ایک کورنش جو دوسرے نہ بجا لا سکے
( محمد شہزاد)
ایک خاتون پولیس افسر ایس پی ارسلہ بی بی نے مریم بی بی کو سیلیوٹ کیا مارا کہ بھونچال آگیا۔ چند غیرت مند لوگوں کی عزت اس درجے مجروح ہوئی کہ انہوں نے پروانہ روانہ کر دیا۔ ارسلہ بی بی قوم سے معافی مانگے ورنہ ہم قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں۔
معلوم نہیں قوم کے یہ غیور اس وقت کہاں تھے جب مشرف کوگارڈ آف آنر دے کر ملک سے انتہائی عزت و تکریم کے ساتھ رخصت کیا گیا تھا۔ جب پولیس کے بڑے سے بڑے افسر مشرف کو بطور ملزم سیلیوٹ مارا کرتے تھے عدالتی پیشیوں پر۔
ارسلہ بی بی دور اندیش خاتون ہیں۔ کورنش بجا لانے کے ایسے تاریخی مواقع قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتے ہیں۔ آج وہ اے ایس پی ہیں۔ کل یہی سیلیوٹ انہیں پاکستان کی پہلی خاتون آئی جی پولیس بنائے گا۔
Gender کا منجن بیچنے والی تنظیمیں اور انہیں مہمان خصوصی کے طور پر اپنی تقریبات میں مدعو کریں گی۔ آج جو میڈیا انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے کل ان کے ساتھ ’ایک دن‘ یا ’ایک شام‘ یا اسی ٹائپ کا درباری پروگرام کریں گی۔
https://m.youtube.com/watch?v=7bwuRneuKIw
ریٹائرمنٹ کے بعد ناروے میں سفیر یا پاکستان ٹی وی کی چیئر پرسن بھی لگ سکتی ہیں۔ یہ سیلیوٹ تو اس سوال سروس کے خاکیوں کو مانندِ براق ہے جو انہیں راتوں رات آسمان کی ان بلندیوں پر لے جائے گا جو بڑے سے بڑے خوشامدی کے لیے سدرۃالمنتہا جیسا ہے۔
غلامی، جی حضوری، چاپلوسی، خوشامد، تلوے چاٹنا، مالک کے پیروں میں لوٹنا، دم ہلانا، جھوٹ، منافقت، چڑھتے سورج کی پرستش، بر وقت غداری، سازش، ریشہ دوانی اور موقع دیکھتے ہیں محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا۔ انہی اجزائے ترکیبی سے ہم لوگوں کا خمیر اٹھا ہے۔
ارسلہ بی بی بھی ہم ہی میں سے ہیں۔ وہ کوئی مریخ کی مخلوق نہیں۔ سول سروس سے تعلق رکھتی ہیں۔ سول سروس میں رہنا اور حکمرانوں کے تلوے نہ چاٹنا! یہ کیسے ممکن ہے؟ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہیں رکھا جا سکتا۔ اور پھر ہماری افسرِ شاہی تو ہوتی ہی حکمرانوں کی پیدائشی غلام ہے۔ بقول شیخ رشید آج حکمران تبدیل ہو جائیں دیکھیے گا کل یہی ارسلہ مریم بی بی کو جیل چھوڑ کے آ رہی ہوں گی۔
جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو کیا گلہ۔ کیسا مقدس، عظیم اور تخلیق سے بھرپور ہے ایک لکھاری کا ہنر۔ لکھنے والا اگر حق لکھے تو جالب اور منٹو کی طرح لازوال بن جائے ورنہ الطاف قریشی ایسے درباری کی کیا وقعت۔ حال ہی میں ’ہم سب‘ نے اس چاپلوس کی ایک پرانی تحریر شائع کی۔ اس لنک پر پڑھیں اور دیکھیں کہ کس بے شرمی سے خوشامدی اپنے آپ کو ذلت کے پست ترین مقام پر فائز کرلیتے ہیں۔
یہ غلام ابن غلام قوم کیا جانے ٹیپو سلطان کا فلسفہ حیات۔ اسے گیدڑ کی سو سالہ زندگی عزیز ہے۔ شیر کی ایک دن کی زندگی سے انہیں اور ان کی آنے والی نسلوں کو کیا فائدہ؟ جب 1997میں ملکہ برطانیہ پاکستان آئیں تو اس ملک کی قومی اسمبلی کے سپیکر الہی بخش سومرو نے فخر سے ملکہ کو کہا کہ وہ اب بھی اپنے آپ کو ملکہ کا ایک ادنی غلام سمجھتا ہے۔ ملکہ اب بھی اس کی مالکن ہے!
ارسلہ جھک کر مریم کے آگے کورنش بجا لائیں۔ سومرو نے چاپلوسی کے انہی ادب آداب کا مظاہرہ اپنی ملکہ کے سامنے کیا۔ ہر کوئی غلامی میں ہی سکون محسوس کرتا ہے۔ بے نظیر بھٹو ایسی اعلی تعلیم یافتہ خاتون بھی ایک پیر سے جھڑکیاں کھایا کرتی تھیں تا کہ ان کی حکومت سلامت رہے۔
یہ جاہل قوم تو اردو ادب کے محاوروں کے مفہوم کو بھی نہیں سمجھتی۔ ایک محاورہ ہے ’پاؤں دھو دھو کر پینا‘ (ویسے ہمیں واہیات قسم کے محاوروں سے اب جان چھڑا لینی چاہیے۔) مطلب اس کا یہ ہے کہ فرماں بردار رہنا بزرگوں کا۔ کسی جاہل نے بہت ہی فخر سے فیس بک پر اپنی فلم ڈالی جس میں وہ اپنی شادی کی تقریب پر اپنی ساس، سسر اور بیوی کے پیر دھو کر وہی آلودہ پانی پی رہا ہے۔
اس ابوجہل کی دیکھا دیکھی باقیوں نے بھی اسی قسم کی وڈیوز اپلوڈ کرنا شروع کر دیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر وقت کی کمی درپیش نہ ہوتی تو ارسلہ بی بی مریم کے پیر دھو کر پیتیں! اور ہر وہ شخص جو اس وقت انہیں نشانہ بنا رہا ہے دراصل پرلے درجے کا منافق اور حاسد ہے۔ جلن اس بات کی ہے کہ یہ سیلیوٹ مارنے کا موقع ہمیں کیوں نہیں ملا!
کافی عرصے تک مجھے محمد شہزاد کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق بھی رہا ہے۔ میں نے ان کو اپنے دوستوں کی فہرست سے ان کے ملالہ یوسفزئی کے بارے میں قبیح قسم کے ریمارکس کے بعد نکال دیا تھا۔