سارے خواتین و حضرات اپنا اپنا عکس دیکھ رہے ہوں۔
مگر کہانی تو کہانی ہے جو موڑ کاٹتی ہے کبھی دائیں، کبھی بائیں، اور اس ناول کی تمثال اِس معاشر ے کی کوئی بھی عورت ہو سکتی ہے۔ اسی لیے یہ ناول آب بیتی نہیں جگ بیتی ہے۔
یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر اس ناول کو کوئی مرد مصنف لکھتا تو پھر کیسے آب بیتی کا لیبل چسپاں کرتے؟
اگر تکنیکی سطح پر دیکھا جائے تو یہ ناول، مرکزی کردار تمثیل کی ڈائری کے اوراق سے شروع ہوتا ہے جو ایک دل چسپ تکنیک ہے۔ پھر ماہرِ نفسیات کے سوال و جواب کا حصہ آتا ہے، جو سادگی سے کہانی کی نفسیاتی گِرہیں کھول دیتا ہے۔ بہ طور قاری مجھے یہ حصہ اس لیے بھی زیادہ اچھا لگا کہ فکشن نگار کا کام مسائل کی نشان دہی ہوتا ہے، مگر یہ انوکھا ناول ہے جس میں ماہرِ نفسیات کی خدمات حاصل کر کے حل بھی پیش کیا گیا ہے۔
ناول میں زبان و بیان کی سادگی ہے اور نفسیاتی موضوع میں زبان کی روانی قابلِ داد ہے۔
آخر میں سر ورق پر چھپا اقتباس پیش خدمت ہے:
تمثال! تم نے اچھا کیا اندر کے زہر کو باہر انڈیل دیا۔ اس زہر کو لفظوں کا روپ دیتے ہوئے میری انگلیاں نیلی پڑ گئی ہیں۔ لوگوں کے خوف میں الجھے ہم لوگ چھوٹے چھوٹے روزن اور دریچے تلاش کرتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ در بند رہے گا!
ہمیں انھی لوگوں کے بیچ رہنا ہے، اپنے اپنے نقاب اوڑھے ہوئے!
میری دوست! تمھیں مَیں نے سنا ہے … محسوس کیا ہے… اپنے اندر اتارا ہے… اور تمھیں اوڑھ کر ہی لکھ پائی ہوں یہ سب… اب تو لگتا ہے … میں تمثال ہوں!