ارشد وحید کا ناول گمان: بھولی بسری کتابیں

Khalid Fateh Muhammed
خالد فتح محمد

بھولی بسری کتابیں: ارشد وحید کا ناول گمان 

از، خالد فتح محمد 

11 کیولری (فرنٹیئر فورس) کے دفع دار نواز موچھو نے سِنہ 1965 کی جنگ میں ایسا کارنامہ سر انجام دیا جو ملک کے سب سے بڑے اعزاز کا حق دار تھا، لیکن ان کیے اس کارنامے کی citation اتنی کم زور تھی کہ انھیں کچھ بھی نہ ملا اور وہ کاغذوں کے پلندوں اور یادوں کے سمندر میں گُم نام سپاہی بن کے رہ گئے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے وحید ارشد اور ان کے ناول گمان کا ہے۔

ارشد وحید دھیمے مزاج کی حامل شخصیت ہیں جو کم گُفتاری اور دانش بِسیاری میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کا ناول گمان بھی ان کی شخصیت کا پَرتَو ہے۔ ناول کا مرکزی خیال ملک میں انقلابی جد و جہد کا آغاز کرنا ہے۔ Arshad Waheed Novel Guman ارشد وحید ناول گمان

اس جیسے انقلابی موضوعات، ایسے بیانیے کے متقاضی ہوتے ہیں جن میں موضوع کے مطابق ایسی جارحیت ہو جو قاری کو بھی شعلہ بَہ دامن کر دے۔ اس سلسلے میں کرشن چندر کے چند ایک ناول، خصوصاً جب کھیت جاگے کی مثال دی جا سکتی ہے کہ وہاں قاری، مصنف اور کردار ایک ہی فکری سطح پر آ جاتے ہیں: جہاں یہ اس فن پارے یا قصے کی ایک کام یابی گردانی جاتی ہے، وہاں ایک ضُعف بھی سمجھا جاتا ہے کہ مصنف کہانی کے اندر  خود شامل ہو گیا ہے؛ البتہ ارشد وحید نے اپنا ناول dispassionately لکھا ہے۔ وہ اپنی کہانی اور کرداروں سے کہیں منسلک نظر نہیں آتے اور کہانی آگ کی طرح دہکتے موضوع کو گہرے دریا کے بہاؤ کی طرح لے کر چلتی ہے۔

 

پاکستان ایک نیا ملک تھا اور یہ برطانوی طرز کے سیاسی ڈھانچے میں، غیر منظم سیاسی فضا میں اپنی تاریخ، ثقافت اور معاش ترتیب دے رہا تھا: ہر نئے نظام کو پختگی کی سطح تک پہنچنے میں وقت چاہیے ہوتا ہے۔ پاکستان اس بچے کی طرح تھا جو کھڑے ہونے، چلنے اور بھاگنا سیکھنے کے عمل میں سے گزرتے ہوئے خراشیں اور چوٹیں بھی کھاتا ہے۔

یہ بچہ ابھی سیکھنے کے عمل میں تھا کہ اکتوبر سِنہ 58 کو ایک بڑے نے آ کر اسے کہا کہ کون کہتا ہے کہ تم بچے ہو اور اگر ہو تو میں تمھیں سنبھالتا ہوں۔ تمھیں پال پوس کر خوب صورت اور گبھرُو بناؤں گا۔ پاکستانی خوش ہو گئے اور وہ بڑا مطمئن۔ لیکن کچھ جاں باز ایسے بھی تھے جو نظر آئے بغیر نئے نظام کے خلاف سینہ سپر رہے۔

Arshad Waheed Novel Guman Back Cover اردو ناول گمانیہ ناول اس طاقت کے خلاف سینہ سپر ہونے والی اس تنظیم کی کہانی ہے جو ملک کو غیر جمہوری شکنجے سے نکال کر بائیں بازو کے راستے پر ڈالنا چاہتے تھے۔ یہ ترقی پسند نو جوان تھے جن کے اندر انسانی برابری کا جذبہ موج زَن تھا۔

انھوں نے اپنی تنظیم سازی کی، سٹڈی سرکل ترتیب دیے جہاں مباحث چلتے؛ تنظیمی ڈھانچوں کو نیچے سے نیچے والی سطح پر لے جا کر زیادہ لوگوں کو شامل کرنے پر بات ہوتی اور کسانوں اور مزدوروں تک رسائی حاصل کر کے انھیں نظریے کا حصہ بنایا جانے لگا۔

اکتوبر 58 سِنہ تک ہمارا سیاسی نظام نا پختہ تھا، جند نظریاتی سیاست دانوں کے علاوہ باقی نظریۂِ ضرورت میں یقین رکھتے تھے جو بڑے آدمی کی جھولی میں بیٹھ کر اس کا مُنھ چومنا شروع ہو گئے۔ سیاست دانوں کی ایسی نسل کی جڑیں گہری ہو گئی ہیں۔ 

گمان دو دھائیوں پر پھیلا ہوا قصہ ہے۔ کبیر، ناول کا اہم کردار اور اس کے ساتھی معاشرے میں بہتری لانے اور اپنے نظریے کو ملک میں نہ صرف قبول کروانے، اسے سیاسی عمل کا حصہ بنانے کے لیے بھی جد و جہد میں مصروف ہیں۔ 

یہ ایک طویل جنگ تھی جو گُم نام جگہوں، تنگ کمروں اور ہوٹلوں کے کھلے ہالوں میں لڑی گئی۔ اس میں پیپلز پارٹی سے مایوس لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے۔ ان لوگوں کا سرکاری مشینری، دائیں بازو اور بائیں کے غیر اعتدال پسند عناصر سے مقابلہ تھا، سرمایہ اور جاگیر دار الگ۔

یہ ایک طویل جد و جہد تھی جس کا آغاز ایک نظریے کے تائید میں ہوا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ کئی عوامل اس کی راہ میں رکاوٹ بنے، مایوسی جن میں سرِ فہرست تھی۔ 

Arshad Waheed
ارشد وحید

ارشد وحید نے یہ ناول ایک رومانوی ماحول کے اندر رہتے ہوئے لکھا تو ضرور، لیکن کہیں بھی رومانیت نہیں تھی۔ انھوں نے انفرادی اور اجتماعی جذبات، احساسات اور خواہشات کو کہانی کے اندر ایسے سمویا ہے کہ انسان کی سوچ کی خود غرضی کے ساتھ ساتھ اس کا بے لاگ پن تمام تر تضادات کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

گمان کا آغاز ایوب خان کے خلاف ہونے والی تحریک سے ہوتا ہے اور بھٹو کے دور میں سے گزر کر ضیاء الحق کے آخری دنوں تک چلتا ہے۔ کبیر جب اس نظریاتی جد و جہد کا حصہ بنتا ہے تو وہ اپنے ساتھ امیدوں کو بھی لے کر میدانِ عمل میں اترتا ہے اور آخر میں وہ ایک شکست خوردہ اور مایوس شخص ہوتا ہے۔ کیا نظریہ اور امید اسے چھوڑ گئے؟

ارشد وحید کا ناول اپنے دور کے چند اہم ناولوں میں اس لیے شمار کیا جاتا ہے کی یہ بائیں بازو کی تحریک پر ایسی تحقیق ہے جس میں اس نے حقائق کو ایسے قصے میں بیان کیا ہے جو معلوماتی ہونے کے ساتھ ایک المیہ بھی ہے۔ 

جب بات المیوں کی ہو رہی ہو تو ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ترقی پسند تحریک پر تحقیق کرنے والے بھی اس ناول کا کم ہی ذکر کرتے ہیں۔