آرمی ایکٹ یا بندیالی ایکٹ، یا پھر ملک ریاض یا فرح گوگی ایکٹ؟
از، یاسر چٹھہ
آرمی ایکٹ کی باتیں کمپرومائزڈ اور دیہاڑی پر لائے stuffed ججوں سے بنی عدلیہ کی وجہ سے ہیں۔
اگر اعلیٰ عدلیہ، اس پراجیکٹ عمران خان کے انجنیئرز اور ہنر مندوں کے سامنے اپنی منجی پِیڑھی ٹُھکوانے کے بر خلاف تھوڑی سی مزاحم ہوتی، تو آج یہ تین پیالی سپریم چائے کا جھکّڑ ہی نہ اٹھا ہوتا۔
سو، موم پِگھلا کر بنائی گئی عدلیہ کی وجہ سے، ریاست کے تیسرے نارمل ستون یعنی عدلیہ حفاظتی ضمانتوں، انکوائریوں کے خلاف امتناع کے حکم پہ حکم کی فُوڈ پانڈا ڈیلیوری سروس نہ کر رہی ہوتی تو بھی آج آرمی ایکٹ کی باتیں نہ ہوتیں۔ (مگر کیسے نہ کر رہی ہوتیں، یہ بنی ہی ان عناصر کے فارمولا سے ہیں۔)
اب ہمارے لوگوں کا تذبذب کس وجہ سے ہے؟
ہم وردی والے اور کالے قانون اور ترازو والے اداروں کے ہَتھ چھٹ ہونے کے ناقد رہے ہیں اور ہیں۔ کسی کے بھی قانون سے بالا ہونے کے ناقد رہے ہیں: بھلے وہ مشرف تھا، بھلے وہ مشرف کا الیکشن ایجنٹ اور مشرفی بد روح عمران خان تھا۔ مشرف کو خاکی لا قانون والا ادارہ بچاتا رہا تھا، اور عمران خان کو بھی کالے قانون والا ادارہ بچا رہا ہے۔
فکر وَر شہریوں کے لیے یہ کسی طور بھی پسندیدہ نہیں تھا، نہ ہے۔ (بندھے ہاتھوں اور بندھی آنکھوں دیکھنا ہی کل اختیار تھا۔ کچھ کہنے سننے پر انڈیا چلے جانے کے مشورے دراز کرنے والی پمپ ایکشن مشینیں ہمارے ارد گرد سوشل میڈیا پر فلیگ مارچ کر رہی ہوتی تھیں۔)
جنھوں نے پراجیکٹ کی بھائی والی کے grand nexus کے عمران خان کی رسّی دراز کیے رکھی تھی، وہ ان کے رات بارہ بجے اٹھنے پر ان پر اور ان کی اولادوں پر مُنھ زوری آزماء چکا ہے، اور گود میں بٹھا کر دودھ پلانے والوں کو اسی آستین کے سانپ نے جب کاٹا تو ادارے اور ہم شہریوں کے لیے اہم قومی علامتیں بھی آگ میں جل کر سُرمہ بن گئیں۔
جو بھلے اور خوش نیّت انسان یہ سمجھتے ہیں کہ قوموں اور انسانوں کے لیے علامتیں اہم نہیں ہوتیں وہ بھی لیبارٹری لبرل ہی کہلا سکتے ہیں؛ زمینی حقائق اور سماجی و بشریاتی نفسیات کی موٹی موٹی باتوں کے معاملوں سے بے بہرہ ہی محسوس ہوتے ہیں۔ بھئی، آفاقی قدروں سے ہم آہنگ ہونے کے رستے میں مقامی حقائق کے پُلوں سے روز گزرنا بھی تو لازم ہوتا ہے۔
سو، اگر بندیال صاحب، قاضی القضاء، کہتے ہیں کہ فیصلوں کے لیے صرف قانونی facts اور سوالات اہم نہیں ہوتے، وہ قانون کی کتابوں سے باہر کے حالات کو بھی مدِّ نظر رکھتے ہیں تو قانون کے facts کدھر جائیں؟ آئین و قانون کی کتاب کدھر جائے؟ پہلے کی طے شدہ نظیریں کس کھیت کی مُولیاں کھائیں۔
انھیں کیا ہے، وہ تو بس جو چاہیں وہ کیے جاتے ہیں۔ ہم شہری عجب سے مسئلے میں پھنسے ہیں۔ ایک طرف ہمارے وطنِ عزیز کے گاؤں کے کماد کے کھیت میں سؤر گُھسا ہوا ہے، دوسری طرف آرمی ایکٹ ہے، اور آرمی ایکٹ سے پہلے بھی جسٹس بندیال اور تین پیالی سپریم چائے کے کپ کا جھکّڑ ایکٹ ہے؟
وطنِ عزیز کو جِن بُھوت جیسے وَدھے ہوئے قانون کِھواڑ اور لا قانون قسم کے ادارے، سنہ 47 میں جہیز میں ملے تھے۔ یہ بے حس اچھی خاصی تن خواہوں اور مراعات سے اپنی اور اپنی آل اولاد کو اپنی سروس بھر کے عشروں میں خاندانی چودھری بنا لیتے ہیں، مگر وہ کام نہیں کر پاتے جس کے یہ عوامی جیب سے پیسے اینٹھتے ہیں۔
سو عمران خان پراجیکٹ پر بندیالی ایکٹ ہی لگانے ہیں، یا آرمی ایکٹ؟ انھی دونوں ایکٹ کی گُھٹّی پر اور دودھ پر تو یہ پرورش پایا تھا۔
اگر یہ دونوں نا منظور ہیں تو پھر ملک ریاض یا فرح گوگی ایکٹ لگا کر دیکھ لیں، شاید اس سے نیچرل جسٹس ہو جائے؟